تحریر: رشید احمد نعیم
ایک تھا لکڑ ہارا ۔جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بڑی مشکل سے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ایک دن لکڑیاں کاٹتے کاٹتے سوچنے لگا کہ زندگی اس ڈھب سے کیسے گزرے گی اچانک اسے ”لکڑہارے کی دیانت داری”والی کہانی یاد آئی جو بچپن سے اس نے اپنے دادا سے سنی تھی۔ ٹھیک طریقے سے یاد نہ تھی ذہن پر زور دیا تو کچھ کچھ یاد آنے لگی۔ اس کہانی میں چونکہ دریا کا ہونا ضروری تھا اس لیے دریا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ جنگل سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر دریا ہے دوسرے دن علی الصبح دریا پر کلہاڑا ڈبونے کا منصوبہ بنایا۔بیوی کو ہم راز بنا لیااور کہا کہ کسی سنار سے بات کر رکھے جو اچھے اور نقد دام دے سکے کم از کم اتنے کہ گلبرگ میں جا کر کوٹھی بنا سکیں۔
اگلے دن صبح سویرے دریا پر خوشی خوشی پہنچا اور پہنچتے ہی چھپاک سے کلہاڑا دریا میں گرا دیا اور لگا زور زور سے رونے۔کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھ لیتا کہ فرشتہ آکر واپس نہ چلا جائے۔تھوڑی دیر بعد کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا بہت خوش ہوا ،مڑ کر دیکھا تو ایک فرشتہ پولیس کی وردی زیب تن کیے کھڑا تھا۔حیرت ہوئی کہ فرشتے کیونکر پولیس کی وردی پہننے لگے۔بہر حال یہ نظامِِ قدرت تھا جس میں دخل اندازی کا اسے کوئی حق نہ تھا ۔وردی پوش فرشتے نے پوچھا اس وقت دریا کے کنارے کھڑا کیوں رو رہا ہے۔بتایا کہ غریب لکڑہارا ہوں ،لکڑیاں کاٹ کر بیوی بچوں کو پالتا ہوں۔آج یہاں اس جگہ لکڑیاں کاٹنے لگا تھا کہ کلہاڑا دریا میں گرگیایہی واحد ذریعہ آمدن تھا اب میں کیا کروں گا یہ بتا کر زور زور سے رونے لگا۔
وردی پوش فرشتے نے کہا”ابے تیرا دماغ تو نہیں چل گیایہاں کون سا درخت ہے جس سے لکڑیاں کاٹ رہے تھے، یہاں تو دور دور تک کوئی درخت نہیں مجھے تو تم مشکوک آدمی لگ رہے ہوآج کل یہاں بہت ڈکیتیاں ہورہی ہیں۔تم کوئی ڈکیت تو نہیں ہو؟ چلو میرے ساتھ پولیس چوکی”لکڑ ہارے کو احساس ہوا کہ وہ کہانی کے غلط پلاٹ کے ساتھ غلط جگہ پھنس گیا ہے۔بہت کوشش کی اپنی صفائی دینے کی مگر فرشتہ اسے جکڑ کر پولیس چوکی لے گیا۔
وہاں اور فرشتے بھی موجود تھے انھوں نے خوب دھلائی کی۔کہانی کا درست نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کہانی کے درست کوائف ،محلِ وقوع،پلاٹ اور بالخصوص کرداروں کا صحیح علم ہونا ضروری ہے۔کیونکہ کہانی کے درست کوائف، محلِ وقوع، پلاٹ ،مناسب وقت اور کرداروں کے صحیح علم کے بغیر جوکوئی کام بھی کیا جائے۔
اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے اپو زیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب ! اس کہانی کو غور سے پڑھیے ! اس میں آپ اور آپ کے ہم خیال سیاستدانوں کے لیے فکر انگیز سبق ہی پاکستانی عوام کی ہر دلعزیز آرمی کے بارے میں آپ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کے دھرنے کے موقع پر آپ نے” جو انئٹ اسمبلی سیشن”میں ”سٹیٹیس کو ” کو یکجا کر کے جو سونے کا کلہاڑا حاصل کر لیا تھا۔
اس کی چمک دمک سے آپکی آنکھیں ابھی تک چندھیائی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے آپکو صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے اور آپ حالات و واقعات، زمینی حقائق اور موقع ومحل کی نزاکت کا ادراک کیے بغیر لب کشائی کر رہیں سونے کے کلہاڑے کی مزید طلب آپکو بے چین کیے ہوئے ہے مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ سونے کے دوسرے کلہاڑے کے حصول کی خواہش میں اپنا سب کچھ ”با وردی فرشتوں” کو دے بیٹھیں خدا کے لیے اس عوام پر رحم کریں ۔گڈ گورنس کی صورتِ حال کو بہتر ہونے د دیں۔
احتساب کے عمل کو جاری وساری رکھنے رہنے میںاپنا اہم کردار اداکریں کیونکہ عوام جینا چاہتی ہے۔ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ نہ چھینیں۔لوگوں کو امن وامان کی بہتر صورتِحال چاہیے،چادر اور چاردیواری کا تحفظ چاہیے،تعلیم و تربیت کی سہولت چاہیے، عوام صحت جیسی بنیادی ضرورت سے مستفید ہونا چاہیتی ہے،روزگار چاہتی ہے، منہ زور مہنگائی کا توڑ چاہتی ہے۔ اور یہ سب اس وقت ممکن ہے جب آپ سمیت تمام سیاستدانوں کی نیت میں اخلاص پیدا ہوگا اور آپ سب خلوصِ نیت سے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں گے ورنہ سونے کے کلہاڑے جمع کرنے کا شوق منزل سے دوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
تحریر: رشید احمد نعیم