دہلی (قاسم خورشید) شکستا سے تیز بہت تیز چلنے کی عادت رہی ہے! آنکھوں میں تجسّس ۔مِیل کے پتھر سے بے خبر ۔خاردار جھاڑیوں میں الجھنے کا خوف نہیں، طوفان کی زد میں رہ کرہوا کے خلاف چلنے کا حوصلہ ،ایک عجیب سی بے خبری جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
اس کے تیز چلنے پرتھکے ہارے قدموں کو بھی اکثر متحرک ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔بلا کی ذہانت ،موسم کی سفاکی کو بھی اپنے اندر جذب کرتے ہوئے اس کے رخ کو بدل دینے کا فن ۔دشمنوں سے بیزاری کے باوجودمعاف کرنے کی کشادہ قلبی۔دوستوں کے لئے کچھ بھی کر گذرنے کا جذبہ، اپنی ذمہ داریوں کونئی جہت، نئے ویژن،نئی آفاقیت سے مزین کرنے کا ہنر۔کبھی ماضی سے نہ بے خبری رہی ،نہ حال پر بھروسہ رہا اور نہ ہی مستقبل میں کسی صلے کی پرواہ رہی دراصل ان جذبات کے حصار میںجب کوئی اپنی آنکھیں بند کر کے چند لمحوں کے لئے بھی بعض سچے لمحات کو یاد کرنے لگتا ہے تو ایک چہرہ پوری تابندگی کے ساتھ ابھرتاہے۔زندگی کا ،جدوجہدکا ،رواداری کا ،ہنر مندی کا ،درد مندی کا،ادب کا… ہاں یہ چہرہ ہے ارتضیٰ کریم کا۔
دیکھتے دیکھتے کئی دہائیاں گذر گئیں ، سنِ بلوغیت سے لے کر اب تک بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں آگے بھی یہ سلسلہ قائم رہے گا۔اُن دنوں طالب علمی کا دور تھا۔ پٹنہ گورنمنٹ اردو لائبریری میں میں کسی اردو رسالے کا مطالعہ کر رہا تھا ۔حر ف حر ف میری آنکھوںمیں تیر رہے تھے مگرذہن کے نہاں خانے میں انتظار تھاکسی کااِسی لئے کئی بار پیچھے مڑکر دیکھنے کی کوشش بھی کررہا تھا۔مجھے خبر ملی تھی کہ اُسے آنا ہے اور گیا سے آنا ہے۔کبھی کبھی میںخود کلامی کرنے لگتا ”عجیب آدمی ہے بھائی کہاں رہ گئے یہ؟ ……” اور اُسی دوران آواز آتی ہے۔
کیا پڑھ رہے ہو یار؟ میںنے کوئی جواب نہیں دیاچونکہ مجھے یقین کی حدود میں داخل ہونا تھا”اوہ! آگئے ارتضیٰ کریم! دلفریب سی مسکراہٹ، کالے گھنگھرالے بال، چہرے پر بے پناہ جاذبیت ، آنکھوں سے ابھر تی ہوئی خلوص کی خوشبو،پھر ہم دونوں تھوڑی دیر بعد لائبریری سے نکلتے ہیں۔ بہت سی باتیں ہوتی ہیں۔میں نے کہا یہ کون سا افسانہ لکھ ڈالا آپ نے!… ” آلودہ انسان”!ارتضیٰ کریم نے کہا کیا ہوا ؟افسانہ پسند نہیں آیا؟ میں نے کہاافسانہ تو پورے طور پر عصری معنویت کی غمازی کر تاہے لیکن یہ نام تو عجیب ہے اور خصوصی طور پر ”آلودہ ” میرے حساب سے عنوان ذرا نصابی قسم کاہے۔ بہرحال ادب کے حوالے سے طالب علمی کے دور کی وہ ملاقات پتہ نہیں مجھے کیوں اب بھی یاد رہ گئی ۔تب ہم دونوں اپنی اپنی سطح پر جدوجہد کر رہے تھے ۔ارتضیٰ کریم گیا میں کلام حیدری کی ادبی خانقاہ کے مداحوںمیںسے ایک تھے۔
لیکن وہ کلام حیدر ی جیسی جیّدشخصیت کے خصائص کو سمجھنے کی بھی کوشش کررہے تھے اور اپنی شناخت کے ساتھ نئی معنویت پیدا کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر چکے تھے ۔کلام حیدر ی کی ادبی خدمات کے وہ نہ صرف معترف ہوئے بلکہ ان کے بعد کلام حیدری کے شہ پاروںکو تمام اردو آبادی تک پورے اہتمام کے ساتھ پہنچانے میں کامیابی بھی حاصل کی ۔میں کہہ چکا ہوں کہ ارتضیٰ کریم تیزچلنے کے عادی رہے ہیں۔شاید اِسی لئے گیا پٹنہ جیسا شہر انہیں زیادہ راس نہیں آیا ۔ہاں شروعاتی سطح پر اِن شہروں نے انہیں نئے آسمان کی طرف جانے کا حوصلہ ضرور عطا کیا۔خیر! ارتضیٰ کریم ایک ایسے شہر میں داخل ہوئے جہاں ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ سیاسی ،سماجی، علمی اور ملّی پہچان بنانے کے لئے تگ و دو کر تے ہیں یہ شہر بڑے شہروںکی تمام تر خوبیوں او رخامیوںکے ساتھ ہمیشہ جانا پہچانا جاتا رہاہے۔
ارتضیٰ کریم غالب کی دلی میںآئے ہر طرف شور، آدمیوںکا جنگل بہت سارے خواب اور جابجا ٹوٹے ہوئے حوصلوں کی کرچیاں۔ یہاں لہو لہان ہونا بھی لازم و ملزوم قرار دیا جاتاہے مگر کوئی تو راستہ تھا کہ اس شہر میں اپنی شناخت قائم کی جاسکتی تھی۔ ارتضیٰ کریم نے وہ راہ چنی یعنی بے پناہ محنت ، عرق ریزی ، تگ ودو کی راہ ۔ کہا جاتاہے کہ تحریریں شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ ارتضیٰ کریم کی جاذبیت، کشش، ان کی تحریروںمیں جابجا روشن نظر آئی ۔صاف ستھری خوبصورت اور دلکش تحریر سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ اب وہ دھیرے دھیرے بہار کے” سنڈروم” سے نکلنے کی کوشش میں کامیاب ہونے لگے ۔اس زمانے میں قمر رئیس ، محمد حسن، گوپی چند نارنگ اور ایسی ہی کئی معتبر اور محترم شخصیتوں سے پوری اردو آبادی بے حد متاثر تھی۔ان کی نگاہ ارتضیٰ کریم جیسے ذہین ، باشعور، ذی علم نوجوان پرپڑی۔
پروفیسر قمر رئیس نے ان پر خصوصی توجہ دی بلکہ ایک طرح سے یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ارتضیٰ کریم کی صلاحیتوں کو شہر کے تمام تر تعصبات کے باوجود معتبریت حاصل ہوئی بلکہ دل کی گہرائیوں سے اعتراف بھی کیاگیااور ارتضیٰ کریم اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے پیش نظر دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میںباضابطہ طور پر صوبۂ بہار کے پہلے لکچرر کی حیثیت سے منتخب ہوئے او رپھر اس کے بعد انہیں اعتماد کی ایک زمین ملی اور اُسی زمین پر ایسی ایسی فصلیں لہلہانے لگیں جن کا تصور کم از کم اُس اسٹیج پر اس سے پہلے کیاجانا محال تھا۔ترقی پسند تحریک ہو ، جدیدیت کی تحریک یا مابعد جدیدیت کے معاملات ہوں ارتضیٰ کریم کی تحریریں اور تقریریں بحث کے نئے دروازے وا کرنے لگی ۔خصوصی طور پر اردو میں فکشن کی تنقید کے حوالے سے ان کے کئی مضامین شائع ہوئے ، کئی لکچر ہوئے اور کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
چونکہ جنون کی حد تک تحقیق کے مراحل سے گذرنے کی کوششوں میں وہ ہمیشہ سرگرداں رہے ا س لئے ہندوستان کے کسی بھی صوبے میںہو ںیا پھر بیرون ممالک میں وہ اپنے پروجیکٹ کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلتے رہے۔ تھوڑا سا بھی وقت ملاتو متعلقہ اشخاص لائبریریوں یا دیگر ذرائع سے اپنے مضمون کو دستاویزی بنانے کے لئے کوشاںرہا کیئے ۔ یہاں میں بہ یک نظر ان کی تصنیفا ت تالیف کا ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں،جیسے بہار کا اردو ادب،عجائب القصص، موضوعات(مضامین)،رشید جہاں،میر ناصر علی دہلوی،کلام میر سوز، قرة العین حیدر ایک مطالعہ،اردو فکشن کی تنقید، انتظار حسین ایک دبستان ، مختلف(تنقیدی مضامین)جوگندر پال فن او رفنکار، معرکہ وہاب اشرفی اور شمس الرحمن فاروقی، مطالعات(تنقیدی مضامین)، جدید تنقید کا منظر نامہ ،اردو ادب احتجاج اور مزاحمت کے بیچ، آغا حشر عہداور ادب،اردو میں پاپولر لٹریچر ، مابعدیدت ،جدیدیت اور پریم چند، دہلی اردو اخبار،1857 پہلی جنگ آزادی، اور کلیات نظام ان کتابوں سے گذرتے ہوئے آپ جب کبھی ٹھہر کر سوچنے کی کوشش کریں گے تو یہ احساس شدید ہوگا کہ کس طرح اپنے اوقات کو ارتضیٰ کریم نے ادبی پینورما میں ڈھالنے کی کوشش کی۔
چونکہ تاثراتی مضمون قدرے نجی نوعیت کا ہوا کرتاہے لیکن جہاں تحقیق کے مراحل سے گذرنے کے بعد تنقیدی بصیرت روشن ہوتی ہے وہ مرحلہ نہ صرف یہ کہ محقق اور نقّاد کے لئے بے حد قیمتی ہوتاہے بلکہ اپنے سارے علمی اور نظریاتی آمیزش کے ساتھ قاری کے توقعات کو استحکام بخشتا ہے ۔ارتضیٰ کریم نے کئی ایسے کام کئے جو لیک سے ہٹ کر ہوئے ۔کتابیں اپنے موضوعات کے تحت از خود آئینہ دار ہیں۔ حالانکہ ادب میں ایک تنقید محض تنقید کے لئے یا اپنی شناخت کے لئے مختص ہے لیکن ایسے معاملات زیادہ دیر تک یا زیادہ دور تک سفر نہیں کرتے۔ وہ راہ میںہی کہیں علمی بصیرت کی زد میں آکر دم توڑ دیتے ہیں۔ارتضیٰ کریم کا اختصاص یہ رہاہے کہ انہوں نے اپنے موضوعات کو معتبر اور محترم بنانے کے لئے بھلے ہی وقت لیا ہو لیکن اس کی دستاویزی حیثیت سے کوئی بھی ذی شعور یا باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا۔
کبھی کبھی انہوں نے کچھ ایسے کام بھی کئے جو بظاہر قارئیں کو چونکادیتے ہیں جب اس کی تہہ میں آپ جائیں تو اندازہ ہوتاہے کہ جس موضوع پر اردو ہی نہیں بلکہ عالمی ادبیات میں صفحات کے صفحات ضائع کئے گئے ہیں ۔کیا وہ موضوع واقعی اس حد تک بحث کا متقاضی رہا تھا؟ یہاںمیں ارتضیٰ کریم کی ایک کتاب یعنی ”پریم چند اور مابعد جدیدیت کے ذکر کوپیش نظر رکھنا چاہتاہوں۔ عجیب معاملہ ہے بھائی !یہ پریم چند کے عہد میں مابعد جدیدیت کا وجود کیسے عمل میں آ گیا تھا ؟میں تو یہ کہوں گا کہ پریم چند نے بھلے ہی پہلی انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کی صدارت کی ہومگر انہوں نے کبھی بھی افسانے کو اس تحریک سے جوڑ کر نہیں لکھاتھاتو پھر مابعد جدیدیت کا معاملہ کہاں سے آگیا ۔ دراصل کتاب کے مطالعے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ پوری کتاب ارتضیٰ کریم کے اس ویژن کی غمازی کرتی ہے جس میں تنقید محض تنقید نہیں رہتی بلکہ Irony بن جاتی ہے۔۔
بہت سے لوگوں کے مطابق ادب احتجاج کے بغیر وجود میں آہی نہیں سکتا۔اب یہاں احتجاج کی تخلیقی معنویت کی وضاحت پر گفتگو ضروری ہے دراصل جسے ہم احتجاج کہتے ہیں وہ عشق کی ایک اورصورت تو نہیں! اگر معنی پر ہمارے ناقدین بحث کر رہے ہوں تو پھر یہ کہنا قطعی طور پر مناسب نہیں ہے کہ ادب احتجاج کے بغیر ممکن نہیںہے ۔ارتضیٰ کریم نے جو بحث چھیڑی ہے ۔وہ توجہ طلب ہے اور میں سمجھتاہوں کہ یہاں معاملہ صرف احتجاج کے اکہرے پن کا نہیں ہے بلکہ اُس کے مختلف ڈائمنشن کا ہے ۔
ارتضیٰ کریم نے بھلے ہی شروع میں افسانے لکھ کر خود کو اس فن سے دور کر لیا ہو مگر یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ان کے یہاں تخلیق کو ایک تخلیق کار کی عینک سے دیکھنے کا بھر پور ویژن ہے ورنہ وہ قرة العین حیدر ، انتظار حسین، جوگندر پال، کلام حیدری، سہیل عظیم آبادی اور ایسے ہی دوسرے لیجینڈ فکشن نگاروں یا شاعروں کے حوالے سے گفتگو کے دوران اپنے مخصوص زاویۂ نگاہ کو پیش کرنے کے اہل نہیںہوتے ۔عینی ، انتظار حسین، جوگندر پال، رشید جہاں، کلام حیدری پر گفتگو ہو یا پھر اردو ادب کے دوسرے شعبے کے معاملات ہوں جیسے عجائب القصص ، ،میر ناصر علی دہلوی،کلام میر سوز، آغا حشر،پاپولر لٹریچر، کلیات نظام، اردو خطبات اور ،یا پہلی جنگ آزادی کی بات ہوارتضیٰ کریم کی کتابوں سے گذرنا ناگزیر ہے۔
دراصل جو لوگ زندگی کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے اور سوچتے ہیں وہ کہیںنہ کہیں اپنے کے لئے الگ راہ بنانے کے کوشاں ہوتے ہیں لیکن بہت سی خاردار جھاڑیاں بھی راہ میں بے جا طور پر حائل ہوجاتی ہیں۔ظاہرہے کہ اگر آپ کی زمین کشادہ ہونے لگتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ اس پر قابض ہونے یا اُسے متنازعہ بنانے کی بھرپورکوشش کر رہا ہوتاہے۔ارتضیٰ معرکہ سر کررہے تھے۔ کئی کتابیں منظر عام پر آئیں، بحثیں ہوئیں۔ دہلی یونیورسٹی کے صدر شعبہ ہوئے۔تب تک اردو کی عالمی برادری ان کی خدمات سے روشناس ہوچکی تھی۔ایک بڑے حلقے کی تعمیری حمایت بھی حاصل تھی اِسی دوران ایک اور معرکہ سر ہو گیا پچاس برسوں میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں کبھی کوئی بڑا یادگار جلسہ نہیں ہواتھا۔
دس سال گذرے۔ بیس سال گذرے، پچیس برس گذرے یعنی ربع صدی گذر گئی تو اب نصف صدی کا ہی انتظار تھا اتفاق سے شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کی تعمیر کی نصف صدی پر ارتضیٰ کریم نے بحیثیت صدر یہاں کی باگ ڈورسنبھالی او رانہوں نے اپنی بے پناہ تنظیمی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار پچاس سالہ جشن کا عالمی سطح پر اہتمام کا فیصلہ کیااور اس میں دنیا بھر کے تمام مشاہیر کو مدعو کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پروگرام شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کا تاریخی پروگرام ثابت ہوا جس میں عالمی سطح کے مشاہیر ہندوستان و بیرون ہندوستان کے مندوبین شامل ہوئے ساتھ ہی پروگرام کے اختتام پر ارتضیٰ کریم نے عالمی شہرت یافتہ گلو کار جگجیت سنگھ کو مدعو کیا۔میں اس وقت ہال میںموجود تھا۔یونیورسٹی کے تمام اعلیٰ منصب پر فائز خواتین وحضرات کے علاوہ مندوبین اور ندا فاضلی و دیگر شخصیتیں جگجیت سنگھ کی منتظر تھیں۔ارتضیٰ کریم نے جگجیت سنگھ کے ہال میں داخل ہوتے ہی ان کا بہت خوبصورتی کے ساتھ تعارف پیش کیا ۔دیر تک تالیوں کی گونج کے درمیان ایک موسیقی ابھری اور جگجیت سنگھ کی پیش کی گئی اس غزل نے گویا پوری محفل میں خوشبو بکھیر دی ۔
تیرے آنے کی جب خبر مہکے
تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے
ایک بے حد یاد گار جلسہ تمام تر خوبصورت یادوںکے ساتھ اختتام پذیر تو ہوگیا۔ ملک اور بیرون ملک میں پذیرائی اوربحث کا دور شروع ہوا۔اس پورے پروگرام سے پہلی بار عالمی سطح پر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کوایک ایسا وقار حاصل ہواجس کا رشتہ سیدھے طورپر عوام و خواص سے قائم ہوا۔ چونکہ ارتضیٰ کریم اپنی انتظامی صلاحیت کے لئے بھی ہر دور میں منفرد رہے ہیں اس لئے ایک مخصوص حلقہ فطری طورپر اوڑھے ہوئے تعصب سے دوچاررہا۔بعض حلقے سے عجیب عجیب چہ مہ گویاں شروع ہوئیں مگرسورج کی تیز روشنی کے سامنے دن میںروشن چراغوں کا کیا ہوتا؟ ہم یہاں احمد فراز کے طرفدار ہیں:
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیںرکھتے تواوروںکے بُجھاتے ہیں چراغ
میں نے ایسے حالات میںکئی بار ارتضیٰ کریم کو مضمحل ہوتے ہوئے دیکھاہے کبھی آنکھوںمیں نمی ۔ کبھی کانپتے ہوئے لفظوں میںاعتماد کا فقدان،کبھی مایوسیوںکا ابھرتا ڈوبتاہوارنگ،کبھی حوصلے کی پائے مالی، کبھی آنکھوں سے پھوٹتے ہوئے شرارے، کبھی بے ترتیب لفظوں کے بے سمت سلسلے،کبھی اور تیز اور تیز چلنے کا حوصلہ،میں ایسے وقت میں ہمیشہ ارتضی کریم کے ساتھ رہا مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ حوصلہ ٹوٹتاہے تو ایک شخص کا نقصان نہیںہوتاہے۔ بلکہ جدوجہد ، دیانتداری ، صلاحیتوں اور زندہ خوابوں کی تعبیروںکا بڑا خسارہ ہوتا ہے۔کیونکہ جو قومیں زندہ ہوتی ہیں وہ صعوبتوں ، نامساعد حالات اور مخالف ہواؤں سے ہمیشہ لڑتی رہتی ہیں۔جب کہیں آنکھوںمیں تاریکیاں بسی ہوں ۔یا جو لوگ خود اپنے چراغ رکھنے یا جلانے کے اہل نہیں ہوں وہ یقینادنیا کو تاریکی میں ڈوبتاہوا ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ارتضیٰ کریم کی حمایت کے دوران مجھے خود بھی بعض نا مساعد حالات سے دو چار ہونا پڑامگر میں تو کبیر کا بھکت ہوں ۔مجھے واقعی یقین ہے کہ :
ہمن ہے عشق مستانہ ہم کو ہوشیاری کیا۔
ارتضیٰ کریم یہ جانتے ہوئے بھی محبت کا قائل رہا ہے کہ کمین گاہ سے آنے والا تیر اس کی پشت پر پیوست رہاہے وہ اس کے کسی ہم نفس اور ہم نوا کا ہی ہے۔ مگر اُسے بھی وہ محبت کا اثاثہ تصور کرتاہے کیونکہ عشق میں کوئی شرط نہیںکہ ہم جس سے محبت کریں وہ ہمیں ٹھیک اُسی طرح محبت کا جواب دے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔اُس کی طرف سے تیر آسکتے ہیں۔ خنجر بھی چبھوئے جاسکتے ہیں۔زہر کا پیالہ بھی دیا جاسکتاہے۔اس لئے کہ ہم چاہ کر بھی نہ کسی کی فطرت بدل سکتے ہیں ۔نہ ہاتھوں کی لکیریں ۔ہاں ہم اپنے آپ کو ان کا عادی ضرور بنا سکتے ہیں۔ممکن ہے ہم شنکر کی طرح وش پینے کے عادی ہوجائیں ۔مگرایسے حالات سے نکلنے کے بعدہمارے اندر سے گنگا بھی تو نکل سکتی ہے اور یہ گنگا نہیں دیکھتی کہ اس کے بہاؤمیںکیا کچھ شامل ہے۔ارتضیٰ کریم بھی دھیرے دھیرے ان حالات کے بھی عادی ہوچکے ہیں جہاں ا س قول کو عہد نو کا ایک جیتا جاگتاشہ پارہ تصور کیا جاتاہے کہ ”اگر تم کسی پر احسان کروتو اس کے شر سے بچنے کے لئے بھی تیار رہو!”۔
مسلسل تحقیق ، جانچ پرکھ اورتفتیش کے بعد جب ارتضیٰ کریم کوان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف کے پیش نظر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان حکومت ہند کا ڈائریکٹر بنایا گیا تب بھی ایک مخصوص حلقے نے بقول فرازاپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہوکر ایک بار پھر سر اٹھانے کی کوشش کی مگر اس بار ساری دنیاکی اردو ہندی انگریزی اور دوسری زبانوں کی پھیلی آبادیوں نے ارتضیٰ کریم کی حمایت میں ان کی بیش بہا خدمات کے پیش نظر تعمیری اور تخلیقی تعاون سے دشمنوں کے خیمے جلادیئے ۔یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو واقعی نئے حوصلے اور نئے جذبے سے مزین ہوکر ہمیں اپنی سماجی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے متحرک کرتاہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ ارتضیٰ کریم کے اندر کسی بھی جہت سے اپنے بدترین دشمنوں سے بدلہ لینے کا کہیں سے کوئی جذبہ نہیں ہے بلکہ جہاں تک ممکن ہوپارہاہے ان کی صلاحیتوں کو اعزاز بخشنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میں سمجھتاہوں کہ شاید اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہوسکتی کہ ہم ماضی کے تلخ اور بہت ہی پریشان کن حالات کو نئی معنویت کے ساتھ کوئی خوبصور ت کولاژ بناکر انہیںبھی اپنا اثاثہ تصور کریں۔اورایسے میں ممکن ہے ہمدمِ دیرینہ کی آنکھیں بھی نم ہوجائیںاور ہم یہ سوچنے پر مجبورہوں کہ:
راتیںہیں اُداس دن کڑے ہیں
اے دل ترے حوصلے بڑے ہیں
اب کیسے بتائیں وجہِ گِریہ
جب آپ بھی ساتھ رو پڑے ہیں