counter easy hit

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

Journalist Killed

Journalist Killed

تحریر : محمد آصف اقبال
انگلش اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کی روشنی میں سال 2015میں جن تین ممالک میں سب سے زیادہ صحافی حضرات قتل ہوئے ان میں ہندوستان سر فہر ست ہے۔رپورٹرس وِدآوٹ بارڈرس کی شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے بالمقابل ہندوستان میں گزشتہ سال سب سے زیادہ صحافی حضرات ہلاکت کا شکار ہوئے ہیں۔رپورٹ بتاتی ہے کہ ہلاک شدہ صحافیوں کے پس پشت ہندوستانی سیاست اور جرائم سے وابستہ افراد کا ہاتھ ہے ۔یہ خبر نہ صرف حد درجہ افسوس ناک ہے بلکہ سیاست اور جرائم کے رشتہ کو بھی خوب اچھی طرح واضح کرتی ہے۔وہیں دوسری جانب یہ ہلاکتیں ملک کے نظم و نسق پر بھی راست سوالات کھڑے کرتی ہیں۔واقعہ بہت بڑا اور اہم ہے اس لحاظ سے صحافی حضرات کا منظم قتل سال کے اختتام پر ایک بڑی خبر بننا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ممکن ہے موجودہ دور میں جس طرح انسانی جانیں کہیں منظم و غیر منظم جنگوں کی نظر ہوئی ہیں،اس کے نتیجہ میں صحافی حضرات کی ہلاکتیںتعداد کے لحاظ سے شاید کوئی خاص معنٰی نہ رکھتی ہوں۔ اس کے باوجود بلا سبب انسانی جان کا قتل پوری دنیا میں چاہے ایک ہی ہوقابل توجہ ہے۔لیکن معاملہ یہ ہے کہ آج نہ انسانوں کی کوئی اہمیت ہے ،نہ ان کے مسائل کی اور نہ ہی ان کی زندگی کی۔کیونکہ موجودہ دور میں دنیا پر چند طاقتور افراد و گروہوں کا غلبہ ہے،لہذااُن کی موت اور اُن کے مسائل ہی دراصل مسائل ہیں۔باقی مسائل روزمرہ کے مسائل ہیں،جنہیں دنیا کے بااقتدار افراد و گروہ اہمیت کا حامل نہیں سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ چند مخصوص طاقتیں دنیا پر مسلط ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ کوئی دوسرا گروہ یا طاقت دنیا میں ابھرے اور اپنی پہچان بنائے۔

اس پس منظر میں گزشتہ ایک سال میں ہندوستان نے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات نہ صرف مزید استوار کیے ہیں بلکہ یہ بھی کو شش کی ہے کہ وہ دنیا کے بڑے ممالک کے سامنے ایک نئی شناخت کے ساتھ ظاہر ہو۔اور یہ عین ممکن ہے کہ ہندوستان مستقبل قریب میں دنیا میںطاقت کا ایک اہم سرچشمہ تسلیم کیا جائے۔ وجہ؟ہندوستان کے پاس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے ،جنہیں اگر باصلاحیت بھی بنا لیا جائے تو پھر مقاصد کے حصول میں دشواریاں کم سے کمترہوتی جائیں گی۔ دوسری جانب گزشتہ سال 2015میں ہندوستان میں جس طرح عدم رواداری کے معاملات سامنے آئے ہیں، وہ ایک تشویشناک پہلو ہے۔اور یہی وہ پہلو بھی ہے جو دنیا میں ہندوستان کی رسوائی کا سبب بنتا رہا ہے۔ان حالات میں جن عزائم کے ساتھ ملک کو آگے بڑھنا چاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا۔وہیں غربت و افلاس کو دور کرنے کے منصوبہ پر اُس درجہ عمل نہیں کیا جاسکا جو مطلوب تھا۔اور یہ ہوتا بھی کیسے ؟ جبکہ ایک طبقہ مسائل پیدا کرنے میں ہی صرف مصروف تھا۔اس موقع پر جو اہل اقتدار ہیں انہیں بھی تو ان لوگوں کو بھی جو ملک کی ترقی و فلاح و بہبود کے نام پر ہر الیکشن میں ووٹ مانگتے ہیں،سوچنا چاہیے کہ مل جل کر ملک کی ترقی و فلاح بہبود میں کام کیسے کیا جائے؟کیا یکساں ترقی کا راز یہی ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ تو اس کام میں ہاتھ بٹائے لیکن ایک دوسرے بڑے طبقہ کو مسلسل نظر انداز کیا جائے؟

در حقیقت ہندوستان اپنے جغرافیہ کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے۔یہاں بے شمار تہذیبیں پائی جاتی ہیں۔جن کے اپنے رسم و رواج اور طور طریق ہیں۔پھر ہندوستان میں ریاستوں کی ایک بڑی تعداد ہے،جہاں آئے دن مختلف سطح کے سیاسی انتخابات عمل میں آتے ہیں۔لہذا یہاں ہر دن عوام اور سیاسی لیڈران کو مقاصد کے پیش نظرمخصوص موضوعات درکار رہتے ہیں۔اس کے باوجود سیاسی لیڈران کے پیدا کردہ ایشوز ہی عموماً گردش میں رہتے ہیں۔برخلاف اس کے عوام کے حقیقی مسائل پس پشت نظر آتے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ عوام میں سیاسی بیداری کا فقدان ہے۔تو وہیں دوسری جانب جذباتی مسائل میں عوام کا کوئی اپنا پختہ موقف نہ ہونا ہے بھی ایک مسئلہ ہے۔مثلاً گزشتہ دنوں دہلی سے قریب دادری میں ایک شخص کے گھر میں چند لوگ چڑھ دوڑے صرف اس بنا پر کہ اُس گھر میں گوشت کا استعمال کیا جا رہا تھا۔کہا گیا کہ وہ گائے کا گوشت ہے ،لہذا اس کی جان لینی چاہیے،کیونکہ وہ “مقدس گائے”سے اپنی بھوک مٹا رہا ہے۔لیکن جب رپورٹ سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ وہ گوشت”مقدس گائے”کا نہیں بلکہ بکرے کا تھا۔اب عوام و خواص سب خاموش تماشائی بنے ہیں؟شاید وہ کنفیوژن کا شکار ہیں یا پھر تذبذب میں مبتلا ہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے کیے پر پشیمان ہوں! ایسے بے شمار وقتی مسائل ہیں ،جن پر ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں یا جن لوگوں کے کہنے پر مخصوص ردّعمل کا اظہار ہوتا ہے ،اس کے دور رس نتائج کیا نکلیں گے؟ لہذا عوام کو صرف اسکول اور کالج میں ہی تعلیم یافتہ بنادینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اُن تعلیمات سے بھی آشنا کیا جائے جس کے ذریعہ نفرتیں کم ہوں تو وہیں آپسی رشتے مضبوط بنیادوں پر استوار کیے جا سکیں۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں متشدد تنظیمون نے گزشتہ دنوں گھر واپسی کے نام پر تبدیلی مذہب پر سوالات اٹھائے تھے۔ مسئلہ کا حقیقی رخ یہ ہے کہ اِن متشدد تنظیموں وسربراہان کو مخصوص مذہب سے نفرت و کراہیت ہے۔لہذا وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح نفرت کی آگ میں وہ جل رہے ہیں ٹھیک اسی مانند دیگر اہل ملک بھی نفرت کی آگ میں جھلس جائیں ۔اس کے باوجود تبدیلی مذہب آج بھی اُن کی ناک کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جس مذہب کو وہ تبدیل کرنے سے روکتے ہیں ،اس میں عدل و انصاف کی بنیادوں پر اتنی جان ہے ہی نہیں کہ اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پیرا رہا جانا ممکن ہو۔سال کے آخری دن جس طرح جانے مانے IASافسر امرائو سلودیا نے دلتوں کے ساتھ(وہ خود بھی ہیں)بھید بھائو کا رویہ اپنانے کی بات کہی اور ناراضگی کے اظہار میں مذہب تبدیل کیا،وہ خود ان لوگوں کے لیے سوچنے کا اہم موقع فراہم کرتا ہے۔خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو تبدیلی مذہب پر روک لگانا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر کوئی کیوں بلا روک ٹوک ایک ہی مذہب کو اختیار کیے رہے جبکہ اُس مخصوص مذہب میں متعلقہ شخص کو اطمینان بھی نہ حاصل ہو؟اسی واقعہ میں ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آتا ہے ،خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا اختیار شدہ مذہب امرائو سلودیا نے قبول کیا ہے۔

وہ یہ کہ اس مذہب میں درحقیقت اِس قدر جاذبیت ہے کہ ہر طرح کے مسائل پیدا کیے جانے کے باوجود لوگ بلا خوف و ہراس بڑے پیمانہ پر لوگ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔بشرطیکہ مذہب کے ٹھیکدار اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو تے ہوئے وہ تمام اوصاف حمیدہ اپنے اندر پیدا کر لیں،جن سے اُن کا مذہب تقاضہ کرتا ہے۔آخر میں کہنا چاہیں گے کہ گرچہ سال 2015میں وطن عزیز میں اچھے واقعات کم اور برے زیادہ سامنے آئے۔اس کے باوجود دن بھی گزر گئے،واقعات بھی اور وہ لمحات بھی جن سے ہم اور آپ افسردہ ہوئے ہیں۔اور یہ دن ،مہینہ اور سال ایسے ہی گزرتے رہیں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اپنے دن جبکہ ہمیں ہر طرح کی پریشانی ،آزمائش اور مسائل سے بچا لیا گیا،کیسے گزارے؟

کیا ہم نے اپنے وقت ،صلاحیتوں اور وسائل کا صحیح استعمال کیا؟اگر کیا تو بہت خوب لیکن اگر نہیں کیاتو ایک بار پھر دن بھی موجود ہ ، مہینہ بھی اور سال بھی ،جب تک کہ موت کے فرشتے ہماری روح قبض کرنے نہ چلیں آئیں ۔لہذا جو کچھ بھی میسر ہے اور جس قدر بھی اسی لحاظ سے اس کا استعمال بھی کیا جانا چاہیے۔کیونکہ مسائل نہ کبھی ختم ہوتے ہیں اور نہ ہوں گے۔یہ گزشتہ سالوں میں رونما ہوئے ہیں، اس سال بھی ہوں گے اور آئندہ سالوں میں بھی۔اور یہ جب جب رونما ہوں گے ان سے نمٹنے کے لیے اسی وقت لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا۔برخلاف اس کے ہماری اور آپ کی زندگی میں کچھ کام ایسے لازماً ہونے چاہیں جو مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مثبت بنیادوں پر مستقل جاری رہنے چاہیں۔کیونکہ نہیں معلوم کہ موت کا فرشتہ کب آدھمکے۔اس کے باوجودموت کا ایک دن معین ہے،نیند کیوں رات بھر نہیں آتی!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com