counter easy hit

غلام جمہوریت اور انتخابات کا میلہ

عرف عام میں جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس کے مطابق عام شہریوں کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کر لیں، اس نظام کی اساس انتخابات ہوتے ہیں۔ یعنی کہ ایک ایسا وقت آتا ہے جب عوام اپنی منشاء سے اپنے اندر موجود بہترین لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، پھر وہ مرحلہ گزر جاتا ہے اور عوام کے چنے ہوئے کچھ لوگ معاملات چلاتے ہیں یعنی کہ حکومت سازی کرتے ہیں اور باقی ماندہ اپوزیشن کہلاتے ہیں۔ جن کا کام عوام کے مفاد کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظام اتنا ہی اچھا ہے تو پھر غلام کس کا ہوا؟

وطنِ عزیز میں انتخابات کا طبل بج چکا ہے اور چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتیں پرانا چورن نئی پیکنگ میں بیچنے کےلیے عوام کی خدمت کے جذبے سے سر شار، لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکے ہیں۔ وہ تمام خاندان جنہوں نے پچھلی کئی دہائیاں عوام کی “خدمت” میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب ایک دفعہ پھر سے عوام کی خدمت کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں جو کہ مختلف صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے تقسیم کی گئی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ووٹنگ کا یہ سلسلہ آزاد ہے؟ کیا عوام انہی لوگوں کو چنتے ہیں جنہیں وہ اپنے اندر بہترین پاتے ہیں؟ کیا ووٹنگ مسائل کے بہترین حل پر ہوتی ہے اور کیا جیتنے والا امیدوار اسی لیے جیت جاتا ہے کہ وہ معاشرے کی اور ان لوگوں کی بہتر خدمت کر سکتا ہے جنہوں نے اسے چنا ہوتا ہے؟ کیا انتخابات میں امیدوار اتنا ہی ہیسا خرچ کرتے ہیں جتنا قانون ان کو اجازت دیتا ہے؟

اگر ان سب باتوں کا جواب نہ میں ہے تو بس سمجھ جائیں کہ جمہوریت ابھی تک پوری طرح آزاد نہیں ہوئی، اور اس کی آزادی میں ابھی کچھ عشرے اور درکار ہیں۔

وطنِ عزیز کا زیادہ تر حصہ چھوٹے قصبوں اور دیہات پر مشتمل ہے جہاں نظر ڈالی جائے تو چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور کچھ برادریاں ایسی ہیں جو سدا بہار ہیں۔ یعنی کچھ بھی ہوجائے انتخابات کے نتیجے میں جیت انہیں کے حق میں ہوگی۔

دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت یہاں ایسا اس لیے ہے کہ جمہوریت کہیں چوہدری صاحب کی “چوہدراہٹ” کی غلام ہے، کہیں پیر صاحب کی “گدی” کی غلام ہے، تو کہیں ملک صاحب، میاں صاحب، اور شاہ صاحب کی “دولت” کی غلام بنی ہوئی ہے۔

وسطی پنجاب کا رخ کریں تو کہیں جمہوریت تھانہ کچہری اور پٹواری کے گرد گھومتی نظر آئے گی تو کہیں پیری مریدی کے نیچے تڑپتی اور سسکتی نظر آتی ہے۔ جنوبی پنجاب کا رخ کریں تو بھوک اور افلاس کے درمیان جمہوریت خاندانوں، برادریوں اور جتھوں کی غلام ہے۔ سندھ کا رخ کریں تو جمہوریت آپ کو سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے ڈیروں کی غلام نظر آئے گی۔ جہاں نمائندوں اور ان کو چننے والوں میں زمین آسمان سے بھی زیادہ فرق موجود ہے، مگر یہاں بھوک پیاس اور غریبی کی زنجیروں میں جکڑی ہی سہی جمہوریت تو ہے ناں… بلوچستان کا رخ کریں تو آزادی کے 70 برسوں بعد بھی جمہوریت چند سو ووٹوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نسل در نسل چند خاندانوں اورگروہوں کی غلامی اور مجبوریوں کے تحت انہیں حق حکمرانی دینے کا یہ سلسلہ اس قدر مضبوط ہے کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد بلآخر عمران خان جیسے شخص نے بھی یہ تسلیم کرلیا کہ وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے کا راستہ انہی لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہے جن سے وہ پچھلے 22 سال سے خود کو اور اپنی پارٹی کو بچاتے رہے۔ وہ بھی اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ نہ ملایا تو حصولِ اقتدار کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔

کاغذات کی حد تک ہمارا الیکشن کمیشن آزاد ہے مگر عملی طور پر ملک کا بچہ بچہ اس حقیقت سے آشنا ہے کہ انتخابات میں کونسی اور کتنی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آتی ہیں مگر مجال ہے کہ کبھی الیکشن کمیشن نے اپنی آزادی، خود مختاری اور قانون کو روندنے والوں کے خلاف کوئی جسارت بھی کی ہو۔

فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ناز و انداز سے خطاب کرنے اور ملک میں جمہوریت قائم کرنے کے دعوے نئے نہیں ہیں، مگر کیا کبھی کوئی لیڈر ایسا آئے گا جسے اگلے انتخابات کی نہیں بلکہ اگلی نسل کی فکر ہوگی؟ کیا کوئی یہ سوچ متعارف کروائے گا کہ جمہوریت کسی بھی انسان کی اپنی سوچ اور اپنی پسند کا نمائندہ چننے کا نام ہے، نہ کہ کسی مجبوری، مصلحت یا کسی ضرورت کے تحت طاقتور کو ایوانوں میں بھیجنے کا۔

روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بری طرح دب چکا ہے۔ میٹرو، موٹروے اور سڑکوں کا نعرہ البتہ ابھی تک موجود ہے اور آئندہ چند عشروں تک قائم رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کی سیاسی جماعتیں فیملی لمیٹڈ کمپنی کی بجائے ایک مضبوط ادارہ بنیں اور ان سیاسی خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کی بجائے میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

عوام الناس کی رائے کو مجبوریوں کی زنجیروں، بے بسی کے چنگل اور حالات کے رحم و کرم سے آزاد کیا جائے۔ عوام کو یہ حق اصل معنوں میں دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندے حصول اور نظریے کی بنیاد پر چن سکیں اور ہمارا انتخابی نظام تھانہ کچہری، برادری، پیری مریدی اور دولت کی چمک کا محتاج ہونے کی بجائے صحیح معنوں میں عوام کی سوچ کا عکاس ہو۔