افضال ریحان
وطن عزیز میں آج ہم ’’سرسید ڈے‘‘ منا رہے ہیں اور یہ دن ہم ہر سال 17اکتوبر کو مناتے ہیں لیکن اتنی سادگی سے کہ کسی کو کان و کان خبر تک نہیں ہونے دیتے۔ کہیں کوئی تقریب ہوتی ہے نہ کیک کاٹا جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا چھوڑ پرنٹ میڈیا بھی اس مبارک دن کو اسی سادگی سے منانے کا عادی ہے۔ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ سرسید اتنی غیر اہم اور چھوٹی شخصیت ہیں کہ بڑے بڑے دانشوروں اور اخبار نویسوں کو بھی نظر نہیں آتے؟ یا پھر شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم اتنے چھوٹے ہیں، ہمارے شعور کی سطح اور فکر ہنوز اتنی پست ہے کہ سرسید جیسی مہان ہستی اس میں سما ہی نہیں سکی۔ دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں قصور وار کوئی اور نہیں خود محبان سرسید ہیں جو اتنے تن آسان، سہل پسند، کم کوس ہیں کہ اتنی جامع الصفات شخصیت اور اس کے افکار کو نسل نو تک منتقل کرنے کے لئے ان کے خون میں کوئی تپش نہیں ۔ ناچیز نے اپنے طور پربعض جفادری اخبار نویسوں سے لے کر سرکاری ذمہ داران تک اس حوالے سے کاوشیں کی ہیں لیکن ہنوز کامیابی بہت تھوڑی ملی ہے۔ پچھلے سال وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ کے پریس سیکرٹری نے بھی معاونت کا وعدہ کیا تھا۔ ایک آرزو ہے کہ سال 2017ء کو سرسید کے سال کی حیثیت سے منایا جائے۔ قومی سطح پر اس سلسلے میں علمی و فکری تقاریب ہوں،
جنوبی ایشیا میں سرسید وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے عصری تقاضوں کی مطابقت میں ہماری نئی نسلوں کو نہ صرف یہ کہ انگلش میڈیم تعلیم پر لگایا بلکہ جدید سائنٹفک علوم کی دسترس پر بھی اکسایا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے روایتی حلقوں میں انگریزی یا سائنسی مضامین پڑھنے کو گناہ اور بے دینی و الحاد قرار دیا جا رہا تھا۔ اکبر الٰہ آبادی جیسے ان کے ہم عصر یہاں تک کہہ رہے تھے۔
یوں قتل میں بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علی گڑھ کالج قائم کرنے کےلئے سرسید نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال دی کیسے کیسے طنز و تضحیک کے نشتر اس بزر گ دانائے راز پر چلائے گئے۔مگر سرسید نے عصری علوم کی مناسبت سے جدید تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی اور پھر دیئے سے دیا جلاتے ہوئے حیدرآباددکن سے پنجاب اور سندھ تک پورے ہندوستان میں اس کی کڑیاں اور لڑیاں پھیلائیں جس کی برکت سے درماندہ مسلمان نوجوان اپنے پائوں پر کھڑے ہونےکے قابل ہوگئے۔
آج اس مردِ خود آگاہ کی فکری عظمت کا کمال ہے کہ مسلمانان ِ جنوبی ایشیا جدید تعلیم اور علوم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اپنی ہم عصر اقوام کے دوش بدوش چلنے کے قابل ہیں آج ہر خطے میں ان کے کالجز اور یونیورسٹیوں کے جال بچھے ہوئے ہیں اور ہر ہر شعبہ ٔ حیات کے ماہرین تیار ہوکر قوم کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
سرسید ہماری قومی زندگی کے محض ماضی تک نہیں بلکہ حال اور ستقبل کے بھی معمار ہیں وہ کیسے؟ ہم اس باریک نکتے کو تھوڑی وضاحت سے کھولتے ہیں جس طرح 19ویں صدی کاپھیلایا ہوا یہ پروپیگنڈہ تھا کہ انگریزی اور ماڈرن سائنٹفک علوم پر دسترس حاصل کرنا گناہ اور معصیت سے خالی نہیں اسی طرح آج بھی ہمارے نہاںخانوں میں دھنسی ہوئی قدامت پسندی اتنی شدید ہے کہ طرز کہن پر اڑنا اور آئین نوسے ڈرنا جیسے ہماری گھٹی میں ہے۔محض جینز پہن لینے یا کلین شیو ہو جانے سے دماغ میں سائنٹفک علوم نہیں آ جاتے۔ چلیں بظاہر وہ بھی آگئے آپ نے الحمد للہ انجینئرنگ یا ڈاکٹری بھی پاس کرلی کمپیوٹر سائنسز میں بھی پی ایچ ڈی کر آئے تو کیا کائنات اور سوسائٹی کے حوالے سے آپ کے اندر بلند فکری اور روشن خیالی بھی آپ سے آپ آ گئی، اگر آپ دوسرے عقیدے والوں کو حقارت آمیز امتیازی نظروں سے دیکھتے ہیں، آپ قومی، نسلی، وطنی، مذہبی، لسانی یا آبائی تفاخر کے انہی تعصبات میں مبتلا ہیں، اگر آپ میں رواداری، برداشت، تہذیب اور انسانیت نہیں آئی ہے تو یقین رکھیے سر سیداور ان کے بچھائے ہوئے جدید تعلیمی اداروں نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا ہے۔ بلاشبہ انہوں نے آپ کو جہالت یا اندھے تعصب سے ایک Step اوپر ضرور کر دیا ہے لیکن اُن کا مطمح نظر یہاں تک ہرگز نہیں تھا۔ وہ آپ کو سوسائٹی کا ایسا کارآمد فرد دیکھنا چاہتے تھے جو انسانی دکھوں کو بلاتمیز اپنے سینے میں نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سوسائٹی کے لئے کچھ کر گزرنے کا داعیہ بھی رکھتا ہے۔
مجھے ایک دن محترم ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ کہا کہ آج میں اگر مسلمان ہوں تو اس کا کریڈٹ سر سید کو جاتا ہے، میرے استفسار پر انہوں نے مجھے سر سید کی تفسیر کے حوالہ جات نکال کر دکھائے۔ جنوبی ایشیاء میں سرسید وہ پہلے مسلم سکالر ہیں جنہوں نے صرف تفسیر القرآن ہی نہیں لکھی بلکہ بائبل کی تفسیر تبعین الکلام بھی تحریر فرمائی۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ مسلم شعور جوں جوں روایت و قدامت کی اسیری سے نکل کر فکری بلندی کی طرف گامزن ہو گا، سر سید کے سائنٹفک افکار کو قدم بہ قدم اپنے سامنے محسوس کرے گا، تب اُس کے اندر سے یہ آواز ازخود آئے گی کہ سر سید ہمارے ماضی کے ہی نہیں حال اور مستقبل کے بھی امام و قائد اور پیر و مرشد ہیں۔
اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اعترافِ عظمت کرتے ہوئے اپنے نونہالوں کو سرسید اور ان کی سائنٹفک فکر کے قریب لائیں، اُن کی حقائق شناسی اور حقیقت پسندی سے آگہی بخشیں۔ اقبالؒ اور قائدؒ نے اُن کی جن خدمات کے سامنے سرجھکایا ہے ایک قومی امانت خیال کرتے ہوئے اُسے آگے پہنچائیں۔
ہم مانیں نہ مانیں ہماری قومی سوچ میں روایت اور جدت کی ایک کشمکش چل رہی ہے اگر ہم نے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اقوام عالم کے دوش بدوش چلتے ہوئے سربلند ہونا ہے تو ہمیں روایت کا احترام رکھتے ہوئے جدت کو توانائی بخشنا ہو گی اِس سفر میں جو شخصیت ہماری معیاری فکری رہنمائی کر سکتی ہے، اس کا نام سرسیدہے۔
جسے بلاخوف اس قدر اجنبیت میں رکھا گیا ہے کہ لاہور جیسے شہر میں بھی کوئی بڑی سڑک، عمارت یا ادارہ اس کے نام سے منسوب نہیں ہے، اس سے انہیں فرق پڑے نہ پڑے ہمیں پڑتا ہے، ہمارے نونہالوں کی اگر اُن سے شناسائی نہ ہوئی تو فیضیابی کیونکر ہو سکے گی۔ سائنٹفک اپروچ ڈویلپ کرنے میں معاونت کیسے مل سکے گی۔ اقبالؒ ’’سید کی لوح تربت‘‘ پر کیا خوب نمائندگی کرتے ہیں؎
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے