سنگاپور کی پہلی مسلم خاتون صدر نے مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود حلف اٹھا لیا۔حلیمہ یعقوب کو بغیر ووٹ حاصل کیے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق سنگاپور کی مالے مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی سابق پارلیمانی اسپیکر حلیمہ یعقوب نے، انتظامیہ کی جانب سے ان کے حریفوں کو صدر کی اہلیت کے سخت معیار پر پورا نہ اترنے کے اعلان کے بعد صدارتی دوڑ میں کامیابی حاصل کی تھی۔اگرچہ سنگاپور میں صدر کا عہدہ بڑی حد تک رسمی ہے، تاہم صدر کے پاس اہم سرکاری تقرریوں کو ویٹو کرنے کا اختیار ہے۔
صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد 63 سالہ حلیمہ یعقوب نے اپنے پہلے خطاب میں پورے مرحلے کے دوران جنم لینے والی نسلی کشیدگی کو ختم کرنے اور بغیر تعصب، نسل، زبان اور مذہب کے خود کو سنگاپور کے تمام شہریوں کا صدر منوانے کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ’میں اس دن کا انتظار کر رہی ہوں جب ہمیں مخصوص نشستوں پر انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور سنگاپوری افراد قدرتی طور پر اور باقاعدگی سے تمام نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کو صدر منتخب کرتے رہے ہیں۔‘حلیمہ یعقوب صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے استعفیٰ دینے سے قبل تقریباً دو دہائیوں تک سنگاپور کی حکمراں جماعت پیپلز ایکشن پارٹی کی نشست پر رکن پارلیمنٹ رہی ہیں۔
انتظامیہ نے حلیمہ یعقوب کو 55 لاکھ افراد پر مشتمل مالے برادری میں ہم آہنگی کو فروغ اور ملک کی اقلیتوں کو زیادہ مواقع دینے کے لیے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔حلیمہ یعقوب گزشتہ پانچ دہائیوں میں مالے برادری سے تعلق رکھنے والی سنگاپور کی پہلی صدر ہیں۔اس سے قبل مالے برادری کے یوسف اسحٰق 1965 سے 1970 تک صدارت کے عہدے پر فائز رہے تھے۔