تحریر : حفیظ خٹک
پانچ لاکھ روپے دے دو ورنہ آپ کی بیٹی کو اغوا کر کے ماردونگا۔ 17جنوری کو پھر یہی پرچی جس پر لکھا تھا کہ 5لاکھ روپے دے دو ورنہ بچی کو اغوا کرکے ماردیں گے اور اس کے نیچے میرا یہ موبائل نمبر 0302-7829301یہ پرچی پولیس کو دی گئی اور پولیس نے ان کے کہنے پر میرے خلاف18جنوری کو 5بجکر 20منٹ پر 384اور 385کا مقدمہ درج کردیا ۔ رپورٹ درج کرنے والے نے بھاری رشوت لے کر 7ATAکا بھی مقدمہ اس کے ساتھ ہی درج کیا ۔ دو دن بعد یعنی 20جنوری کو شام ساڑھے 7بجے پولیس نے میرے گھر پر چھاپہ مارا اور مجھے نہ پا کر پولیس واپس چلی۔
21جنوری کو میرے اسی موبائل نمبر پر فون آیا اور فون کرنے والے نے کہا کہ آپ نے 5لاکھ روپے کس چیز کے مانگے ہیں اور نہ دینے پر بچی کو مارنے کی دھمکی دی ہے ۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ میں ان جملوں کے جواب میں کہہ رہاہوں پوچھ رہاہوں کہ کس نے پرچی دی اور کس نے یہ ظلم کی بات کی ہے اور دوسری جانب سے فون بند ہوجاتا ہے۔ اسی روز شام 7بجکر 06منٹ پر انہی صاحب کا دوبارہ فون آتاہے اور اس بار وہ ذرا نرم لہجے میں بات کرتا ہے اور کہاتا ہے کہ آپ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں ۔ میں اسکو جواب دیتا ہوں کہ میں جمالی گوٹھ میں رہتا ہوں ، آپ کون ہیں لیکن اس نے اپنا تعارف کرائے بغیر ہی فون بند کردیا۔
اس فون کے بعد تو میں 15پر اطلاع دی اور اس کے بعد سی پی ایل سی میں بھی اطلاع کی۔ جس پر پتہ چلا کہ کال کرنے والے کا نمبر حمید اللہ مروت کے نام پر ہے۔ یہ مروت منظم سازش کے تحت مجھے پھنسانا چاہتا ہے۔ یہ صاحب 22جنوری کو ایزی پیسوں کا smsکرتا ہے جو کہ پہلے 15ہزار اور بعد ازاں25 ہزارروپے کا ہوتا ہے۔کچھ ہی دیر کے بعد وہ ایز ی پیسے وصول کرنے کا ایس ایم ایس بھی میرے نمبر پر آجاتا ہے۔ جبکہ پاس ورڈ کا ایس ایم ایس دو گھنٹوں کے بعد آتا ہے۔ اس صورتحال کے بعد بعد میری ذہنی حالت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ میرا پرانا مرض جو کہ کینسر تھا اور اس کا علاج 90فیصد کر چکا تھااس کے نتائج مثبت انداز میں سامنے آرہے تھے اور میں عام انسانوں کی طرح کام کرتا تھا لیکن ان دو فون کالز کے بعد میری کینسر والی حالت بگڑنے لگی۔
جنوری کے آخری دنوں میں ہی میرے گھر پر سادہ کپڑوں میں ملبوس چند لوگ آئے جو کہ حمید اللہ مروت کے بیٹے اور عزیز تھے انہوں نے میری بیوی اور بچوں پر تشدد کیا۔ بیوی اور بیٹی سے سونا چھینا، گھر میں موجود رقم بھی لوٹی اور بیٹے کو مارتے ہوئے اغوا کرنے کی کوشش کی ، جس پر میری بیوی بیٹے کو بچانے کیلئے اس کے پاس آگئیں اور کہا کہ اگر اسے لے کر جانا ہے تو پہلے مجھے ماردو ، اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو دور ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ بیٹے نے اپنی ماں سے کہا کہ کیا آپ نے رینجرز کو مطلع کر دیا ہے جس پر اس کی ماں نے کہا کہ ہاں اطلاع کر دی ہے ۔وہ لوگ آتے ہیں ہوں گے۔ یہ سن کر وہ سب غنڈے بھاگ گئے۔وہ سارے بدمعاش میرے گھر سے نقد رقم ، بیوی اور بیٹی سے سونا چھینتے ہوئے گئے اور مجھے 8لاکھ سے زائد روپے کا مالی نقصان پہنچایا۔
اس نقصان کے ساتھ میری بیوی کی آنکھ میں لگنے والی چوٹ کے سبب ابھی تک ان کی بینائی کا معاملہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ان نقصانات کے ساتھ مجھے دھمکیاں الگ سے مل رہی ہیں۔ میرے اس معاملے کو حل کر نے کیلئے جب علاقے کے معززین امام مسجد کے ہمراہ مخالفین کے پاس گئے تو انہوں نے یہ کہا کہ وہ اس صورت میں اپنا مقدمہ واپس لیں گے جب ڈاکٹر عبید الرحمن راشد خود کو پولیس کے حوالے کریگا اورتین ماہ تک ان کے پاس ہی رہے گا۔ اسکی اس بات کو معززین نے ماننے سے انکار کردیا اور اسے کہا کہ اس کا یہ اقدام غلط ہے تا ہم اس کے باوجود وہ ظالم پولیس کی مدد سے میرے اوپر ظلم ڈھانا چاہتا ہے۔ سی پی ایل سی سے جب میں نے رابطہ کیا اور آنے والی کالز کی تفصیلات اور ایس ایم ایس کا ریکارڈ جاننا چاہا تو وہاں بھی مجھے تفصیلا ت جو فراہم کی گئیں ان سے میری آنکھیں مزید کھل گئیں۔ انہوں نے ایک نمبر سے میرے موبائل نمبر پر ایزی پیسے سے رقم بھیجی اور جو وقت بھیجنے کا تھا اس کے فوری بعد اسی نمبر سے رقم وصول بھی گئی ۔ جب کہ مجھے ایس ایم ایس اس پورے عمل کے چند گھنٹوں بعدموصول ہوا۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ وہ سب بڑی منظم منصوبہ بندی کے ذریعے میرے خلا ف اپنی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ 7ATAکا مقدمہ جس میں دو سال سے قبل ضمانت نہیں ہوتی وہ میرے خلاف پولیس نے درج کیا جب کہ اس تھانے والے اس بات کو بھی جانتے تھے کہ میں ایک صاف و شفاف خدائی خدمت گار انسان ہوں میری ذات سے اہل محلہ و اہل علاقہ کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ 2008کے عام انتخابات میں ، عوامی دبائو پر میں نے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب بھی لڑا تھا جس میں مجھے ناکامی تو ہوئی تھی تاہم عوام نے میری توقعات سے بڑھ کر مجھے ووٹ دیئے تھے ۔ اس دوران اور اس کے بعد بھی آج اس واحد ایک مقدمے کے علاوہ میرے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ لیکن یہ اب جو میرے اور میرے اہل خانہ کے خلاف جس منظم اور مذموم سازش کے تخت کاروائی ہورہی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ وہ ظالم حمید اللہ مروت مجھے اپنے راستے سے ہٹا کر اپنے ملک اور عوام دشمن کاموں کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
میں ایک شریف اور ذمہ دار شہری ہوں میں نے آج تک کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا بلکہ میں تو حکومت کو باقاعدگی سے ٹیکس دیتا رہا ہوں جس کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے۔ ان سماجی سرگرمیوں کے علاوہ ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی حیثیت سے عوام کی خدمت سرانجام دیتا ہوں ۔ محلے داروں ، اہل علاقہ سمیت دیگر سبھی جاننے والے میرے کردار اور خدمات سے واقف ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ بات بہت واضح کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے اللہ پر یقین ہے کہ میرے ساتھ انصاف ہوگا جس کی ایک چھوٹی سی جھلک یہ ہے کہ مجھے مقدمات میں ضمانت حاصل ہوئی ، وکیل جو میرا مقدمہ لڑ رہے ہیںاور مجھے انصاف فراہم کرنے کیلئے پوری جدوجہد کر رہے ہیں انہیں اول تو بری حیرت ہوئی تاہم اس کے بعد وہ اپنے فرائض احسن انداز میں نبھانے کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں جن سے میں اب گذر رہا ہوں میرا پرانا کینسر کا مرض دوبارہ سے اجاگر ہونا شروع ہوگیا ہے۔ جس سے مجھے تکلیف کا سامنا ہے۔
کینسر کی تکلیف ہو، یا میری زوجہ کی بینائی کی، میرے بچوں کا درد ہویا میرے عزیز و اقارب کی تکالیف کا، میرے سابقہ کاموں کا معاملہ ہو یا میری خدمات کا میں ان سب معاملات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس نئے مقدمے کو ایک سازش سمجھ کر اس کا مقابلہ کر رہا ہوں اور کروں گا۔ مجھے اپنے آپ پر ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ پر ، اہل محلہ و عزیز ودوست احباب پر، اپنے ملک کے قانون پر اس کے نظام پر ، شہر قائد میں جاری آپریشن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اور سب سے بڑھ کر اللہ پر اس بات کا یقین ہے کہ مجھے انصاف ملے گا اللہ مجھے انصاف دلائے گا اس مقدمے میں بھی اور اس امتحان میں بھی۔
میرے ملک کے اس قانون میں مجھے انصاف ملے گا اور ظالموں کو اس ہر بار کی طرح اس بار اس معاملے میں بھی شکست ہوگی۔ پولیس کے ان افراد کیلئے جو اس معاملے میں ان کے شانہ بشانہ ہیں اور حمید اللہ مروت و اس کے دیگر سبھی ساتھیوں کیلئے میں تہہ دل سے دعاگو ہوں کہ اللہ انہیں معاف فرمائے اور انہیں غلط کاموں سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، امین۔
ڈاکٹر عبید الرحمن راشد سے ایک قلم کار اور ایک سماجی کارکن کی حیثیت شناسائی رہا چند گھنٹوں کی ملاقات کے دوران جو گفتگو انہوں نے جذبات کے ساتھ سامنے رکھی اس کی اپنی ایک الگ داستان ہے۔ جو باتیں ، واقعات ان کی زبانی سامنے آئے انہیں اس امید کے ساتھ قلم کے ذریعے منتقل کیا کہ ہمارے معاشرے میں کہ جہاں منظم انداز میں برائی کو پھیلانے کیلئے منصوبہ بندی اور اس پر عمل ہورہا ہے ، اسکولوں ، کالجوں ، مسجدوں اور عام بازاروں میں انسانوں کے خون سے خولی کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ ان تمام سازشوں کا مقابلہ جس طرح ہماری بہادر افواج ، و قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ہماری حکومت و عوام کر رہی ہے ، ان شاءاللہ ایک وقت ایسا ضرور آئیگا جب اس ملک کی عوام ان سازشوں سے جیتے گی۔
اس ملک کی حکومت جیتے گی ، اس ملک کا قانون ، اور اس قانون کونافذ کرنے والے اداروں ، اس قانون کے رکھوالے انصاف کیلئے لڑنے والے انصاف فراہم کرنے والے ،ہمت و استقامت سے مشکلات کا سامنا کرنے والے جیتیں گے۔ کامیاب ہوں گے ۔ اس ملک کو جرائم سے پاک کریں گے۔ بھتہ خوروں ، قاتلوں ، جرائم پیشائوں ،اور مجرموں کا نصیب ہار ہے انہیں شکست ہوگی انہیں اپنے عزائم میں اپنے منصوبوں میں ہر طرح کی ہار ہوگی بالکل اسی انداز میں جس انداز میں انہیں شکست ہورہی ہے۔
ڈاکٹر عبید الرحمن راشد کو انصاف ملے گا ، ان کی تکالیف ختم ہوں گی اور وہ ایک بار پھر اسی انداز میں انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے اپنی خدمات سرانجام دیں گے جس انداز میں وہ یہ سارے کام ماضی میںانجام دیتے رہیں ہیں۔ عدالتوںمیں ان پر قائم مقدمات میں انہیں فتح حاصل ہو گی جس سے ان کا، ان کے ساتھ چلنے والوں کا اور ان کے ساتھ انہی کی طرز پر عام انسانوں کیلئے اس ملک کیلئے خدمات سرانجامدینے والوں کو حوصلہ بڑھے گا اور وہ سب مل کر زیادہ مثبت انداز میں آگے بڑھیں گے۔
تحریر : حفیظ خٹک
hafikht@gmial.com