سینیٹر سراج الحق نے اپنی کہانی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ یہ دلچسپ داستان دردانگیز بھی ہے اور فکرانگیز بھی۔ ان کی داستان حیات پڑھتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خودی، خودداری، خوئے دلنوازی، خوش خلقی، دلداری، فقیری میں شاہی اور شاہی میں فقیری اور راہبری و راہنمائی کا درس کلام اقبال سے لیا ہے۔ اقبال کی شاعری آفاقی بھی ہے اور ایمانی بھی۔ ان کے سارے اعجاز کلام کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کو ان کے رخشندہ و تابندہ ماضی سے روشناس کرانا اور جوانوں کو مسلمانوں کا سنہری دور یاد دلا کر انہیں اس تابناک ورثے کی طرف بلانا ہے۔ اسی لئے تو علامہ فرماتے ہیں۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے ملاقات ہو تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ایک کھرا اور سچا انسان ہے جسے تصنع اور بناوٹ چھو کربھی نہیں گزری۔ اس میں احساس کمتری ہے اورنہ ہی وہ احساس برتری کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو یاد کر کے مسکراتا اور اپنی کامیابیوں پر کبھی نہیں اتراتا۔ سراج الحق نے صوبہ خیبرپختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلع دیر کے ایک گائوں میںابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت ننھے منے سراج الحق کے پاس اسکول کتابیں لے جانے کے لئے بستہ نہیں تھا اور یہی سراج الحق 2002میں جب متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اپنے صوبے کا وزیر مالیات بنا تو اس نے اپنی کیبنٹ اور اسمبلی سے پہلا حکم یہ پاس کروایا کہ اب اس صوبے کے پرائمری اسکول جانے والے ہر بچے کی کتابیں اور بستے صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت دے گی تاکہ آج کا کوئی سراج الحق بستہ نہ ہونے کی بنا پر افسردہ و غمزدہ نہ رہے۔ سراج الحق نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں ایسی ہی عوام دوست پالیسیاں بنائیں۔ دوسری بار 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد ہوا ایک بار پھر صوبائی وزیر مالیات کا قلمدان سراج الحق کے سپرد کیا گیا۔ ان کے دوست تو دوست ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی دیانت و امانت کی قسم کھاتے ہیں۔ ان کے دونوں ادوار حکومت اور اب جماعت کی امارت میں ہر وقت ان کے مداحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس ہجوم کا سبب بھی پیر و مرشد علامہ اقبال بیان فرما گئے ہیں؎
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مرد خلیق
سراج الحق پیر مغاں تو نہیں مگر مرد خلیق ضرور ہیں۔
ان کی شخصیت کلام اقبال اور فکر مودودی کا دلنواز مجموعہ ہے۔ یہ غالباً اسی خوش خلقی اور دلنوازی کا کرشمہ تھا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران جماعت اسلامی نے دو بڑے بھرپوراجتماع کئے۔ ایک اضاخیل نوشہرہ خیبرپختونخوا میں منعقد ہوا کہ جس میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہونے والے کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ افراد موجود تھے۔ اس اجتماع عام کی خاص بات یہ تھی کہ قدامت پسند اقدار کے حامل صوبے سے بھی ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کا دوسرا اجتماع چند روز پہلے لاہور میں منعقد ہوا جس میں صرف جماعت اسلامی پنجاب کے مرد ارکان و کارکنان نے شرکت کی۔ یہ تعداد بھی بیس ہزار سے کیا کم ہوگی۔ جناب سراج الحق نے اخباری دنیا کو اجتماع کی کارروائی دیکھنے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ؎
دیدہ کے بود مانند شنیدہ
فی الواقع جماعت اسلامی کے اجتماعات نظم و ضبط اور باہمی ایثار کے اعتبار سے مثالی ہوتے ہیں۔میں لاہور کے اجتماع میں تھوڑی دیر کے لئے ہی جاسکا۔ جب میں پنڈال میں پہنچا تو سینیٹر سراج الحق ہی خطاب کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ ہمیں منتخب کریں گے تو پھر آپ کو گلیوں محلوں میں گیٹ لگانے، اپنے چوکیدار مقرر کرنے، ٹھیکری پہرہ دینے اور راتوں کو جاگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر آپ گہری پرسکون نیند سوئیں گے اور ہم پہرہ دیں گے۔ لوگ جماعت اسلامی کی بات غور سے سنتے ہیں اور ان کے پاکستان میں ستر سالہ ماضی کو دیکھ کر ان کی ہربات پر یقین بھی کرتے ہیں مگر انتخاب کے وقت انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ عوام الناس سے پوچھیں کہ آپ سچے اور کھرے نمائندوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے تو ان کے جواب کا مفہوم بقول غالب یہ ہوتا ہے؎
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
جماعت اسلامی کے زعماء سے پوچھیں کہ جماعت کو عوامی پذیرائی کیوں نہیں ملی تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دروازے عوام کے لئے کھلے ہیں۔ جماعت کے دروازے تو یقیناً کھلے ہوں گے مگر ان دروازوں پر اتنے ’’پہریدار‘‘ بیٹھے ہوتے ہیں کہ بیچارے عوام اندر آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ شاید لوگوں کو جماعت کے کڑے تنظیمی مدارج سے ڈر لگتا ہے۔ جماعت اسلامی گہرے غور و فکر سے کام لے اور سوچے کہ ترکی، تیونس اور مصر وغیرہ میں اسلامی تحریکوں نے اپنے سیاسی چراغ فکر مودودی سے روشن کئے ہیں مگر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی چراغ میں روشنی کیوں نہیں۔ جناب سراج الحق کی قیادت میں جماعت اپنی سیاسی و انتخابی تاریخ کا بنظر عمیق جائزہ لے کہ ہر معاملے میں حقیقت پسندی کے باوجود جماعت اسلامی 1970 سے لے کر 2013 تک انتخابی تخمینے میں خوش گمانی کا کیوں شکار ہو جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کو جناب سراج الحق کی صورت میں ایک ایسی قیادت ملی ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا تھا؎
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرمائے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
احساس زیاں ایک بڑی دولت ہے اور سراج الحق اس لحاظ سے ایک بہت دولت مند شخص ہے۔ انہوں نے اپنی کہانی اپنی زبانی میں نہایت فراخدلی سے 2002 میں بننے والی متحدہ مجلس عمل کو بہت سراہا ہے۔ پھر نہ جانے کیوں جماعت نے ایم ایم اے سے کٹی کرلی۔ غالباً اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب جماعت دوسرے ممالک میں کامیاب اسلامی تحریکوں کی طرح اپنے تنظیمی اور سیاسی شعبوں کو الگ الگ کرے اور عوام کے لئے حقیقی معنوں میں اپنے دل کے دروازے کھول دے۔ جماعت اسلامی انتخابی تخمینے میں خوش خیالی کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لے۔ اگر متحدہ مجلس عمل کا ماڈل کامیاب تھا تو اس کے دوبارہ احیاء میں تردد کیوں؟ جماعت اسلامی کو نئی سیاسی و انتخابی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں اقبال کا مرد کوہستانی سینیٹر سراج الحق کلیدی ہی نہیں انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے برحق کہا تھا؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندئہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
بشکریہ جنگ