تحریر : زاہد محمود
بد قسمتی سے ہمارے ہاں آزادی کا بہت عجیب و غریب تصور ترویج پا گیا ہے جس میں بغیر سوچے سمجھے جشن منانا اور ٹی وی پہ چلتے خوش فہمیوں سے بھرے گمراہ کن تجزیے اور تبصرے شامل ہیں۔ ہماری سوچ پرپہرے لگانے والوں نے کبھی آزادی کے حقیقی معنوں کی ہمیں بھِنک تک نہیں لگنے دی حالانکہ اس علمی بحث سے دنیا کے بیسیوں انسائکلوپیڈیے، ڈکشنریاں، تاریخ و فلسفے کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن ہم نے بخوشی اپنی سوچ کی ذمہ داری اْن لوگوں کو دے دی ہے جنہیں ہم سادہ فہم میں سرمایہ دار، مذہبی و سیاسی مافیا کا نام دے سکتے ہیں۔ ہمارا بھولا پن، سادگی اور معصومیت بھی تاریخی ہے۔ ” آزادی”سے قبل کے ہمارے ہندوستانی باشندوں کی اس صفت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے انگریزوں نے ہم پرایک سو سال سے زائد حکمرانی کی۔ تاجِ برطانیہ نے دس ہزارگورے افسروں کو بر صغیر بھیجا جنہوں نے محض ایک لاکھ انگریز فو جیوں کے ساتھ چھ کروڑ سے زائد ہندوستانی عوام کو سو سال تک غلام بنائے رکھا۔
سولہویں صدی میں تجارت کی غرض سے آئے انگریز نے آتے ہی بھانپ لیا تھا کہ یہاں کے باسی جہالت، قدامت پسندی، فرسودہ خاندانی روایات اور قدیم مذہبی شدت پسندی میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کمزوریوں پر انگریز سکالرز نے مزید تحقیق بھی کی اور اس علم کو بعد میں انہوں نے اورینٹلزم کا نام دے کر یہاں خوب استعمال کیا۔ اس قدامت اور شدت پسندی کا نہ صرف انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا بلکہ اس کی بلاواسطہ ترویج بھی کی اور یہاں کے لوگوں کو آپس میں الجھا کر سو سال تک ان پر حکومت کی۔ دنیا کی تاریخ چیخ چیخ کر یہی بتاتی ہے کہ جتنا معاشرہ قدامت پسند و مذہبی ہوگا اتنی اس کے اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں غلامی کے امکانات ذیادہ ہوں گے۔ یہاں بسنے والے باشندوں میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان اکثریت میں تھیں جو صدیوں اکٹھے رہتے آرہے تھے۔ جب انگریز ہندو ستاں میں وارد ہو ئے اس وقت حکومت مسلمانوں کے پاس تھی۔
انگریزوں نے بڑی مکاری کے ساتھ دونوں قوموں کو آپس میں الجھایا پھر سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا اور وڑیروں، جاگیرداروں، نوابوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ چونکہ انگریزوں سے پہلے مسلماں حکمراں تھے جنہیں جابر اور ظالم قرار دے کر نئی تعصّب پسندی کو فروغ دیا اور اپنی حکومت مضبوط کی۔ مگر بیسویں صدی کی سحر انگیز آگاہی نے جہاں دنیا میں مقیم دیگر مقبوضہ نو آبادیوں کو انقلاب یا اندرونی خلفشار کے ذریعے صدیوں پہ محیط غلامی سے رہائی دلائی وہیں ہندو ستانیوں کے دلوں میں بھی انگریزوں کے تسلط سے آزادی کی چنگاری کو ہوا دی۔
انیسویں اور بیسویں صدی کے دورانیے نے دنیابھرمیں انقلابی لیڈرپیداکیے۔ جنہوں نے دنیا کے نقشے کا زاویہ اور حلیہ بدل ڈالا۔ یہ لیڈر دنیا کے مختلف ممالک میں پیدا ہوئے لیکن سب کا منشور ایک تھا “آزادی”۔ ہندوستاں کے باشندے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پھر سے ایک ساتھ ہونے لگے۔ بظاہر تو یہ آزادی کے تصور کا دلفریب نعرہ تھا لیکن یہاں کے کروڑوں مذہبی بھولے بھالے باشندے نہیں جانتے تھے وہ آزادی کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں درحقیقت وہ نئی غلامی کا راستہ ہے ۔اب کی بار انہیں اپنے جیسوں کی غلامی کرنا ہو گی۔ آزادی کے اس کھوکھلے مقصد کو لے کر مسلم لیڈر شپ بھی دو گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک گروہ مکمل طور پر دوآزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کر رہا تھا تو دوسرا گروہ انگریز راج ختم ہونے کے بعد متحدہ ہند کا منشور اپنائے ہوئے تھا۔ لیکن عوام نسلی، سماجی، معاشرتی اور سامراجی غلامی سے ہمیشہ کے لئے آزادی چاہتی تھی۔
ان معصوم لوگوں کی نظریں اپنے قائد عظیم کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ جو اس بات کا بخوبی شعور رکھتے تھے کہ انگریزوں کے بعد خصوصی طور پرمسلمان اقلیت میں ہونے کے باعث ہندؤں کی غلامی اور طبقاتی تعصب کا شکار رہیں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کے لئے الگ سے آزاد وطن کا حصول ضروری قرار دیا۔ قائد مفادپرست ٹولے بخوبی پہچانتے تھے لیکن اپنے مقصد کے حصول کی خاطر بظاہر خاموش تھے۔ بالآخر انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد عظیم بر صغیر کی ایسی بندر بانٹ کر دی گئی جو ابھی تک حل طلب ہے۔ اس بٹوارے سے دو آزاد خود مختارممالک پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے پر وقوع پذیر ہوئے۔ اس سے قبل کہ آزادی کے ثمرات غریب لْٹی پْٹی بدحال عوام تک پہنچتے قائد دارِفانی کوچ کر گئے۔
اورلاوارث قوم کی قیادت مفاد پرست سیاسی سرمایہ داروں، سامراجوں کے ہاتھ لگ گئی۔ جنہوں نے اپنے جائز و ناجائز مفادات کے تحفظ کی خاطر مذہبی تعصب و انتہاپسندی کو بڑھ چڑھ کر فروغ دیا جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ افسوس کہ ان کا ساتھ دینے والوں میں مذہب و قلم پیشہ رہنماومبصر معمولی مفادات کی خاطر ہمیشہ پیش پیش رہے جنہیں بڑے سیاسی عہدوں سے نوازا جاتا رہا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ہر گذشتہ، موجودہ یا آنے والی حکومت میں (آمرانہ ہو یا جمہوری) بڑے عہدوں اور وزارتوں پر یہ مخصوص ٹولہ بھی اپنے آقاؤں کے ہمراہ براجمان نظر آتا ہے۔ گنتی کے یہ چند سیاسی اور مذہبی خاندان ہیں جو نسل در نسل عوام کو غلام بنا کر ان کے وسائل اور حقوق پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
غلامی کا یہ جسمانی و نفسیاتی طوق اتنا مضبوط کر دیا گیا ہے کہ اب عوام آزادی کے اصل مفہوم سے بھی بیزاری محسوس کر تی ہے۔ مرحلہ وار غلامی کا یہ سلسلہ قدم بقدم نیچے جڑوں تک پھیلتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب پیشہ رہنما اپنے بڑے آقاؤں کی غلامی کا دم بھرتے ہیں جبکہ سیاسی آلہ کار اپنی سیاسی پارٹی کے آقاؤں کی غلامی پر آمادہ ہیں اور یہ سربراہان ہمیں عرب ممالک کی غلامی کرتے نظر آتے ہیں عربی لیڈر شپ امریکا کے آشیر باد تلے دبے نظر آتے ہیں جبکہ امریکا بہادر اسرائیلی مفادات کے تحفظ کا ضامن نظر آتا ہے۔
اسرائیل اپنے وجود اور مذہب کو عظیم اور ابدی مذہب ثابت کرنے کے نظریے کی غلامی میں جکڑا نظر آتا ہے۔ آزادی کے نام پر سیاسی سرمایہ داروں نے غلامی کا ایسا چورن بیچا کہ آج ہم آزادی کے معنی و مفہوم ان اقوام سے سیکھتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نسلی، سماجی، معاشرتی اور سامراجی غلامی سے آزاد کرلیا۔سوال یہ ہے کہ ریاست کو غلام بنا کر اس میں آزاد کیسے رہا جاسکتا۔
ایک شخص آزاد تب ہوتا ہے جب وہ اپنی زندگی کے معاملات خود طے کرتا ہے تمام فیصلے اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے نہ دوسروں کااپنے معاملات میں خلل پسند کرتا ہے۔ بقول نیلسن منڈیلا: “محض کسی کے زنجیر اکھاڑ پھینکنے کو آزادی نہیں کہا جا سکتا بلکہ دوسروں کی آزادی کا احترام و تائید کرتے ہوئے زندگی گزارنا حقیقی آزادی ہے” بد قسمتی سے ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں نسلی و طبقاتی غلامی میں جکڑے کروڑوں لوگ ہر سال مارچ اور اگست میں آزادی کے نام نہاد جشن منا کر خود کو آزاد تصور کرتے ہیں۔
لیکن انہیں روزگار ملے یا نہ ملے ان کو یوٹیلٹی بلز میںانکم ٹیکس اپنے آقاؤں کو دینا ہی پڑے گا۔ دو وقت کا کھانا نصیب ہو نہ ہو سیلز ٹیکس بہر حال زہر کھانے پر بھی دینا ہی پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسے ٹیکسز بہرحال حکومتی آقا آپ سے نچوڑہی لیں گے۔ بدلے میں آپ کی غلامی کا طوق وہ اپنی نسلوں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔ اور عوام یہی سمجھتی ہے وہ آزاد ہیں۔ آج ہمیں آزادی کے حقیقی مطالب جاننے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کوئی ٹی وی چینل کوئی لکھاری آزادی کے حقیقی معنوں پر بات کرتاکیو ں نظر نہیں آتا۔ کیونکہ یہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ حکومتی اداروں کی کرپشن، دہشت گردی کے بڑے واقعات ، سیاسی اختیارات کا ناجائز استعمال سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی رائے عامہ اپنے آقائوں کے حق میں ہموار کرنے کی خاطر یہ “سب اچھا ہے ” کا ورد گردانتے نظر آتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی خرابیاں، لوٹ مار کو چھپانے کے لئے ایسی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں کہ جھوٹ بھی شرما جائے۔
درحقیقت یہی لوگ “غلامی ” جیسی طوائف کی دلالی کا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں میں پہچاننے کی خصوصی ضرورت ہے۔ بقول میکولم ایکس: ” امن و آزادی ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ آزادی کم ہونے سے امن عامہ پر بھی اثر پڑنا لازمی ہے”۔
تحریر : زاہد محمود