تحریر: عرفانہ ملک
اس کردار کی تشریح چند اوراق میں کرنا تو کافی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے،کہنے کوتو ایک صنف نازک کی بات کرنے چلے ہیں جس کو دیکھنے سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اوردل کو لطافت ملتی ہے لیکن کردارکے برعکس یہ ایک ایسی مضبوط اور خوبصورت مورتی ہے۔جس سے سمند رکی لہریں ٹکراٹکراخود ہی اپنی موجوں کادم توڑ دیتی ہیں۔اوروہ اپنی جگہ سے نہ ہلنے والی زمین میں دھنے ہوئے پہاڑ کی طرح جمتی رہتی ہے۔اپنے وجود سے تمام جڑے ہوئے رشتوں کی ڈوروں کو کبھی نہ ٹوٹنے سے بچاتی ہے اوراپنے ہمسفر کے ساتھ ایک کچی پگڈنڈی کو مضبوط پُل سمجھ کرسفرکرتی ہے۔جہاںمامتا کی بات آئے تواسے ایک پوشیدہ محافظ بن کر اس باغ کے ہر پودے کو اپنا خون جگردے کر سینچاجہاں بیٹی کاکردارآیا تو ایک مشرقی لڑکی کی طرح اپنی تمام تر خوشیوں کو ماں باپ کی فرمانبرداری پر قربان کردیا مانگ میں صندوریاگلے میںلٹکے منگل صوترکی لاج رکھنے کا مقام آیا تو وہ اپنی جان پر بھی کھیل گئی۔
اپنے سامنے آنے والے ہر طوفان کے لئے ڈھال بنتی رہی کہیں گھر کی زینت بن کر گھرکو جنت بنایاتوکہیں شمع محفل بن کر گھنگھرو کی جھنکار پر رقص کرتی رہی،کہیں انار کلی بن کر دیوارمیںچنوا دی گئی،تو کہیںسیتاسے ستی بن کر اپنا کردارخوب نبھایا اورجب خودغرضی پر آئی تواپنے ساتھ اتنی تندوتیز لہریں لے کر آئی کہ اس کے گھونسلے کاہرتنکااس ہواکی نظر ہوگیا ہاںمیرااشارہ اسی عورت کی جانب ہے۔جوکچی مٹی کے گھروندے بناتے بناتے حقیقی گھروندہ کاخواب بن ڈالتی ہے۔
جب شادی کرکے پیا گھر سدھار جاتی ہے تو اس گھرمیں ہمیشہ اس ڈری ہوئی ہرن کی طرح رہتی ہے جوجنگل میںہمیشہ خوف وہراس میںمبتلاہو کر نہ جانے کب کسی بھیڑیے کا شکاربن جائے اوراسے اپنی ہی پناہ گاہ چھوڑناپڑجائے اوردیوار میںلگی ہوئی اینٹ زمانے کی ٹھوکر کانشانہ بنے پر مجبورہوجائے جب واقعی اس کے سپنوں کاآئینہ ٹوٹتاہے۔تووہ اپنے ہی چہرے کے عکس کوسب ٹکڑوں میںبکھیر دیتی ہے۔
اورجیسے بقول شاعر وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی رشتے سے جو کونپلیں پھوٹتی ہیںاسی کی گودسے پیغمبراوراولیائے کرام جنم لیتے ہیں۔عطاری ،رومی،غزالی اسی شاخ کے پھل ہیں۔ان رشتوں کو نبھانے کے باوجود عورت کو اپنی منزل نہیںملتی۔قبر کی وہ آخری آرام گاہ جو اگرنصیب ہوجس کو تو وہ اپنا گھرکہہ سکتی ہے۔مرد جو رشتہ ازدواج میںجوڑنے میںجتنا وقت لگاتاہے وہ اس رشتے کو توڑنے میںایک پل بھی ضائع نہیںکرتا۔اورعورت کے سرپر تین پتھر دے مارتاہے۔اس گھر کو آگ لگی ہے اس گھر کے چراغ سے۔
تحریر: عرفانہ ملک