1556 میں چین میں آنے والے ہولناک زلزلے کے نتیجے میں آٹھ لاکھ تیس ہزار افراد جاں بحق ، بڑی تعداد میں لوگ معذور ہوگئے
انسان ہوش سنبھالنے کے بعد اب تک زمین پر ہزاروں ایسے زلزلوں کا مشاہدہ کر چکا ہے جن میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔ اگرچہ کرہ ارض پر آنے والے ایسے زلزلوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے تاہم ذیل میں چھ ایسے بڑے زلزلوں کا احوال بیان کیا گیا ہے جن کے نتیجے میں انسان نے ہولناک تباہی کا سامنا کیا اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے۔
شان ژی (چین) 23 جنوری 1556ء چین میں آنے والا یہ زلزلہ مرقوم انسانی تاریخ کا سب سے ہیبت ناک زلزلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زلزلے سے چین کے متعدد صوبے متاثر ہوئے اور آٹھ لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں پانچ سو مربع میل کا علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور کچھ شہروں اور گاؤں کی 75 فیصد آبادی ختم ہو گئی۔ اس زمانے میں چین میں مٹی، ریت اور لکڑی سے بنے مکانات کا رواج تھا۔ اسی لیے ان کے گرنے سے بہت زیادہ اموات ہوئیں۔ اگرچہ اس زمانے میں ریکٹر سکیل کا وجود نہ تھا مگر دورحاضر کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ آٹھ کی شدت کا زلزلہ تھا۔ بڑا زلزلہ آنے کے بعد چھ ماہ تک جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔
سولہویں صدی کے متعدد چینی مورخین نے اس زلزلے کی بابت تفصیلات رقم کی ہیں جن کی بدولت اتلاف کا درست اندازہ لگانے میں مدد ملی۔ سماٹرا سونامی (انڈونیشیا) 26 دسمبر 2004 ماہرین ارضیات نے اس زلزلے کو “سماٹرا انڈیمان زلزلہ” کا نام دیا ہے۔ یہ زلزلہ سمندر کے نیچے زمین کی بالائی پرت میں آیا اور اس سے اتنی طاقت ور سمندری لہریں پیدا ہوئیں کہ انہوں نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، میانمر، سری لنکا اور بھارت سمیت متعدد ملکوں میں دو لاکھ 83 ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا ۔ اسے جدید تاریخ کا سب سے بھیانک زلزلہ سمجھا جاتا ہے۔ ریکٹر سکیل پر اس زلزلے کی شدت نو سے 9.3 تک ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اس زلزلے کے جھٹکے مسلسل دس منٹ تک محسوس ہوتے رہے اور کرہ ارض چند سینٹی میٹر ہل گیا۔
اس زلزلے کی وجہ سے الاسکا اور چند دیگر مقامات پر بھی زلزلے آنا شروع ہو گئے۔ اس زلزلے کا مرکز بحرہند میں انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے قریب تھا۔ زلزلے کے نتیجے میں سو فٹ سمندری لہریں پیدا ہوئیں جنہوں نے مختلف ملکوں کے ساحلی شہر الٹ پلٹ کر رکھ دیے۔ سونامی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سماٹرا سے آٹھ ہزار کلومیٹر دور ساؤتھ افریقن ساحلی شہر پورٹ الزبتھ میں بھی متعدد افراد مارے گئے۔ ہلاک شدگان میں بڑی تعداد سمندر کی نذر ہو گئی اسی لیے اتلاف کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ متاثرہ علاقوں میں بیماری، زخموں اور بھوک کے سبب ہلاکتوں کی تعداد مزید بڑھ گئی ۔
سائنسدانوں کا خیال ہے اس زلزلے کے نتیجے میں سورج کے گرد زمین کی گردش بھی متاثر ہوئی اور ہمارا دن 2.68 مائیکرو سیکنڈ چھوٹا ہو گیا۔ زلزلے کے جھٹکوں نے بحر ہند میں واقع جزائر انڈیمان اور نکوبار کو 13 فٹ جنوب میں دھکیل دیا۔ نیز یہ جزیرے پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے۔ زلزلے سے بحرہند میں زمین کی بالائی پرت میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہو گئیں۔ تنگ شان (چین) 27 جولائی 1976ء یہ زلزلہ دنیا کا تیسرا بڑا زلزلہ شمار ہوتا ہے۔ ریکٹر سکیل پر 7.5 شدت کے حامل اس زلزلے نے دو لاکھ 55 ہزار انسانی جانیں لیں جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ زلزلے کا مرکز شہری آبادی سے قریب ہونے وجہ سے بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ اس وقت تنگ شان شہر میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ آباد تھے جن میں ایک لاکھ 64 ہزار شدید زخمی ہوئے۔
زلزلہ علی الصبح اس وقت آیا جب شہر کی غالب آبادی نیند میں تھی۔ ابتدائی جھٹکوں کے پندرہ منٹ بعد 7.1 شدت کا دوسرا زلزلہ آیا جس نے مرنے والوں کی تعداد میں اور بھی اضافہ کر دیا۔ زلزلہ آنے سے قبل تنگ شان کے گردونواح کی فضا میں غیر معمولی روشنی دیکھی گئی جسے “سیسمک لائٹ” کہتے ہیں۔ گاؤں کے کنوؤں کا پانی کئی مرتبہ اوپر نیچے ہوا اور ان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ مزید برآں زلزلے سے پہلے جانوروں کے رویے میں بھی غیر معمولی تبدیلی دیکھی گئی۔ 27 جولائی کی رات کتے مسلسل بھونکتے رہے، مچھلیوں کی حرکات و سکنات میں بے چینی پائی گئی جبکہ مرغیوں اور بلیوں کی حرکت بھی عجیب و غریب تھی۔ زلزلہ اچانک آیا اور لوگوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ اس علاقے میں طویل عرصہ سے زلزلہ نہ آنے کی وجہ سے مضبوط عمارتیں تعمیر نہیں کی گئی تھیں جس کے باعث اتلاف کی شرح غیر معمولی رہی۔ زلزلے کے نتیجے میں شہر کے اکثر علاقے مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور ہزاروں لوگ ملبے تلے دب گئے۔ رہی سہی کسر دوسرے زلزلے نے پوری کر دی۔ جھٹکوں کی شدت کے باعث تنگ شان سے 140 کلومیٹر دور بیجنگ اور چند دیگر شہروں کی عمارتیں بھی تباہ ہو گئیں۔ اس خوفناک زلزلے کے نتیجے میں تنگ شان کے ہزاروں شہری ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
حلب (شام) نو اگست 1138ء یہ زلزلہ شام کے شہر حلب (الیپو) میں آیا۔ اس وقت شہر پر عمادالدین زنگی کی حکومت تھی۔ اس زلزلے کی شدت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا تاہم تاریخی کتابوں کے مطابق اس میں دو لاکھ 30 ہزار اموات ہوئیں۔ زلزلے کے نتیجے میں شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اسے معلوم انسانی تاریخ کا چوتھا بڑا زلزلہ سمجھا جاتا ہے۔ دمغان (ایران) 22 دسمبر 856ء کوہ البرز میں واقع یہ شہر جب زلزلے سے دوچار ہوا تو اس وقت اسے ایرانی تہذیب و ثقافت کے اہم ترین مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ زلزلے کے نتیجے میں شہر کے دو لاکھ افراد موت کی وادی میں چلے گئے۔ اس زلزلے کی شدت کے بارے میں بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکا تاہم یہ اتنا طاقتور تھا کہ زمین جگہ جگہ سے پھٹ گئی اور پہاڑوں سے تودے ٹوٹ کر نیچے آ گرے۔ ننک ژیا، گنسو (چین) 16 دسمبر 1920 یہ انسانی تاریخ کا چھٹا سب سے بڑا زلزلہ تھا جس کے نتیجے میں دو لاکھ افراد مارے گئے۔ ریکٹر سکیل پر اس زلزلے کی شدت 8.6 تھی ۔ زلزلے کے نتیجے میں پہاڑوں سے تودے ٹوٹ کر آبادی پر آ گرے جس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی۔ اس زلزلے کا زیرزمین مرکز 10 کلومیٹر دور تھا اس لیے تباہی کی شرح بہت زیادہ رہی۔ دونوں شہروں میں اکثر عمارتیں پتھر اور لکڑی سے بنی تھیں جو شدید جھٹکے برداشت نہ کر سکیں۔