تحریر: سید انور محمود
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے دھرنوں کو چھ ہفتے گزر چکے تھے کہ اس درمیان میں شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفے اسمبلی میں جمع کرا دیے، کچھ ارکان اسمبلی اس موقعہ پر پارٹی سے بغاوت کرگے اور انہوں نے استعفی نہیں دیے۔ تحریک انصاف کے سابق صدر جاوید ہاشمی نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنے استعفی کا اعلان کیا اور وہ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ تحریک انصاف سے بھی فارغ ہوگے۔ تحریک انصاف کے دھرنے سے علیدہ ہونے کے بعد جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد آئے ہیں، جس کا باقاعدہ اسکرپٹ لکھا ہوا ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ سب منصوبہ بندی کس نے کی ہے؟ ایک اور سوال اُس وقت یہ تھا کہ دھرنوں کا “امپائر” کون ہے؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے عمران خان کا ماضی بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے عمران خان کا ماضی ایسے بہت سے واقعات سے بھرا ہوا ہے جو آمروں سے ان کی قربتوں کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اقتدار کے حصول کے لئے انہوں نے عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے کی کوشش کی یہ الگ بات کہ اُن کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔
تحریک انصاف کی الیکشن ٹربیونلز میں خاطر خواہ پذیرائی نہ ہوئی جس کے بعد عمران خان نے عوامی احتجاج کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ وہ آزادی مارچ کے ذریعے 10 لاکھ کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دینگے۔ پاکستان عوامی تحریک تو پہلے ہی تیار بیٹھی تھی اُسکے رہنما علامہ طاہر القادری نے بھی اس میں شمولیت کا اعلان کردیا اسی موقعہ پر لندن پلان سامنے آیا جس میں چوہدری شجاعت، عمران خان اور طاہرالقادری کی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع سے ملاقات کا حوالہ دیا گیا تھا۔ ابتداءمیں عمران اور قادری نے ایسی کسی ملاقات سے لاعلمی ظاہر کی مگر بعد ازاں اسے قبول کر لیا۔
نواز شریف نے 12 اگست “آزادی مارچ” سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا تھا مگراس وقت ایمپائر کی انگلی کا خمار تھا۔ 29 اگست کی رات کو جب جنرل راحیل شریف کو ملنے کے لئے روانہ ہوئے تو چشم تصور میں نواز شریف کا لکھا ہوا استعفیٰ اپنی جیب میں پایا۔ اعلامیہ بھی یہی تھا کہ “نواز شریف کا استعفیٰ لے کر ہی آئوں گا”۔ لیکن جب اُسی ایمپائر نے نواز شریف سے پوچھ کر دونوں سےملنے کے بعد یہ مشورہ دیا کہ وہ کنونشن سینٹر میں منتظر وزیراعظم نواز شریف کے نمائندوں سے مذاکرات کریں تو عمران خان اور علامہ طاہر القادری جس طرح پرجوش انداز میں جھومتے ہوئے ایمپائر سے ملنے گئے تھے اتنی ہی اتری ہوئی شکلیں لیکر واپس آئے اور عین ہدایات کے مطابق اپنے نمائندوں کو مذاکرات کیلئے بھیج دیا۔ نتیجہ ناکامی، واپسی پر کنٹینرمیں گھستے ہی جنرل راحیل شریف کو برابھلا کہتے پائے گئے۔
اسلام آباد میں عمران خان کا دھرنا چل رہا تھا کہ سولہ دسمبر 2014ء کو پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا، خاصکر وہ والدین جن کے بچے ابھی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔عمران خان نے 17 دسمبر کو دھرنوں کے خاتمے کا اعلان کیا، پشاور سانحہ نے عمران خان کو نکلنے کا ایک عزت مندانہ راستہ فراہم کردیا ورنہ وہ تو برملا کہہ رہے تھے کہ جب تک نواز شریف استعفےٰ نہیں دینگے انہیں اکیلا بھی دھرنے پر بیٹھنا پڑا تو وہ بیٹھیں گے۔
سوال اب بھی وہی ہے کہ دھرنوں کا “امپائر” کون تھا؟ ہمیں اس سوال کے جواب کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی؟ محمد زبیر نجکاری کے وزیر ہیں، 23 جولائی کو اُنکا کہنا تھا کہ “جنرل شجاع پاشا نے پی ٹی آئی کا 2011ء کا جلسہ کامیاب بنانے کے لیے کارپوریٹ سیکٹر کے اہم لوگوں کو بلا کر کہا، آپ لوگ پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں”۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی دعویٰ کیا کہ دھرنوں کے پیچھے آئی ایس آئی کے دو سابق چیفس جنرل احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام تھے، جنرل ظہیر الاسلام 7 نومبر 2014ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے ان کے دور میں اسلام آباد میں خیمہ زن تھے۔
وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے ایک اور اہم رکن اور قریبی ساتھی مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ میڈیا میں زیرِ بحث آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق خبریں بے بنیاد اور حقیقت سے دور ہیں۔ اسکے علاوہ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید بھی سینیٹر مشاہد اللہ کے اس بیان کی تردید کی اور کہا کہ میڈیا کو اس بات کو اچھالنا نہیں چاہیے۔ ایک چھوٹا سا سوال وزیر اعظم نواز شریف اور وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشیدسے کہ جناب نجکاری کے وزیر محمد زبیر اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی سابق چیفس جنرل احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کے ہی نام لیے تھے تو سزا اور تردید صرف مشاہداللہ خان کے حصے میں ہی کیوں آئی ہے؟
چلیے یہ تو سرکاری الزامات ہیں کیونکہ وزیروں نے لگائے ہیں لیکن ان وزیروں سے بہت پہلے پی ٹی آئی کا دھرنا ختم ہونے کے فورا بعد ایک پاکستانی خاتون صحافی”نیہا انصاری” نے یہ راز کھول دیا تھا کہ دھرنوں کا “امپائر” کون تھا؟ پاکستان میں جاری دھرنا بحران کے پیچھے کون تھا؟ اور عمران خان بار بار کس ایمپائر کی اُنگلی اُٹھانے کی بات کر رہے تھے؟ اس دوران پاکستانی ذرائع ابلاغ کس کے اشارے پر غلط رپورٹنگ کرتے رہے؟ اے آر وائی ، دنیا اور ایکسپریس کس کے اشاروں پر ناچ رہے تھے؟ ان سب حقائق کا نیہا انصاری نے ایک امریکی میگزین فارن پالیسی میں انکشاف کیا تھا۔ نیہا انصاری ایکسپریس ٹریبون سے بطور سینئر سب ایڈیٹر اور شفٹ انچارج کے وابستہ تھیں۔اُنہوں نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “دھرنوں کے لئے روانگی سے ایک روز قبل ہی 13؍ اگست کو ہماری ہفتہ وار میٹنگ میں ہمیں(مزاقاً) کہہ دیا گیا کہ عمران ، قادری اور آئی ایس آئی ہمارے سب سے اچھے دوست ہیں”۔
نیہا انصاری نے مزید لکھا ہے کہ ہمیں ایڈیٹر نے ادارتی پالیسی بتاتے ہوئے کہا کہ “میں جانتا ہوں کہ یہ آسان نہیں مگر فی الحال تو یہی ایک راستہ ہے۔۔۔سی ای او کی طرف سے آئے ہوئے اِن احکامات پر عمل درآمد کے لئے مجھ سمیت تمام سینئر ادارتی عملے نے ہچکچاتے ہوئے اتفاق کیا کیونکہ ہماری ملازمتیں داؤ پر تھیں”۔ نیہا نے آگے لکھا ہے کہ “عمران خان اور کینیڈا سے آئے طاہر القادری کے دھرنوں کے دوران میں نے براہ راست پاکستانی کی عسکری اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا گروپس کی ملی بھگت کا براہِ راست مشاہدہ کیا اُس وقت ،پاکستان کے طاقت ور میڈیا ہاؤسزکے مالکان کو (جن میں اے آر وائی،ایکسپریس میڈیا گروپ اور دنیا نیوز شامل ہیں ) ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دھرنے کی حمایت کے لئے “ہدایات” ملتی رہیں۔ فوج، حکومت مخالف تحریک کو طاقت ور اور نواز شریف کو کمزور دکھانے کے لئے میڈیا کا استعمال کر رہی تھی”۔
نیہا انصاری آگے لکھتی ہیں کہ “ایکسپریس میڈیا گروپ میں عمران خان اور طاہر القادری کی (حسبِ ہدایت) ہر بات کو صفحۂ اول پر جگہ دی جارہی تھی اور نیوز بُلیٹن میں بھی پہلی خبر یہی بنائی جا رہی تھی۔ ایک طرف بی بی سی اور ڈان جیسے ادارے دھرنوں کے اصل حقائق (دیہاڑی دارشرکاء ) پر کھل کر لکھ رہے تھے۔اور دوسری طرف ہم اُن حقائق کو چھپا رہے تھے جو وزیراعظم کے حق میں جاتے تھے۔اس دوران ہم مظاہرین کے منفی رویوں اور اُن کی مسلسل کم ہوتی تعداد پر بھی پردہ ڈال رہے تھے۔اخبار کے نیشنل ایڈیٹر سے ہمیں روزانہ پتا چلتا کہ کس طرح روز ہی اُنہیں شام کو موصول ہونے والی فون کالز میں نہ صرف اگلی روز کی شہ سرخیوں بلکہ مضامین تک کے لئے ’’ہدایات‘‘ مل رہی تھیں”۔
نیہا انصاری آخر میں لکھتی ہیں کہ “کچھ روز بعد اچانک اخبار کے مالک کی برہمی کا ہمیں سامنا کرنا پڑا کہ طاہر القادری کو عمران خان کے برابر کیوں اہمیت نہیں دی جارہی جب کہ خفیہ طاقتیں دونوں کی برابر حمایت کر رہی ہیں۔ یہ ہدایات ادارتی عملے کو براہِ راست نہیں دی جاتی تھیں ۔بلکہ یہ سی ای او، ایڈیٹر اور نیشنل ایڈیٹر کے ذریعے ہوتی ہوئی اُن تک پہنچائی جاتیں”۔ نیہا نے لکھا ہے کہ “اس کے باوجود آزادئ صحافت کے حامیوں نے اشاروں پر نہ چلنے کی اپنی سی کوششیں کیں۔مگر طاقت کے مراکز پر چلنے والوں کا نقطۂ نظر ہی غالب رہا”۔
اسلام آباد کے 126 دن کے دھرنےمیں ہر روز الزام تراشیاں کی جاتی تھیں،کبھی سول نافرمانی پر اکسایا گیا، دھرنے میں کارکنان نے پارلیمنٹ ہائوس کا دروازہ توڑ دیا کچھ کارکنان نے پی ٹی وی پر حملہ کرڈالا، میڈیا کے ساتھ اور خاصکر خواتین ورکر کے ساتھ بھرپور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔ عالمی میڈیا ان دھرنوں کی خبریں اور اُن پر منفی تبصرئے نشر کررہا تھا ۔ عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے پاکستان کےلیے طویل دھرنوں کاایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ویسے پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ دھرنا دینے والوں نے طویل سیاسی دھرنے کاعالمی ریکارڈ تو بنادیا لیکن”امپائر” کی انگلی پھر بھی نہ اٹھی البتہ عوام کی انگلیاں دھرنا دینے والوں پر ضرور اٹھ رہی ہیں۔
تحریر: سید انور محمود