counter easy hit

سیرت و شہادت امام عالی مقام سیدالشہداء حضرت امام حسین

Imam Hussein

Imam Hussein

تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی

قتل ِحسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ “بلاشبہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں اور (بشارت دیتے ہیں) کہ نہ تو تمہیں کسی (آنے والے خطرے) کا خوف ہون اچاہیے اور نہ ہی کسی (گذشتہ بات کا) رنج و ملال اور اُس جنت کی خوشخبری سنوجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (حم السجدہ آیت ٢٣) انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے دلوں میں اس واقعے کی یادتازہ ہوجاتی ہے جسے تاریخ “سانحہ کربلا “کے نام سے یاد کرتی ہے۔

دس محرم الحرام 61 ہجری کومیدان کربلا میںتاریخ اسلام کاانتہائی دردناک اوردلوںکوہلاکررکھ دینے والا سانحہ رونماہوا۔یزیدیوںنے نواسہ رسولۖلخت جگرسیدة النساء حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاوحضرت علی المرتضیٰ شیرخدا،حضرت امام حسین ،ان کی اولاد،اقرباء اور دیگر ساتھیوںکوانتہائی مظلومیت کے عالم میں شہیدکیا۔تاریخ اسلام میں اوربھی بہت سی جانیں اللہ کی بارگاہ میں قربان ہوئی ہیں ہرشہادت کی اہمیت وافادیت مُسلمّ ہے مگرشہادت سیدناامام عالی مقام حضرت امام حسین کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت وشہرت اس لئے بڑھ کرہے کہ کربلاکے میدان میں شہیدہونے والوں کی آقائے دوجہاں سرورکون ومکان ۖسے خاص نسبتیں ہیں۔یہ داستان شہادت گلشن نبوتۖکے کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں۔تاریخ کے کسی دورمیں بھی امت مسلمہ کربلاکی داستان کوبھول نہیں سکتی ۔ سیدناحضرت امام حسین نے اپنی جان تواللہ کے نام پرقربان کردی مگرباطل کے آگے سرنہ جھکایا۔سوال پیداہوتاہے کہ سیدناحضرت امام حسیننے یزیدسے ٹکرکیوںلی؟آپ نے یزیدکی حکومت کوماننے سے انکارکیوںکیا؟حقیقت میں اس کی وجہ یہ تھی امام عالی مقام یہ جانتے تھے کہ یزیدکی حکومت ایک ظالم حکومت ہے۔

یہ اسلام کی تاریخ کومسخ کرکے ایک نئے دورکاآغازکرنے والی ہے۔بہارشریعت میں صدرالشریعہ حضرت مولاناامجدعلی فرماتے ہیں۔یزیدپلیدفاسق وفاجرمرتکب کبائرتھامعاذاللہ اس کو ریحانہ رسول ۖ سیدناحضرت امام حسین سے کیانسبت!آج کل جوبعض گمراہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے مقابلہ میں کیادخل ہے۔ہمارے وہ بھی شہزادے ،وہ بھی شہزادے ایسابکنے والامردودخارجی ناصبی مستحق جہنم ہے ہاں یزیدکوکافرکہنے اوراس پرلعنت کرنے میں علمائے اہل سنت کے تین قول ہیں اورہمارے امام اعظم کامسلک سکوت یعنی ہم اسے فاسق وفاجرکہنے کے سوانہ کافرکہیں نہ مسلمان۔(بہارشریعت)وجہ یہی تھی کہ حضرت امام حسیننے مدینہ پاک (وہ مدینہ جس کے بارے میں میرے نبی کریم ۖ نے فرمایا”کہ میراکوئی امتی مدینہ کی سختیوں اورتکلیف پرصبرکرے گاتومیں قیامت کے دن اسکاشفیع ہوںگا)کے آرام کوچھوڑکرایک مشکل اورکٹھن سفرپرچل پڑے آپ نے رخصت کی راہ نہیں اپنائی بلکہ اس موقع پرآپ نے ارشادفرمایاتھا:میں حسین ابن علی ہوںجسے نبی کریمۖنے اپنے کاندھوںکی سواری دی ہے اگرمیں بھی رخصت کی راہ پرچل پڑاتوقیامت تک ظالم اورجابروںکے سامنے کلمئہ حق اداکرنے کی رسم اورسنت ختم ہوجائے گی۔سنت مصطفیٰۖ ختم ہوجائے گی۔ظالم کے سامنے کلمۂ حق بلندکرنے کاطریقہ ختم ہوجائے گا۔جرات وآزادی کاراستہ اسلام کی تاریخ میں بندہوجائے گا۔اللہ رب العزت نے نبی کریمۖکومَاکَانَ وَمَایَکُوْن کا علم عطافرمایا۔نبی علیہ الصّلوٰة والسلام نے مخلوقات کی ابتداء سے لیکرجنتیوں کے جنت میں جانے اوردوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک کے سب حالات اپنے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمادیے تھے۔

سیدناامیرالمومنین عمرفاروق فرماتے ہیں “کہ حضورۖنے ابتداء خلق سے لیکرجنتیوں کے جنت میں داخل ہونے اوردوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک ہمیں سب کچھ بتادیایادرکھااسکوجس نے یادرکھااوربھلادیااسکوجس نے بھلادیا۔(بخاری شریف) ایک بارنبیوںکے سردارۖاپنے نواسے سیدالشہداء حضرت امام حسین اوراپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کوگودمیں لئے بیٹھے تھے کہ حضرت جبرائیل امین حاضرخدمت ہوئے اورعرض کیایارسول اللہۖ!اللہ تعالیٰ کہتاہے ان میں سے ایک کوتوُچن لے یہ دونوں آپۖکے پاس ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔چنانچہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام نے حضرت امام حسین کوچن لیاچنانچہ تیسرے روز آپۖکے صاحبزادے حضرت ابراہیم کاانتقال ہوگیا۔

حسین ابن علی نے کربلامیں یہ کیاثابت رہے جاری جونیزے پرتلاوت ہوتوایسی ہو
ولادت باسعادت سیدناامام عالی مقام

حضرت ام الفضل بنت الحارث بارگاہ نبوتۖمیں حاضرہوتی ہیں اورعرض کرتی ہیں ۔یارسول اللہۖ!میں نے ایک بہت بھیانک خواب دیکھاہے سرکارمدینہ راحت قلب وسینہ ۖنے فرمایااپناخواب بیان کرو۔آپ نے عرض کی یارسول اللہۖ!میں نے دیکھاہے کہ آپ کے جسم اقدس کاایک ٹکڑاکاٹ کرمیری آغوش میں رکھاگیاہے توآپۖنے ارشاد فرمایا(تونے اچھاخواب دیکھاہے انشاء اللہ تعالیٰ میری بیٹی فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاایک بیٹے کوجنم دے گی جوآپ کی آغوش میں آئے گا)چنانچہ امام عالی مقام حضرت امام حسین کی ولادت باسعادت5 شعبان ہجرت کے چوتھے سال ہوئی سرکارمدینہ ۖکوآپ کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو آپۖ تشریف لائے ۔ آپ کے کان میں اذان کہی دعافرمائی اورآپۖنے حسین نام رکھا ۔آپ کے نام رکھنے کی روایت یوںہے حضرت سیدناعلی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ جب امام حسن پیداہوئے توان کانام حمزہ رکھااورجب امام حسین پیداہوئے توان کانام ان کے چچاکے نام پرجعفر رکھا۔ (حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں )مجھے نبی کریمۖنے بلاکرفرمایامجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کاحکم دیاگیاہے (حضرت علی فرماتے ہیں )میں نے عرض کیا “اللہ اوراس کا رسولۖ بہترجانتے ہیں پس آپۖنے ان نام حسن وحسین رکھے۔( مسنداحمدبن حنبل) حدیث مبارکہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضورۖنے فرمایا”کہ مجھے حکم آیاہے کہ میں دونوں نام بدل دوں اس کامطلب یہ ہواکہ ولادت کے ساتھ ہی امام حسن وامام حسین کا معاملہ زمینی نہ رہانام تک بھی زمینی رکھنے کی اجازت نہ ہوئی بلکہ نام بھی آسمان سے بھیجے گئے امام حسین کودنیاکے پیمانوں پرتولنے والوامام حسین کانام بھی دنیاسے نہیں آیابلکہ آسمانوں سے بھیجاگیا۔حضرت عمران بن سلیمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دونام ہیںجو کہ زمانہ جاہلیت میں کسی کے نام نہیں رکھے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے حسن اورحسین کے نام چھپارکھے تھے حتیٰ کہ نبی کریم ۖ نے اپنے نواسوں کے نام حسن اورحسین رکھے تھے آپ سب سے زیادہ نبی کریمۖکے مشابہ تھے ۔ حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن سینہ سے سرتک حضورۖکی کامل شبیہہ ہیں اورامام عالی مقام حضرت امام حسینسینہ سے نیچے پائوں تک حضورۖکی کامل شبیہہ ہیں”۔ّ(جامع ترمذی) حلیہ مبارک سیدناامام عالی مقام کا سیرت نگاروں نے امام عالی مقام کاحلیہ مبارک یوں تحریرفرمایاہے ” میانہ قدنہ بہت لمبے نہ بہت چھوٹے ،گھنی داڑھی،چوڑی پیشانی ،شانے بڑے بڑے ہڈیاںموٹی ،ہاتھ مضبوط قدم وسیع ،بال گھنگریالے ،بدن چست وتوانارنگ بہت سفیدسرخی مائل،اورآوازبلندوبارعب جب آپ گفتگوفرماتے توآوازمترنم ہو جاتی۔

سیدناامام عالی مقام کابچپن مبارک وپرورش امام عالی مقام حضرت سیدامام حسین کواللہ رب العزت نے بہت زیادہ حسن دیاتھاجس کی دنیامیںمثال نہیں ملتی۔آپ کابچپنرسالت مآبۖ،سیدة النساء حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاوحضرت علی المرتضیٰ شیرخدا کی عظیم اورپاکیزہ گودمیں گزرا۔حضرت یعلیٰ بن مرُّہ فرماتے ہیں کہ حضورۖنے فرمایا” حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوںجوحسین کومحبوب رکھتاہے وہ اللہ کومحبوب رکھتاہے حسین فرزندوں میں سے ایک فرزندہے۔(ترمذی،مشکوٰة)حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمۖنے فرمایا “جس نے سیدناامام حسن وسیدناامام حسین کومحبوب رکھا اس نے درحقیت مجھے محبوب رکھاجس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے درحقیت مجھ سے بغض رکھا۔(المستدرک حاکم،البدایہ والنہایہ)حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضورۖسے پوچھاگیا”آپ کے اہل بیت میں سے کون آپ کوزیادہ محبوب ہے؟آپۖنے فرمایاسیدناامام حسن وسیدناامام حسین اورآپ ۖحضرت فاطمة الزہراسے فرماتے میرے دونوں بیٹوںکوبلائوتوآپ ۖدونوںکوسونگھتے اوراپنے سینہ مبارک سے چمٹالیتے حضرت حذیفہ فرماتے ہیںکہ میں نے اپنی والدہ سے کہاکہ میں مغرب کی نمازآقاۖکے ساتھ پڑھوں گااپنے اورتمہارے لئے بخشش کاسوال کرونگا۔آپ فرماتے ہیں کہ پس میں نبی کریمۖکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورآپۖکے ساتھ مغرب کی نمازپڑھی۔ یہاں تک کہ عشاء کی نمازبھی پڑھی پھرآپۖمسجدسے نکلے میں بھی آپۖکے پیچھے چل پڑاآپۖنے میرے چلنے کی آوازسنی توآپۖنے فرمایاکیاتوحذیفہ ہے؟میں نے عرض کیاجی ہاں یارسول اللہۖآپۖ نے فرمایاتجھے کیاحاجت ہے ؟اللہ پاک تجھ کواورتیری والدہ کوبخشے (پھر)فرمایایہ ایک فرشتہ ہے جواس رات سے پہلے کبھی زمین پرنازل نہیں ہوااس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اورمجھے یہ بشارت دینے کے لئے اجازت مانگی ہے کہ حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاجنت کی عورتوں کی سردارہے اورسیدناامام حسن وسیدناامام حسین جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔(ترمذی ) تربیت سیدناامام عالی مقام امام عالی مقام سات سال،سات ماہ اورسات دن تک حضورۖکے سایہ شفقت میں رہے اس تربیت نے آپ کے علم وفضل شجاعت وسخاوت تقویٰ وطہارت اورزہدوورع کی مکمل تصویربنادیاآپ نے آنکھیں کھولیں تورسول خداۖکی نمازیں علی المرتضیٰ شیرخدا کے سجدے اورسیدة النساء حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاکی قرآن پاک کی تلاوتیں سامنے تھیں۔آپ نے ساری زندگی اسی ذوق میں گذاری اسی وجہ سے آپ نے ظالم کے سامنے سرنہ جھکایابلکہ خالق کائنات کی بارگاہ میں اپنے سرکانذرانہ پیش کیا۔

آپ کی تربیت کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ زکوٰة کی کھجوروںکاٹوکرآقاۖکی خدمت اقدس میں حاضرکیاگیاتھاامام عالی مقام کابچپن تھاایک کھجور منہ میں رکھ لی آقاۖنے فوراََانگلی ڈال کرکھجورنکال دی اورفرمایاکَخْ کَخْ چھی چھی( یعنی نہ کھا)کیونکہ زکوٰة کامال سادات کرام پرحرام ہے۔ایک دفعہ آپ کے ہاں چندمعززمہمانوںکی دعوت تھی ایک غلام نے کھانے کاقیمتی برتن لاپرواہی میں توڑڈالاامام عالی مقامنے اس کی طرف غصہ سے دیکھاوہ غلام قرآن کریم کاعالم تھااس نے امام عالی مقام کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی ،وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ مومن غصہ کوپی جانے والے ہیں یہ سن کرامام عالی مقام نے فرمایاکَظَمْتُ غَیْظِیْ میں نے غصہ کوپی لیاپھراس غلام نے آیت کریمہ کااگلاحصہ تلاوت کیا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ اورلوگوں کومعاف کرنے والے آپ نے فرمایاعَفَوْتُ عَنْکَ میں نے تجھے معاف کردیاغلام نے اس سے آگے آیت کریمہ کااگلاحصہ تلاوت کیاوَاللّٰہ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اوراللہ پاک احسان کرنے والوں کوپسندکرتاہے آپ نے فرمایا میں نے تجھے اللہ پاک کے لئے آزادکیا۔حضرت زیدبن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضورۖسیدہ فاطمة الزہرا کے گھرکے دروازے کے پاس سے گزرے اورحضرت امام حسین کے رونے کی آوازسنی توآپۖنے فرمایا!بیٹی اسکورونے نہ دیاکروکیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسکے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔(نورالابصار) سخاوت سیدناامام عالی مقام سخاوت جوصفات انبیاء علیہم السلام میں سے ہے آپ کوبارگاہ نبوتۖسے خصوصی طورپرعطاہوئی تھی حضرت زینب بن ابی رافع سے روایت ہے کہ نبی کریمۖکے مرض وفات میں سیدة النساء حضرت فاطمة الزہرا اپنے دونوںبیٹوںکولے کربارگاہ نبویۖمیں حاضرہوئیں اورعرض کی یہ آپ کے دونوں بیٹے ہیں انہیں کوئی چیزعنایت فرمائیں آپۖنے فرمایاحضرت امام حسن کے حصہ میں میری ہیبت اورسرداری ہے امام عالی مقام حضرت امام حسین کے لئے میری جراء ت اورسخاوت ہے یہی وجہ تھی کہ آپ نے کائنات میں سخاوت کی وہ عظیم الشان مثال پیش کی جس نے سب کوحیرت میں ڈال دیا۔جب حضرت اسامہ کی رحلت کاوقت آیاتووہ بڑے پریشان تھے آپ تشریف لے گئے اورپریشانی کاسبب پوچھاانہوں نے عرض کی میں ساٹھ ہزارکامقروض ہوں اورموت کاوقت قریب ہے امام عالی مقام نے فرمایاآپ کاقرض میں اداکروں گاانہوں نے عرض کی میں چاہتاہوں کہ موت سے پہلے میراقرض اداہوجائے امام عالی مقام نے اسی وقت حضرت اسامہ کاقرض ادا کردیا۔حضرت انس بن مالککہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت امام حسینکی خدمت اقدس میں حاضرتھااتنے میں ایک کنیزآئی اوراس نے تبسم کے ساتھ ایک پھول امام حسین کی خدمت اقدس میں پیش کیاامام عالی مقام نے وہ پھول لیااسے سونگھااورارشادفرمایاجامیں نے تجھے اللہ پاک کے نام پرآزادکیاہے۔

حضرت انس نے عرض کیاآپ نے ایک معمولی پھول کے عوض اس کنیزکوآزادکردیاامام عالی مقام نے فرمایااے انس اللہ پاک کاقانون یہی ہے کہ اگرکوئی تمہیں تحفہ دے توتم اسے بہترتحفہ دواوراس کنیزکے لئے آزادی سے بڑھ کرکوئی تحفہ نہیں تھامیں نے اس لئے اسے آزادکردیا۔ایک مرتبہ آپ کاگزرایک ایسے مقام سے ہواجہاں پرکچھ غریب لوگ کھاناکھارہے تھے ان لوگوں کی نظرآپ پرپڑھی تواٹھ کرسلام کیااورانہوںنے امام عالی مقام کوکھاناکھانے کی دعوت دی آپ ان کے درمیان بیٹھ گئے اورارشاد فرمایا اگریہ صدقہ نہ ہوتاتومیں ضرورتمہارے ساتھ کھاتاچنانچہ آپ نے ان تما م کواپنے ساتھ اپنے گھرلایاخوب کھلایاپلایالباس عطاکیااور انہیں درہم دینے کاحکم دیا۔شعیب بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت کے بعدجب آپ کے بدن اقدس سے کپڑے اتارے گئے توآپ کی پشت مبارک پرنشانات پائے گئے جب امام زین العابدین سے ان نشانات کے بارے میں پوچھاگیاتوامام زین العابدین نے فرمایاکہ یہ بیوائوں ،یتیموں اورمساکین مدینہ کے گھروں میں کھانے پینے کے سامان کی باربرداری کے نشان ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگرزاہدواتقاء و پرہیزگاری ،عبادت وریاضت صبروشکرتسلیم ورضاوخشیت الٰہی جیسی اعلیٰ صفات مجسم کی جائیں توحضرت امام حسین کی ذات پاک کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں عبادت سیدناامام عالی مقام آپ بہت متقی پرہیزگاراورذوق عبادت کے مالک تھے کیوں نہ ہوجس کی والدہ سیدة النساء سیدہ کائنات اورخاتون جنت ہوںاوروالد گرامی علی المرتضیٰ شیرخدا ہوں ۔ ناناخاتم النبین رحمت العالمین حضرت محمدمصطفیۖ ہوں مستندروایات اورکتب میں درج ہے علامہ جزری لکھتے ہیں “کہ امام عالی مقام بکثرت نمازیں پڑھنے والے روزے رکھنے والے حج کرنے والے،صدقہ دینے والے اورنیکی کے کاموں میں بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے ۔آپ نے تقریباََ25حج پیدل کئے اسکے علاوہ ساری رات قیام اورسال کے اکثرایام میں روزہ رکھناآپ کی مبارک زندگی کامعمول رہانبی علیہ الصلوٰة والسلام امام عالی مقام سیدنا امام حسین سے بہت پیارکرتے تھے۔آپ ہرروزایک ہزاررکعت نمازنفل اداکرتے آپ کی زندگی قرآن پاک کی عملی تفسیرتھی ۔آپ قرآن پاک کی تلاوت دن رات کرتے تھے ایک دفعہ سیدنا حضرت امام حسن اورسیدناامام حسین پیدل حج کے لئے جارہے تھے آپ کے ساتھ حاجیوں کی ایک اورجماعت شامل ہوگئی لوگوں نے جب آپ کوپیدل چلتے ہوئے دیکھاتواحتراماََوہ لوگ بھی اپنی سواریوں سے اترکرآپ کے ساتھ پیدل چلنے لگے ۔کچھ دورتک تووہ لوگ پیدل چلے مگرکچھ دورتک چل کرتھکن سے نڈھال ہوگئے اورپیدل چلنے میں مشکلات پیش آنے لگیں ان میں سے چندلوگ اس قافلے میں شامل بزرگ حضرت سعدبن ابی وقاص کے پاس گئے اورعرض کرنے لگے اب ہمارے لئے پیدل چلنادشوراہورہاہے لہذا!آپ حسنین کریمین سے درخواست کریں کہ وہ سواری پرسوارہوجائیں ۔یہ سن کرحضرت امام حسین نے ارشادفرمایا۔یہ توممکن نہیں کہ ہم سوارہوجائیں کیونکہ ہم نے اپنے اوپریہی فرض قراردیاہے لیکن لوگوںکوتکلیف دینابھی گوارہ نہیں لہذاہم یہ راستہ چھوڑدیتے ہیں اوردوسراراستہ اختیارکرلیتے ہیں ۔روایات میں آتاہے کہ آپ کوبہت زیادہ لوگوں نے دیکھاتھاکہ جب آپ نمازاداکرتے توآپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے آپ کی عبادت میںبڑاخشوع خضوع تھا۔

شہادت سیدناامام عالی مقام ارشادباری تعالیٰ ہے اورہم ضرورتمہیں آزمائیں گے (کبھی)خوف اور(کبھی)بھوک (کبھی)جان مال وثمرات (دنیاوی نعمتوں اور اولاد) کی کمی کے ذریعے اور(ایسے حالات میں) صبرکرنے والوں کو(جنت کی بشارت)دے دیجیے۔(سورة البقرہ آیت ١٥٥)آپ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبرمشہورہوچکی تھی حضرت ام سلمہّ فرماتی ہیں کہ آپۖ نے ارشاد فرمایاکہ جبرائیل امین نے مجھے خبردی ہے کہ میرافرزندفرات میں شہیدکیاجائے گامیں نے جبریل امین سے کہاکہ ان کے مقتل کی مٹی لاکردکھائوپس یہ مٹی وہاں سے لائے ہیں وہ مٹی آپ ۖنے حضرت ام سلمہ کودے دی اورفرمایاجب یہ مٹی خون بن جائے گی تووہ میرے بیٹے کے قتل کادن ہوگا۔ترمذی شریف کی جلدثانی میں ہے ایک عورت کہتی ہے محرم کی دسویں تاریخ کومدینہ طیبہ میںحضرت ام سلمہ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئی میںنے دیکھاآپ رورہی ہیں میں نے رونے کی وجہ پوچھی توام المومنین نے فرمایامیں نے ابھی ابھی خواب دیکھاہے کہ رسول انورۖکے سرانورمبارک اورریش مبارک میں گردوغبارہے میں نے عرض کیایارسول اللہۖیہ کیابات ہے توآپۖنے فرمایا!میں ابھی کربلاسے آرہاہوں آج میراحسین قتل کردیاگیاہے.حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ مجھے وہی مٹی یادآگئی جونواسئہ رسول ۖکی پیدائش کے وقت جبرائیل نے میدان کربلاسے لاکرحضورۖکودی تھی اورنبی کریمۖنے وہ مٹی مجھے دے کرفرمایااس مٹی کواپنے پاس رکھوجس دن میراحسین قتل ہوگایہ مٹی خون بن جائے گی ۔حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی دیکھی توخون بن چکی تھی اس مٹی کومیں نے شیشی میں سنبھال کررکھاہواتھا۔

میدان کربلامیں عظیم مصائب کے وقت بھی آپ نے دن اللہ کے کلام کی تلاوت میں بسرکیے اورراتیں رکوع وسجودمیں گزاریں انتہایہ ہے کہ جب آپ کوشہیدکیاگیااس وقت بھی آپ اللہ پاک کے حضورسجدہ میں تھے ۔آپ اورآپ کے ساتھیوں کودس ١٠محرم ٦١ہجری مطابق ١٠اکتوبربروزجمعہ ٥٦سال ٥ماہ اور٥دن کی عمرمیں شہیدکردیاگیا۔اناللّٰہ واناالیہ رٰجعونآپ کی شہادت سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ انسان پرجتنی مصیبتیں آجائیں صبرسے کام لیں اورظالم جابرکے سامنے نہ جھکیں۔ہروقت اللہ کی عبادت کریں آپ کی سیرت سے یہ معلوم ہواہے کہ آپ نے شہادت کے وقت بھی سرسجدہ میں رکھ کریہ ثابت کردیاکہ سیدناامام حسینکل کربلاکے میدان میں بھی سجدہ میں تھے اورآج تک سجدہ میں ہیں آپ کوسجدہ کرتے وقت تولوگوں نے دیکھاتھاپرسجدہ سے سراٹھاناکسی نے دیکھااس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ جھکناہے تواللہ پاک کی بارگاہ میں ہے ظالم جابرکے سامنے نہیں ۔اللہ پاک نواسہ رسول ۖکے صدقے ہماری بخش و مغفرت فرمائے سرکاردوعالم ۖکی بروزقیامت شفاعت نصیب فرمائے۔

Hafiz Kareem Ullah Chishti

Hafiz Kareem Ullah Chishti

تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی
0333.6828540