مارک روٹ تیسری بار نیدر لینڈ (ہالینڈ) کے وزیراعظم منتخب ہوئے‘ یہ ہالینڈ کی سیاسی جماعت ’’پیپلز فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں‘ پارٹی نے 2010ء کے الیکشنوں میں اکثریت حاصل کر لی‘ مارک روٹ کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا لیکن مارک روٹ کے پاس ایوان میں مطلوبہ تعداد میں ارکان موجود نہیں تھے لہٰذا یہ کرسچین ڈیموکریٹس اور پارٹی فار فریڈم کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانے پر مجبور ہوگئے‘ حکومت بنی‘ یہ وزیراعظم بن گئے مگر 2012ء کے بجٹ کے دوران اتحادیوں سے ان کے اختلافات پیدا ہو گئے‘ کولیشن ٹوٹ گئی‘ حکومت ختم ہو گئی‘ نئے الیکشن ہوئے‘ قوم نے مارک روٹ کو فریش مینڈیٹ دے دیا‘ یہ دوسری بار2012ء میں وزیراعظم بن گئے‘ حکومت نے مدت پوری کی‘ مارچ 2017ء میں الیکشن ہوئے اور قوم نے ایک بار پھر مارک روٹ کو مینڈیٹ دے دیا یوں یہ تیسری بار وزیراعظم بن گئے لیکن یہ اس بار بھی اتحادی وزیراعظم ہیں‘ حکومت کی اتحادی جماعتیں اہم وزارتیں حاصل کرنا چاہتی ہیں‘ مارک روٹ انھیں یہ وزارتیں نہیں دینا چاہتے چنانچہ ہالینڈ میں حکومت بحران کا شکار ہے۔
وزیراعظم سات ماہ میں کابینہ کا فیصلہ نہیں کر سکے‘ حکومت کابینہ کے بغیر چل رہی ہے‘ میں آپ کویہاں یہ بھی بتاتا چلوں ہالینڈ میں بھی یورپ کے دوسرے ممالک کی طرح شاہی نظام ہے‘ اس ملک میں بھی علامتی بادشاہ موجود ہے‘ یہ بادشاہ اور اس کاخاندان بے اختیار ہیں‘ یہ اپنی مرضی سے تنکا تک نہیں توڑ سکتے‘ حکومت مکمل آزاد اور خود مختار ہے لیکن اس خود مختاری اور آزادی کے باوجود وزیراعظم بادشاہ سے اپنا تقرر نامہ حاصل کرتا ہے‘ یہ کابینہ کی منظوری کے لیے بھی بادشاہ کی ہاں کا پابند ہے تاہم یہ منظوری بھی علامتی ہوتی ہے‘ بادشاہ کابینہ میں کوئی کمی یا بیشی نہیں کر سکتا۔میں مارک روٹ کی طرف واپس آتا ہوں‘ مارک روٹ نے 10 اکتوبر 2017ء کو اپنی کابینہ کا فیصلہ کر لیا‘ یہ عمل 14 اکتوبر کو مکمل ہوا‘ وزیراعظم نے کابینہ کی فائل بنائی‘ فائل پلاسٹک کے لفافے میں رکھی‘ اپنی ذاتی سائیکل نکالی‘ سائیکل پر بیٹھا اور شاہی محل کی طرف روانہ ہو گیا‘ وزیراعظم کے ساتھ سیکیورٹی کی گاڑی تو رہی دور سیکیورٹی کا ایک موٹر سائیکل اور سائیکل تک نہیں تھا‘آپ کو یقینا معلوم ہوگا دنیا میں سب سے زیادہ سائیکل ہالینڈ میں ہیں‘ ہالینڈ کی آبادی ایک کروڑ70 لاکھ ہے اور سائیکل ایک کروڑ69 لاکھ ہیں گویا ملک میںسو فیصد لوگوں کے پاس سائیکل ہے‘ یہ دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن میں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے ساتھ سائیکل سواروں کے لیے الگ سڑکیں بنی ہیں‘ ایمسٹرڈیم میں سائیکل کی درجن بھر پارکنگ لاٹس موجود ہیں‘ ہالینڈ اٹریکٹ شہر میں دنیا کا سب سے بڑا سائیکل پارکنگ لاٹ بنا رہاہے اس میں12 ہزار 500 سائیکلیں پارک ہوسکیں گی‘ ملک میں معذوروں اور پاگلوں کے علاوہ ہر شخص سائیکل چلاتا ہے۔
میں بھی تین بار ہالینڈ میں سائیکل چلا چکا ہوں‘ میں نے ایک بار کرائے پر سائیکل لی اور میں ایمسٹرڈیم کے مضافات میں پھولوں کے فارمز میں چلا گیا‘ یہ فارم ہاؤسز میلوں پر محیط تھے‘ میری نظر کی حد تک ٹیولپ کے سرخ‘ پیلے اور نارنجی پھول تھے اور میں پھولوں کے درمیان سائیکل چلا رہا تھا‘ وہ میری زندگی کا شاندار ترین تجربہ تھا‘ میں نے دوسرا شاندار تجربہ بھی ہالینڈ ہی میں کیا‘ میں نے ایک رات ’’بوٹ ہاؤس‘‘ میں گزاری‘ ایمسٹرڈیم میں کشتیوں کے گھر ہیں‘ یہ بوٹ ہاؤس نہروں میں کھڑے رہتے ہیں‘ میں نے ایک رات کے لیے بوٹ ہاؤس کرائے پر لیا اور پوری رات عرشے پر بیٹھ کر گزار دی‘ وہ بھی ایک شاندار تجربہ تھا۔ میں ایک بار پھر مارک روٹ کی طرف واپس آتا ہوں‘ مارک روٹ 14 اکتوبر کو وزیراعظم آفس سے نکلا‘ سائیکل پر شاہی محل پہنچا‘ سائیکل محل کے ڈرائیو وے میں پارک کی اور شاہ ولیم الیگزینڈر کے دربار میں حاضر ہو گیا‘ بادشاہ سے کابینہ کی منظوری لی‘ اپنی سائیکل کھولی اور دوبارہ سائیکل چلاتا ہوا واپس وزیراعظم آفس آ گیا‘ مارک روٹ ایمسٹرڈیم میں اپنے فلیٹ میں رہتا ہے‘ یہ روز سائیکل پر دفتر جاتا اور واپس آتا ہے‘ ایمرجنسی ہو تو یہ ٹرام‘ بس یا ٹیکسی استعمال کر لیتا ہے‘ یہ سرکاری گاڑی صرف سرکاری تقریبات کے دوران استعمال کرتا ہے‘ یہ ملک کے باہر بھی ایمبیسی کے اندر رہتا ہے اور وہاں بھی غیر ضروری پروٹوکول نہیں لیتا۔
مارک روٹ ہمارے جیسے ممالک کے لیے تھپڑ کی حیثیت رکھتا ہے‘ ہم 21 کروڑ لوگ ہیں‘ ہمارا جی ڈی پی 300بلین ڈالر اور برآمدات 20 بلین ڈالر ہیں جب کہ ہالینڈ کی آبادی ایک کروڑ70 لاکھ ‘ جی ڈی پی 800بلین ڈالر اور برآمدات 570بلین ڈالر ہیں‘ ہماری قائد اعظم یونیورسٹی دو ہفتوں سے بند پڑی ہے جب کہ ہالینڈ کی 10 یونیورسٹیاں دنیا کی دوسو بڑی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں‘ یہ یونیورسٹیاں دونوں عالمی جنگوں کے دوران بھی کھلی رہیں‘ استاد اور شاگرد دونوں یونیورسٹی آتے رہے۔ یہ ملک دنیا میں پھول‘ ڈیری مصنوعات اور سڑک بنانے کی تکنیکس بیچ بیچ کر امیر ہوتا جا رہا ہے جب کہ ہم تربوز‘ انگور‘ ناشپاتی اور سبزیاں بھی چین سے منگوا رہے ہیں‘ ہالینڈ کی صرف پھولوں کی برآمد ہماری کل برآمدات کے برابر ہے‘ ایمسٹرڈیم شہر میں ایک مہینے میں اتنے سیاح آتے ہیں جتنے ہمارے ملک میں دس سال میں نہیں آتے اور یہ ملک اگر صرف اپنی ہیرے تراشنے کی صنعت فروخت کر دے تو یہ پاکستان کے سارے اندرونی اور بیرونی قرضوں کے برابر رقم حاصل کر لے گا لیکن اس کا وزیراعظم سائیکل پر سیکیورٹی کے بغیر دندناتا پھرتا ہے جب کہ ہمارے حکمرانوں کے بچے تک دس دس بیس بیس گاڑیوں کے قافلوں میں شاپنگ کرتے ہیں۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کرپشن کے مقدمات بھگت رہے ہیں‘ آپ کبھی ان کی سیکیورٹی دیکھ لیجیے‘ حمزہ شہباز صرف ایم این اے ہیں‘ آپ کبھی ان کا قافلہ دیکھ لیجیے‘ ان کے ساتھ پولیس‘ رینجرز‘ ایلیٹ اور اسپیشل برانچ کے سو اہلکار ’’موو‘‘ کرتے ہیں‘ میاں برادران کے خاندان کی دیگر خواتین اورحضرات کو بھی یہ سہولت حاصل ہے‘ آپ کبھی مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر اور داماد راحیل منیر کی سیکیورٹی بھی دیکھ لیجیے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ بلاول بھٹو زرداری‘ بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ باہر نکلتی ہیں‘ آپ کسی دن تینوں افواج کے سربراہان‘ آئی جی حضرات اور وفاقی سیکریٹریوں کی سیکیورٹی بھی دیکھ لیجیے‘ آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا‘ ہالینڈ کے وزیراعظم کے پاس سرکاری جہاز نہیں‘ یہ مسافربردار جہازوں میں سفر کرتے ہیں یا پھر ٹرین کے ذریعے یورپ کے مختلف ملکوں کے دوروں پر جاتے ہیں جب کہ ہمارے چاروں وزراء اعلیٰ کے پاس بھی سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹرز ہیں‘ میں نے آج تک پاکستان کے کسی وزیراعلیٰ کو ملک کے اندر پی آئی اے کے ذریعے سفر کرتے نہیں دیکھا‘ یہ ذاتی مصروفیات‘ بچوں کی منگنی اور شاپنگ کے لیے بھی سرکاری جہاز پر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد جاتے ہیں‘ ہمارے وزراء اعلیٰ‘ گورنرز اور وزراء بھی بادشاہوں کی طرح باہر نکلتے ہیں۔
یہ سیکیورٹی کے نام پر دس دس بیس بیس گاڑیوں کے قافلے انجوائے کرتے ہیں اور یہ سارا تام جھام اس ملک میں ہو رہا ہے جس کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ سیکیورٹی کی صرف ایک جیپ ہوتی تھی اور اس میں بھی ایک ڈی ایس پی اور ایک پولیس کانسٹیبل ہوتا تھا‘ ملک کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان وزیراعظم ہاؤس کا دروازہ خود کھولتے تھے‘ ملک میں اس وقت چینی کا کوٹہ ہوتا تھا‘ وزیراعظم ہاؤس کا کوٹہ بیس بائیس تاریخ کو ختم ہو جاتا تھا اور اس کے بعدوزیراعظم اور ان کے مہمان آٹھ دن تک پھیکی چائے پیتے تھے‘ شہادت کے بعد خان لیاقت علی خان کی شیروانی اتاری گئی تو ملک کے پہلے وزیراعظم کے تن پر کرتا نہیں تھا وہ بنیان میں ملبوس تھے اور بنیان میں بھی سوراخ تھے‘ لیاقت علی خان کرنال کے نواب تھے‘ وہ سیکڑوں مربع زمین کے مالک تھے لیکن وہ جب فوت ہوئے تو پورے ملک میں ان کا کوئی مکان نہیں تھا چنانچہ حکومت ان کے سامان اور بچوں کو ’’پارک‘‘ کرنے کے لیے ان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو مارک روٹ کے ملک ہالینڈ میں سفیر لگانے پر مجبور ہو گئی‘ بیگم صاحبہ سفارت سے واپسی پر بھی کرائے کے مکانوں میں رہتی رہیں‘ لیاقت علی خان کے پوتے آج بھی جنید صفدر اور راحیل منیر کے ملک میں غربت کی زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ آج بھی ہر قسم کی مراعات سے محروم ہیں‘ راجہ صاحب محمود آباد پاکستان کی بانی کلاس اور محسن تھے‘ یہ بھی اپنی ریاست چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔
یہ کابینہ کا حصہ تھے‘ یہ کسی تقریب میں لیٹ پہنچے‘ لوگوں نے اعتراض کیا تو جواب دیا ’’بس کے بس میں تھا‘ بس آئی تو بس میں آگیا‘‘ وہ بس پر تقریب میں پہنچے تھے‘ بس لیٹ ہو گئی تھی چنانچہ وفاقی وزیر بھی لیٹ ہو گئے‘ راجہ صاحب محمود آباد نے جلد ہی اندازہ لگا لیا اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں وہ کلاس سامنے آ رہی ہے جس کے طرز رہائش پر کافر بھی توبہ توبہ کیا کریں گے چنانچہ وہ پہلے کراچی سے لندن شفٹ ہوئے اور پھر انھوں نے بھارت میں گم نام زندگی گزار دی لیکن یہ آج بھی تاریخ کے صفحوں سے نکل کر ہم سے پوچھ رہے ہیں آپ نے راجہ صاحب محمود آباد‘ لیاقت علی خان اور قائداعظم کے ملک کو کیا بنا دیا‘ کیا یہ وہی ملک تھا جس کا خواب بانی کلاس نے دیکھا تھا؟ اسلام میں برابری‘ عاجزی اور سادگی کو ایمان کا درجہ حاصل ہے لیکن قائد اعظم کے اس ملک میں یہ تینوں چیزیں عنقا ہیں‘ ہمارے ملک میں لوگ جوں جوں اوپر جاتے ہیں یہ برابری‘ عاجزی اور سادگی تینوں نعمتوں سے محروم ہوتے جاتے ہیں‘ یہ فرعون بنتے جاتے ہیں‘ ایک ایسا فرعون جو جائے نماز بھی ذاتی جیب سے نہیں خریدتا سرکاری رقم سے لیتا ہے‘ کاش ہم کسی دن سائیکل پر بیٹھے مارک روٹ کی تصویر دیکھیں پھر اپنے حکمرانوں کو دیکھیں اور پھر اپنے منہ پر تھپڑ ماریں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم اس سلوک کو ڈیزرو کرتے ہیں۔