امتیاز عالم
دوسرے دھرنے کا دھرنا بھی ہو چکا۔ اور پاناما لیکس کا ٹنٹا بھی اب سڑکوں سے نکل کر عدالتِ عظمی کی نظرِ کرم کی نذر ہو گیا۔ اب عدالتِ عظمی جانے اور مدعا علیہان کے وکلاکی موشگافیاں، بھلے آپ عدالت کے باہر سیاسی تھیٹر لگانے کی علت کیسے ہی پورا کریں! دھرنے کے بادل بِن برسے ہی بجلی کڑکڑاتے کہیں گم ہو چکے۔ ہمارے دور کے محمود غزنوی دوئم وزیراعلیٰ پختون خوا جانے کیوں دو روز قبل ہی دارالحکومت پر لشکر لے دوڑے تھے۔ کیا سپریم کورٹ میں مقدمے کی پیروی سے قبل ہی کسی منی بغاوت کا ارادہ تھا۔ اور اگر تھا بھی تو آنسو گیس کی تاب لا سکا اور نہ رکاوٹوں کو عبور کر پایا۔ پرویز خٹک کی پسپائی ہوئی تو قائد انصاف بھی نرم پڑے اور غنیمت اسی میں تھی کہ ردِّجمہوریت کے ناکام انقلاب کی قیادت کی بجائے عدالتِ عظمی کی بروقت مداخلت پر ہی فتح کے شادیانے بجا دیئے جائیں۔ جعلی انتخابات کی رٹ تو سنی تھی، جعلی فتح کا جشن پہلی بار ہی دیکھنے کو ملا۔ قانون کی حکمرانی سربلند رہی اور جمہوریت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالنے والوں کی سبکی ہوئی۔ ’’میرے عظیم ہم وطنو‘‘ کی سپاٹ دار گرج کے بجائے، عدالتِ عظمی کی آئینی مداخلت نے لاقانونیت کی بے یقینی کو چلتا کیا۔
پہلے دھرنے میں بھی آئینی ڈھانچے کے انہدام کا بندوبست کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور تب کچھ لوگ تھے جو کود پڑنے پہ تُلے تھے۔ لیکن پارلیمنٹ متحد ہو کر کھڑی ہو گئی اور سپہ سالار راحیل شریف اپنے آئینی حلف پہ قائم رہے اور بغاوت اکسانے کی مہم جوئی ناکام ہوئی۔ اس بار امیدیں میموگیٹ نمبر 2 یعنی ڈان کی اسٹوری سے وابستہ کی گئیں کہ بس اب آئے کہ اب آئے۔ لیکن ’’دیکھنے ہم بھی گئےتھے ، پہ تماشا نہ ہوا‘‘۔ داد رسی ملی بھی تو اسی ادارے سے جو آئین کی پاسداری کا امین ہے۔ یہ عجب انقلاب تھا جس میں عوام بیزاری کا اظہار کرتے دکھائی پڑے، حالانکہ تحریکِ انصاف کے نوجوانوں نے کیا ہنگامہ تھا کہ بپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ احتجاج کے جمہوری حق پر اصرار سے کچھ تو جمہوری آشنائی ہوئی، یہ بھولتے ہوئے کہ چلے تو تھے اماں جمہوریت کو دفنانے اور وہ بھی بنیادی جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے۔ بھئی اگر معاملہ احتجاج و اجتماع کے حق کے جائز استعمال کا تھا تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس حق کی عملداری کا حکم تو جاری کر دیا تھا اور حکومت بھی اِس پہ راضی تھی، تو پھر دارالحکومت پر غیرجمہوری چڑھائی کا کیا مطلب تھا؟ اور اگر پاناما لیکس کی کرپشن میں ملوث حضرات کا تھا، تو سپریم کورٹ نے تو 13 روز قبل ہی آپ کی عرضداشتوں کی سماعت کا فیصلہ صادر فرما دیا تھا۔ تو پھر آپ لنکا ڈھانے کیوں چل دوڑتے تھے۔ اور جب حشر بپا نہ ہوا، تو یومِ تشکر ہی مقدر ٹھہرا۔
آپ اپنے سیاسی کان خود پکڑنے سے رہے، تو تاریخ کو آپ کی حماقتوں کا احساس دلانے کی فرصت کہاں۔ جب پیارے جنونی بغاوت پہ بھی راضی اور اس کی پسپائی پہ بھی نازاں، ایسے میں کوئی کیوں ہوش کی سمجھ دے جب آپ کو گالی گلوچ کے کلچر کے سوا کچھ سکھایا ہی نہیں گیا۔ معاملہ فقط ضروری عوامی حمایت کے فقدان کا نہ تھا بلکہ دھرنے کے دھرنے کی اور بڑی وجوہات ہیں۔ بھئی جب فوجی قیادت میں تبدیلی کا وقت ہو اور گھر جانے والا اپنی پیشہ ورانہ دُھن میں مگن تو آپ کو کس نے بہکا دیا کہ اُسی شاخ کو کاٹنے کا جتن کرو جس پر آپ کا آشیانہ بھی بس سکتا ہے۔ لیکن آپ میں اتنا صبر کہاں کہ اور 18 ماہ انتظار کی کوفت اُٹھاتے جب کہ آپ کو یقین ہو چلا تھا کہ آپ کی پرواز کی جو بلندی ہونی چاہئے تھی ہو چکی اور اب مسلم لیگ نواز کا سر تن سے جدا کئے بنا آپ کی دال گلنے والی نہیں۔ اگر حکومت کو پانامالیکس پر گرانا ہی مقصود تھا تو اکیلا چلنا کہاں بھاڑ پھونک سکتا تھا۔ لیکن تنہا پرواز کا شوق اتنا حاوی ہے کہ کپتان صاحب نے پاناما لیکس پر حزبِ اختلاف کے متفقہ ضوابط ٹئ او آرز پر وجود میں آنے والے متحدہ محاذ ہی کو چلتا کیا۔ اور تو اور اپنے فسادی بھائی کو بھی ساتھ نہ لیا، جس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے میں ہی عافیت جانی۔ آپ کا ساتھ کوئی کیوں دیتا جب آپ فقط اپنے بڑے حریف کے احتساب کے لئے سارے آئینی، قانونی، جمہوری اور اخلاقی نظام کو ہی منہدم کرنے چل نکلے۔ یہ کونسا انصاف تھا؟ اگرچہ داعش یا طالبان کی طرح کا فسطائی چربہ نہیں تھا تو کیا تھا؟
تجربہ کار اور کایاں لیگیوں نے دل کڑا کر کے صبر و تحمل کا گھونٹ پیئے رکھا۔ اُنہوں نے آپ کو اپنے ہی زور پہ منہ زور گرنے کا گُر خوب آزمایا۔ وزیراعظم نواز شریف نے خود کو عدالتِ عظمی کے حضور پیش کر کے آپ کے احتساب کے غبارے سے ہوا نکال دی اور اُن کی انتظامیہ نے آپ کو جلسہ کرنے کی اجازت دے کر آپ سے زبردستی کرانے اور دارالحکومت کو بند کرنے کا اخلاقی جواز بھی چھین لیا۔ پھر آپ کی قبضہ گیری اور جارحانہ پن کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نکیل ڈال دی۔ بس پھر کیا تھا انتظامیہ اور پولیس نے آپ کے ردِّجمہوریت انقلاب کو فقط دفعہ 144 لگا کر آنسو گیس کے دھوئیں میں اُڑا دیا۔ کپتان کے اس ناکام انقلاب نے نوا زحکومت کو لگام تو کیا لگانی تھی، اُلٹا اسے مضبوط بنانے کے کام آیا۔ حکومت یقیناًڈان اسٹوری گیٹ میں پھنسی ہوئی تھی، لیکن ایک شریف اور بے قصور شخص کی قربانی دے کر اس نے جلتی کو ٹھنڈا تو کیا، مگر دھواں ہے کہ پھر بھی نکلے جا رہا ہے۔ بھلا اس سے ملک کا کیا فائدہ، جب ہر طرف سے اُنگلیاں اُٹھ رہی ہوں۔ اصل مسئلہ پر توجہ دینے ہی میں عافیت ہے۔ ملک کی بھی، جمہوریت کی بھی اور سلامتی کے ادارو ں کی بھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سبھی کو اکٹھے رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو دوش دینے سے بھلا مرض ٹھیک ہونے سے رہا اور نہ عالمی سطح پر انگلیاں اُٹھنی بند ہونے لگیں۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف کو جواب دینا چاہئے کہ اس لاحاصل مہم جوئی سے اُنھیں کیا حاصل ہوا؟ اُن کی قیادت پر سوال اُٹھ رہے ہیں کہ وہ قیادت کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ ابھی تک وہ اپنے نظریے اور مقاصد پر بھی واضح نہیں۔ اسٹیٹس کو سے اُن کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ اس استحصالی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہاں تو وہ کونسی اور کیسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ انصاف کی رٹ تو وہ بہت لگاتے ہیں، لیکن یہ کیسا انصاف ہوگا۔ طالبان والا، شہری یا آئینی و جمہوری۔ وہ دو نظریاتی انتہاؤں میں جھول رہے ہیں۔ فسطائی بھی اور جمہوری بھی، قبائلی و شرعی بھی اور فوجی بھی۔ اُن کا بیانیہ بھی نہایت شور شرابے اور گالی گلوچ والا ہے اور یہی وہ نوجوان نسل کو سکھا رہے ہیں۔ کیا وہ ایک اور نسل کو ضائع تو نہیں کرنے جا رہے؟ اور یہ بہت تشویشناک ہے۔ کاش! وہ عناد کی ذاتی سیاست کی بجائے ایک بہتر متبادل بن سکتے، لیکن ایسا ہوتے نظر نہیں آ رہا۔ پھر دھرنے کا دھرنا تو ہونا ہی تھا۔