تحریر : محمد اسلم مانی
تاریخ شاہد ہے کہ عشق و محبت ،سوز و گدازاور ہجر و فراق ازل سے تھل کا خاصہ رہا ہے ۔تھلوچڑ (تھل کا باسی )کو جتنا روزگار کا فکر لاحق رہتا ہے اس سے کہیں زیاد ہ وہ عشق و محبت، سوز و گداز اور ہجر و فراق کی آتش میں جلتا ہو ا بھی دیکھا ئی دیتا ہے ۔ چاہے جَت (شطربان) ہو یا چھیڑو (گڈریا)عشق ومحبت ،سوز و گداز اور ہجر و فراق کا ا ظہار عالمِ تنہائی میں پُرسوز لہجے میں ایک ہا تھ کان پر رکھ کر جب دوہڑھے کی “تان ” لگاتا ہے توصحرائے تھل میں گونجتی ہوئی مسحور کن آواز عشق و محبت سے عاری وانکاری، سو ز و گداز سے بے نیا ز ، اورہجر و فراق سے نابلد ، لو گوں کے پتھر دل پر عشق و محبت ،سو ز و گداز،ور ہجر و فراق کے اَن مٹ نقوش ثبت کر دیتی ہے۔
پھر اس مسحو رکن آوازکے سحر سے جنم لینے والی تھل کی خوبصورت آوازوں نے عشق و محبت کے پیکر تھلو چڑ کی عشق و محبت کی ترجمانی اور اس کی مسحور کن آواز کی نقالی کر تے ہوئے بے شمار تھل کی خوبصورت آوازوں کا سنگ بنادیا ۔ اس سنگ میں شامل آوازیں منصور علی ملنگی ، عطاء اللہ عیسٰی خیلوی ، اللہ ڈتہ لونے والا، طالب حسین درد،محمد حسین بندیال، رنگ علی رنگو،احمد نواز چھینہ قابل ذکر ہیں ۔اس سنگ میں شامل ہونے والی تھل کی ایک نئی ، خوبصورت اور نوجوان آواز “بالی جٹی ” بھی ہے۔
لیہ شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان روڈ لیہ کی مشرقی جانب ریلوے لائن کے احاطے عزیز فارم میں واقع پکھی واس ماحول میں جنم لینے والی اقبال بانو کے کانوںسے، وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل جھانجھر کی جھنکار، چمٹاکی کھنک ، طبلہ و ڈھولک کی دھمک او ر ہار مونیم کے حلق سے “سا رے گاما پادھا نی سا ” طرزپر معرض وجود میںآنے والی ساتوں سُر سے نکلنے والے وہ سارے راگوں کی محسورکن لہریں ٹکراتی ہیں تو اس سے اقبال بانوکے دوسرے جنم کا آغاز ایک خوبصورت آواز کی مالک گلوکارہ بالی جٹی سے ہو تاہے۔آپ نے فنِ موسیقی اپنے شفیق ومہربان باپ استاد کریم علی ملنگی کے زیرسایہ حاصل کیا۔
پندرہ سال کی عمر میں گلوکاری کی باقاعدہ شروعات تھیٹرز سے کیا جس میں نامور تھیٹرز استاد گامن ، استاد منظور، استاد اللہ بخش میں متعدد بار اپنے فن کی بدولت پزیرائی حاصل کر چکی ہے اور وسیب کے مشہور ومعروف مزاحیہ فنکار فیضواور اکرم نظامی کے ہمراہ کئی بار اسٹیج شو میں جلوہ گر ی کا بھی اعزاز حاصل ہے اور اقبال بانو والیم کے نام سے ایک آڈیوکیسٹ بھی ریکارڈ ہوئی۔بالی جٹی کی پُر سوز سریلی آواز کی بدولت آپ کے پرستار آپ کو تھل کی کو ئل کے نام سے پکارتے ہیں۔ موسیقی سنگت میں روایتی آلاتِ موسیقی میںسے چمٹا کا استعمال آپ کی گائیکی میںنکھار اور جدت پید اکر تے ہوئے سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
تعلیم اللہ اللہ رکھنے والی شاید واحد گلوکار ہ ہوگی جو تین چارگھنٹے مسلسل زبانی گیت ، غزلیں ، ڈوھڑے ماہئیے گا تی ہے ۔ یہ سب کچھ یاد کرانے میں بالی جٹی کے چچا عبدالعزیز جو ایک پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے چمٹاماسٹر بھی ہیںکا کردارشامل ہے۔
اس بات کا بالی جٹی کو بہت ہی احسا س ہے کہ کاش! ” مَیں تعلیم یافتہ ہوتی تو مَیں بھی پاکستان کی تعلیم یافتہ گلوکارائوں کی طر ح کردار ادا کرتی اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرتی ۔ آپ کے مشہورترین گیتوں میں سے جس گیت کوسب سے زیا دہ مقبولیت ِعام کا درجہ حاصل ہے جو ہر خا ص و عام سامعین کی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ خو د بالی جٹی کی دکھ درد اور احساس محرومی کی عکاسی بھی کرتاہے جس کے بول درج ذیل ہیں :
کریںڈھولناوفا …….. نہ ڈیوے کوئی گلے
یاری لا کے نہ چھوڑیں……. سارا جگ نہ کھلے
رو ہ روہی ، تھل دامان اور چولستان کے دور افتاد علاقوں میں بسنے والے وسیبیوںکی خوشیوں کو چارچاند لگانے والی بالی جٹی کی نجی زندگی دکھوں اور کوفتوں کے حصار میں گھری ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ایک موٹر سائکل حادثے میں آپ کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے تقریباً دو سال تک آپ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھیں تو آپ کے خاوند نے ایک ناکارہ عورت سمجھ کر اپنی زندگی سے دوبچوں سمیت بالی جٹی کو علیحدہ کر دیا۔
جہاںآپ کے پَری وار میں سے چچارحیم علی ملنگی ،چچاعبدالعزیزاور والد کریم علی ملنگی کی بھرپور تعاون رہاو ہاں آپ نے بھی ہمت و حوصلہ کے ساتھ ان سنگین حالا ت ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ہر محفل میں عوام الناس کو ایک پیغام دیتی ہوئی دِکھائی دیتی ہیں کہ ہمیں پاکستان کو نامساعد حالا ت سے نکالنے کے لئے امن ومحبت کا عملی مظاہر ہ کرتے ہوئے بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ امید ہے تھل کی یہ جٹی اپنی پُر سحر آواز سے دلوں کو موہتی رہیں گی۔
تحریر : محمد اسلم مانی
maslamly79@yahoo.com
0307-6544391