تحریر: سید انور محمود
مولانا مودودی کی ایجاد اسلامی جمعیت طلبہ جسے جماعت اسلامی کا بغل بچہ بھی کہا جاتا ہے کا رحجان شروع دن سے ہی شدت پسندی کی جانب رہا ہے۔ مولانا مودودی کے صابزادے حیدر فاروق مودودی کے بقول جب لوگوں نے مولانا مودودی سے اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کی شکایت کی تو مولانا کا فرمانا تھا کہ لوگ اپنے بچوں کو اسلامی جمعیت طلبہ کی مخالفت کرنے سے منع کریں ورنہ جمعیت سے محفوظ نہ رہ سکیں گے۔
پاکستان میں عام طور وراثت کی سیاست ہوتی ہے، نواز شریف کے بعد اُس کا بیٹا یا بیٹی، زرداری کے بعد بلاول لیکن جماعت اسلامی میں وراثت کی سیاست کیوں نہیں ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں حیدر فاروق مودودی کا کہنا ہے کہ ہمارے والد نے ہم نو بہن بھائیوں کو جماعت اور جمعیت سے ایسے ہی دور رکھا جیسے منشیات بیچنے والا منشیات کی پڑیاں گھر سے باہر چھوڑ کرآتا ہے، ہمارے والد کو پتہ تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں اور اُس کا ملک کو کس قدر نقصان ہوگا۔ حیدر فاروق مودودی کا مکمل انٹرویو اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے، جس میں اُس نے اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کو پوری طرح بےنقاب کیا ہے، انٹرویو کے دوران اس نے یہ بھی کہا کہ آج جماعت اسلامی پر اسلامی جمعیت طلبہ کا قبضہ ہے۔
جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق کا پرانا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہے ۔ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ تین سال تک ناظم صوبہ خیبر پختونخوا اور پھر 1989ءسے 1991ءتک بطورِ ناظم اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو میں ہمیشہ کامریڈ سراج الحق کہتا ہوں، کیونکہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کو بھٹو بننے کا بہت شوق ہے، کبھی انقلاب لارہے ہوتے ہیں، کبھی مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور کبھی کسانوں کے حقوق کی اورتھوڑے عرصے پہلے تو وہ سرخ پگڑی میں لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کے ہمراہ نظر آئے۔
اگرچہ یہ ایک خوش آئند نظریاتی تبدیلی ہو سکتی تھی لیکن لگتا ہے کہ یہ سب محض بھٹو بننے کے شوق میں کیا جارہا ہے ورنہ جماعت اسلامی ہمیشہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرف دار رہی ہے۔ جیسے ہی بھٹو بننے کا شوق اترتا ہے تو سراج صاحب اپنی اصل سوچ ، نظریے اور فکر کی جانب واپس آجاتے ہیں یعنی دہشت گردوں اور دہشت گردی کی حمایت۔سرخ پگڑی والے کامریڈ سراج الحق اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دوسرے رہبر فرید پراچہ، لیاقت بلوچ ، منور حسن یا کوئی اور سب ایک ہی سوچ کے مالک ہیں۔ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ سب مذہب کے سوداگر ہیں اور دہشت گردوں کے حامی۔ایک اور مشترک بات یہ بھی ہے کہ ماضی میں ان سب کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی جماعت اسلامی پر جمعیت کے ‘دہشت گردوں’ کا قبضہ ہے۔
پاکستان میں مذہب کے نام پر اسلام کو جس قدر نقصان مذہبی سیاسی جماعتوں نے پہنچایا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملے گی اور ان مذہبی سیاسی جماعتوں میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے۔ اس کی ایک مثال 1970ء کے عام انتخابات ہیں جس میں جماعت اسلامی نے نعرہ لگایا تھا کہ “اسلام خطرے میں ہے” لیکن عوام نے جماعت کو مسترد کردیا تھا لیکن منافقین کا یہ ٹولہ اسلام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے سے باز نہیں آتا۔ مذہب کی تجارت کرنے والی جماعت اسلامی اسلام کے نام پر سیاست، دہشت گردوں کی حمایت اور تعلیمی اداروں میں اپنی بنائی ہوئی طلبہ تنظیم “اسلامی جمعیت طلبہ” کے ذریعے اپنے مخالفین پرتشدد کرانے میں ملوث رہی ہے۔ لیاقت بلوچ سے لےکر آج تک پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی دہشت گردی اور غنڈہ گردی جاری ہے۔ ایک مرتبہ جماعت اسلامی کے اتحادی اورتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں جنہیں ما ر پیٹ کے بعد گریبان سے پکڑکر یونیورسٹی سے باہر نکالا گیا تھا۔ القاعدہ کے اراکین اور طالبان پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے قبضہ کیے ہوسٹلوں میں پناہ لیتے رہے ہیں اور وہاں سے گرفتار بھی ہوئے ہیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین نے 29 اکتوبر کی سہ پہر کراچی یونیورسٹی کے کیمپس میں کرکٹ کھیلنے والے طلبا و طالبات پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں ایک طالب علم زخمی ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے بعض طلبا و طالبات کلاسز کے بعداپنی سواریوں کی آمد تک وقت گزاری کے لیے کرکٹ کھیل رہے تھے جب اسلامی جمعیت طلبہ نے ان پر دھاوا بول دیا۔ اس واقعے میں جمعیت کے اراکین سے ساتھی طالبات کو بچاتے ہوئے ایک طالب علم زخمی ہو گیا تھا۔ جمعیت کے غنڈوں کی جانب سے ایک خاتون کا حجاب اتارنا اور تین طالبات کو طمانچے اور ڈنڈے مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ پکے دہشت گرد ہیں۔ موقع پر موجود طلبہ کے مطابق رینجرز اہلکاروں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے چار اراکین کو گرفتار بھی کیا لیکن محض آدھے گھنٹے بعد انہیں رہا کر دیا۔
دو دسمبر 2015ء کو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے جبری طور پر کرکٹ کھیلنے سے روکنے پر ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم “اے پی ایم ایس او” کی شعبہ طالبات نے احتجاجاً کرکٹ کھیل کر اس واقعے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔اس موقعہ پر یونیورسٹی کی انتظامیہ اور صحافیوں کے درمیان تلخ کلامی کے بعد ہاتھا پائی ہوئی۔ لیکن اس دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے دہشت گرد احتجاجاً کرکٹ کھیلنے والی طالبات سے دور رہے، البتہ اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکرٹری اطلاعات ساجد خان نے طالبات کو ہراساں کرنے کی اطلاعات کی تردید کی اور کہا کہ اس حوالے سے الزمات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے طالبات کو کرکٹ کھیلنے سے منع کرنے کی خبر کو بھی غلط قرار دیا۔
جماعت اسلامی کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اسے ہمیشہ انتہائی نااہل اور کوتاہ اندیش قیادت میسر آئی ہے جس نے جماعت کو ملک میں سرگرم دہشت گرد گروہوں اور قدامت پسندوں کا غیرسرکاری اور غیر رسمی ترجمان بنا کر رکھ دیا۔ دہشت گردی کے باعث لوگ مرتے رہے، مساجدمیں بم دھماکے ہوتے رہے لیکن سابق امیرِ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور سیدمنور حسن اسامہ جیسے عالمی دہشت گرد کی ‘شہادت’ کا ماتم کرتے رہے۔ سیدمنور حسن حکیم اللہ محسود کی موت کےعظیم سانحہ پر نوحہ کناں رہے۔ دہشت گرد تنظیم “جند اللہ” کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس کے موجد اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین ہی ہیں۔
لاہور، شکارپور اور کراچی کے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم “جند اللہ” کا بانی شیخ عطا الرحمان جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رہنما تھا۔ عطاالرحمان سابق کور کمانڈر کراچی پر قاتلانہ حملہ کے جرم میں گرفتار ہوا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اُسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔پاکستان کے عوام یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور جماعت اسلامی دن بدن اپنی حمایت کھوتی رہی۔ قیادت بدلی لیکن جماعت کی سوچ اور پالیسی نہ بدلی۔ قوم ایک الگ سمت میں رواں دواں ہے، جماعت قوم کی امنگوں کے برعکس ایک مخصوص ملائی فکر کے حامل طبقات کو خوش کرنے میں سرگرداں ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے دہشت گردوں کی کراچی یونیورسٹی کے کیمپس میں ابھی 29 اکتوبر کی دہشت گردی کی باز گشت جاری تھی کہ 6 نومبر 2015ء کو ٹیلنٹ ایکسپو کی اختتامی تقریب میں موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ اگر آج قائد اعظم اور علامہ اقبال بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ ہو تے کیوں کہ آج اسی تنطیم نے اُن کےنظریات کو زندہ رکھا ہوا ہے(یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی جناح اور مسلم لیگ کے مخالفین میں سے تھے)۔ ساتھ ہی سراج الحق نے وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ بیا ن پر تنقید کرتے ہو ئے کہا کہ اس ملک کو اسلام کی بنیاد پر بنایا گیا تھا اس کو لبرل کہنے کی کوشش کرنے والا بھی غدار کہلائے گا۔
سابق امیر جماعت اسلامی سیدمنور حسن نے 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر کراچی کے ایک جلسے میں کہا تھا کہ لبرل ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال شدت پسند تھے یا لبرل، اگر جواب یہ ہے کہ وہ دہشت گرد تھے تو پھر علامہ اقبال تو نہیں ہاں قائد اعظم مرنے سے پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بن کر ایک دو دہشت گردی کی وارداتیں ضرور کرجاتے کیونکہ اسلامی جمعیت طلبہ کی پیدائش قائد اعظم کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی، لیکن پورا ریکارڈ چیک کیا تو پتہ چلا کہ قائد اعظم لبرل تھے دہشت گردہر گز نہیں تھے، رہے علامہ اقبال تو وہ تو مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کی پیدائش سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے اسلامی جمعیت طلبہ تو بہت بعد کی بات ہے۔
لبرل کی آسان سی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ وہ جو انتہا پسند نہیں ہیں اور جماعت اسلامی یا اُس کی عسکری تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو ہم ہر گز لبرل نہیں کہہ سکتے کیونکہ دہشت گرد لبرل نہیں ہوسکتے۔ لبرل صرف بانی پاکستان محمد علی جناح کی 11اگست 1947ءکی تقریر کی بات کرتے ہیں اور اُس کی روشنی میں ریاست اور شہری کے درمیان تعلق چاہتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ آج گیارہ سال بعد نواز شریف کی سوچ بدلی ہے اور وہ ایک لبرل کی طرح ملک کو چلانے کا کہہ رہے ہیں اس لیے کہ لبرل ایک جدید ترقی یافتہ اور معتدل ریاست کا خواب دیکھتے ہیں جو ایک دہشت گرد کبھی نہیں دیکھتا ہے کیونکہ وہ تو صرف تباہ کرنا جانتا ہے۔آخر میں کامریڈ سراج الحق کو مفت کا مشورہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کو لگام دیں تو ملک اور قوم کی خدمت کے لیے یہی کافی ہوگا۔
تحریر: سید انور محمود