کھیوڑہ کی عوام نے 19 نومبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بڑی آس و امیدوں کے ساتھ اپنے شہر سے 81 امیدوار برائے کونسلرز میں سے 19نمائندوں کو ووٹ کی طاقت سے منتخب کیاجن میں 11سیٹیں مسلم لیگ ’ن‘،6آزاد اور 2پی ٹی آئی کے حصے میں آئی بعد ازاں 4آزاد امیدواروں نے اپنی سیٹیں اپنے حلقے کی عوام کی رضامندی ؟؟ سے ’ن‘ کی جھولی میں ڈال دی جس سے ’ن‘ کی پوزیشن اور مستحکم ہوگئی اور اب چےئر مینی کے لیے کئی نام گردش کر رہے ہیں فیصلہ اب عام ووٹر کے ہاتھ سے نکل کر ان کے منتخب کردہ کونسلر زکے ہاتھوں میں چلاگیا ہے اور اب ان 19کونسلرز نے اپنے ووٹ کی طاقت سے شہر کے چےئر مین کو منتخب کر ناہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر کونسلر تقریبا 2000لوگوں کی نمائیدگی کر رہا ہے عمومی عوامی رائے کے مطابق اپنے کونسلر میں عوام جو خصوصیات دیکھ کر اسے منتخب کرتی ہے ان میں سب سے نمایاں عوام کے دردکا احساس ہے جو انہیں بنیادی مسائل کے حل میں مدد گار ہو،جو علاقے کی ترقی کے لیے اپنے ذاتی مفاد سے بڑھ کر عوامی مفاد کا پاس رکھے،کھیوڑہ شہر سے منتخب ہونے والے تمام ہی کونسلرز باشعور ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس قدیم اور بین الااقوامی شہرت کے حامل شہر کے دیرینہ مسائل سے واقف نہ ہو منتخب ہونے سے قبل تو تقریبا تمام ہی نمائیدوں کا دعوی تھا کہ شہر کو پیرس بنا دیں گے تاہم ان کی بالغ نظری کا اصل امتحان اب ہے اور انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں چےئر مین منتخب کرنے کے لیے ووٹ پول کرنے کا حق ان کو واثت میں نہیں ملا بلکہ عوامی اعتماد نے انہیں یہ قوت بخشی ہے انہوں نے صرف ایک ووٹ پول نہیں کرنا بلکہ اپنے تمام حلقے کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ،چےئر مین کی سیٹ کے لیے پارٹی اور برادری سطع پر جو رسہ کشی جاری ہے اس سے تقریبا ہر فرد واقف ہے جسکا حتمی فیصلہ بہرحال پارٹی کی اعلی قیادت ہی نے کر نا ہے پارٹی کی اعلی قیادت بھی اب ہوش مندی دیکھاتے ہوئے اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کرنے میں مدد گار بننا ہوگا جو مستقبل میں عوام کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ پارٹی کے لیے بھی باعث فخر ہو، اس کے باوجود اگر نومنتخب کونسلرز کی ذمہ داری اپنی جگہ برقرا ر ہے جنہوں نے گھر گھر جا کر کئی کئی مرتبہ ووٹروں کے دروازے کھٹکھٹا کر اپنے صادق اور امین ہونے کی دلیلیں دی تھیں اور اپنے لیے ووٹوں کی درخواست کی تھی اور اب منتخب ہونے کے بعد ان کے پاس ان کا ووٹ اس حلقے کی عوام کی امانت ہے ان تمام کونسلرز کو ہمت کرکے ایک مرتبہ پھر اپنا قیمتی ٹائم نکال کر اپنے حلقے کی عوام سے مشورہ لینا چا ہئیے کہ وہ کس کو شہر کا چےئرمین دیکھنا پسند کرتے ہیں اسطرح کے لیے اپنا ووٹ پول کر نا آسان ہوجائے گاجبکہ دوسری طرف ان کی قدر ووٹرز کی نظر میں کئی گنا بڑھ جائے گی اور اگر اس موقع پر ان نو منتخب نمائندوں نے عدم دلچسپی یا پھر کسی بھی دوسرے طریقے مصلحت، دباوٗ یا ذاتی مفاد کے پیش نظر ووٹ پول کیا اوراس کے نتیجے میں ایک بار پھر کوئی ’سلیپنگ پرسن‘ آگے آگیا تو اس کا خمیازہ پورے شہر کو بھگتنا پڑے گا روائتی سیاست کے ساتھ ساتھ برادری ازم سے بالا تر ہوکر صرف اپنے شہر اور اس کی عوام کی خوشحالی کو مد نظر رکھ کر اپنا ووٹ پول کرنا ان کا فرض ہے تاکہ قیام پاکستان سے اب تک پسماندگی کی دلدل میں پھنسی عوام کو تازہ ہوا میسر ہو سکے کیونکہ آج کے ترقی یافتہ ددر میں بھی اس شہر کی عوام پتھر کے دور کی نمائیدگی کرتی نظر آتی ہے قدرتی معدنی دولت سے مالا مال اس علاقے کی زبوں حالی کا سبب اس سے قبل اس کے نااہل منتخب نمائیدے ہی رہے ہیں جنہوں نے اقتدا ر میں ہونے کے باوجود عوام کو مسلسل نظر انداز کیے رکھاان کی تمام تر توجہ اپنے زاتی کاروبار کی نشونما پر مرکوز رہی عوام اور عوامی مسائل کو مسلسل پس پشت رکھنے کا نتیجہ آج شہر کی بدتر حالت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے پینے کے صاف پانی کے حصول سے لیکر بنیادی صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی آپ کے سامنے ہے شہر کی مرکزی سٹرک آثارے قدیمہ کی نشانی بن گئی ہے ،روڈ اور سٹریٹ لائیٹس کا نظام انتظامی نااہلی کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے،نظام تعلیم کی ابتری ایک الگ کہانی ہے دوسرے شہروں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے والے مقامی نوجوان تلاش روزگار کے لیے ایک بار پھر دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں،جسمانی اوردماغی نشونما کے لیے اس شہر کے نوجوان کھلاڑی گراونڈ اور لائبریری کی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں اہل شہر کا ایک بڑی آبادی سوئی گیس کی سہولت سے محروم ہے شہر میں روز بروز بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے چشم پوشی سلو پوائزنگ ہی تو ہے جسے ذاتی مفاد ات کے پیش نظر انداز کیا جاتا رہاہے یہ تمام تکالیف ہم اسی لیے برداشت کر رہے ہیں کہ ہم نے اس سے قبل جن لوگوں کو اختیارات سونپے انہوں نے اس کا پاس نہیں رکھا اور اس بار پھر ہم سے چوک ہوئی تو بہت برُاہوگااپنے حلقے کے کونسلر سے ملاقات کریں شہر کا چےئر مین کے انتخاب میں اس کی مدد کریں اپنا نقطہ نظر اسے بتائیں اور اسے احساس دلائیں کہ اس نے ایک ووٹ پول نہیں کرنا وہ ایک حلقے کا نمائندہ ہے اس کی ذمہ داری کئی گنا زیادہ ہے اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر اپنی وہ ذمہ داری پوری کرے جو سینکڑوں ووٹوں کی شکل میں اسے ملی ہے جسے اس نے ایک ووٹ کی شکل میں عوام کو واپس کرنا ہے۔