تحریر : شہزاد حسین بھٹی
اسلام میں گستاخی ِ رسول کی سز اموت ہے ۔گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتنہ ہر دور میں سر اُ ٹھاتا رہا ہے اور اپنی موت آپ مرتا رہا ہے ۔اسلامی تاریخ میں پہلا گستاخ ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “ابی بن خلف ” حضور اکرم نبی آخر الزمان کے ہاتھوں تین ہجری کو جہنم واصل ہوا۔ بشر منافق ،اروہ ( ابو لہب کی بیوی )، ابو جہل ،ااُمیہ بن خلف ،نصر بن حارث عصمہ (یہودی عورت )،ابو عفک ،کعب بن اشرف ،ابورفع،ابو عزہ جمع ،حارث بن طلال ،عقبہ بن ابی معیط ،ابن خطل ،حو برث نقید،قریبہ (گستاخ باندی) سے لے کر آج تک ہر دور میں گستاخِ رسول کا فتنہ سر اُٹھاتا رہا ہے۔ اسلام دشمن طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیئے اور انکی اپنے عقیدے یعنی اسلام پر گرفت کو جانچنے کے لیئے کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر فلمیں بنا کر اور کبھی گستاخانہ خاکے چھاپ کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی قبع سازشیں کی جا تی رہیں ہیں۔کبھی سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کے خلاف کتابیں لکھ کر ناپاک جسارت کرتے ہیں۔تو کبھی ڈنمارک ،ناروے اور فرانس کے اخبارات گستاخانہ خاکے چھاپ کر مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
پیرس سے شائع ہونے والے ایک طنزیہ رسالے ” چارلی ایبڈو ” نے سستی شہرت حاصل کرنے اور اپنے اخبار کی سیل بڑھانے کی خاطر کچھ عرصہ قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے چھاپ کر سستی شہرت حاصل کی تھی جسکی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانو ں کے اندر اشتعال پایا گیا جسکے نتیجے میں چند نامعلوم شدت پسندوں نے گذشتہ ہفتے پیرس میں اخبار ” چارلی ایبڈو ” کے دفتر پر حملہ کرکے اخبار کے ایڈیٹر سمیت بارہ گستاخانہ رسول کو جہنم واصل کر دیا جس پرفرانس سمیت پوری دنیا میں اسلام مخالف طاقتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور فرانس کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی کے لیئے چالیس ملکوں کے سربراہان پیرس میں چالیس لاکھ افراد کے ساتھ اکٹھے ہوئے اور اخبار کے ساتھ اپنی نہ صر ف اظہار ہمدردی بلکہ اس وحشیانہ واقعے کی بھر پور مذمت کی ۔
یہی نہیں بلکہ اخبار نے اپنی اگلی اشاعت میں گستاخانہ خاکے اخبار کے صفحہ اول پر دوبارہ چھاپے اور ساٹھ ہزار چھپنے والے اخبار کی چالیس لاکھ کاپیاں چھاپیںتاکہ اس اخبار کو پوری دنیا میں بھیجا جا سکے۔گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف سب سے پہلا احتجاج مسلمان ملک ترکی اور اردن میں دیکھنے میں آیا ۔یہی نہیں بلکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فرانس شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ جب تک فرانس اپنے اخبار کے گستاخانہ خاکوں پر پوری مسلم امہ سے معافی نہیں مانگتا اپنے سفیر اپنے پاس رکھے انکی ترکی میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔
پاکستان میں اس خاکے پر احتجاج کا سلسلہ جمعرات سے شروع ہوا تھا جب قومی اسمبلی نے اس کے خلاف قرار داد منظور کی اور ارکان اسمبلی نے شاہراہ دستور پر احتجاجی مارچ کیا ۔اس احتجاج کے بعد مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جمعے کو بعد از نماز جمعہ احتجاج کا اعلان کیا جس کے تحت دارالحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ ملک کے متعدد شہروں میں مظاہرے کیے گئے ۔مذہبی وسیاسی جماعتوں کے عہدیداروں نے فرانسیسی میگزین میں خاکوں کی اشاعت کے اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور انہوں نے کہا کے فرانسیسی میگزین نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔لہذا فرانسیسی حکومت اس میگزین پر فلفور پابندی لگائے۔
جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ کی جانب سے فرانسیسی اخبار پر حملے کے نتیجے میں خاکہ نگاروں کی ہلاکت پر افسوس کرنے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حکومت کو فرانسیسی حکام اور یورپ سے شدید احتجاج کرنا چاہیے تھا ۔خاکوں کی اشاعت پر پوپ فرانسس کا بیان بھی سامنے آیا ہے اور انہوں نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے۔ پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ آذادی اظہاررائے کی بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں اور دوسروں کے مذاہب کی توہین نہیں کی جا سکتی اور گالی دینے والا مکا پڑنے کی توقع رکھے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر ” او آئی سی” مکمل طور پر چپ سادھے ہوئے ہے گویا اسے سانپ سونگھا ہو ا ہو کوئی اسلامی ملک ماسوائے ترکی اور اردن کے کسی کے کان پر جو ں تک نہ رینگی ہے اگرچہ کچھ ممالک میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں لیکن جس اندازمیں فرانسیسی اخبارکی حمایت میں چالیس ممالک کے سربراہان فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے اکٹھے ہو سکتے ہیںتو دنیا کے 49 اسلامی ممالک اپنے پیارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے خلاف عالمی طور پر اکٹھے ہوکر گستاخی کرنے والوں کو سخت پیغام کیوں نہیں دے سکتے۔اگر ہم حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے تو پھر ہمیں مسلمان ممالک کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے ہم کیوں اغیارکے ایجنڈے اور اسلام دشمن سازشوں کو ناکام بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ؟ کیا ہمارے اندر اتنی بھی ایمانی غیرت نہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمت کر سکیں ۔کیا ہمیں غلامیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موت بھی قبول نہیں ہے ؟ سوچیے یہ زندگی چار دنوں کا میلہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہم کس منہ سے جائیں گے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی