تحریر: شاہ بانو میر
آج عرصہ کے بعد چھوٹے بیٹے کی توجہ بٹانے کیلئے اسے کارٹون لگا کر دیے تو 20 منٹ میں اس پیاری رنگ برنگی معصوم سی دنیا نے مجھے دو بڑے سبق دے دیئے کارٹون شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ محل میں ہمسایہ ملک کا بادشاہ کچھ گھنٹوں میں آنے والا ہے اور زور و شور سے تیاریاں ہوتی دکھائی جا رہی ہیں۔
ایک دم کسی کا دھیان محل کی چھت پر جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ چھت سے ہمسایہ دشمن جھنڈاہی اتار کر لے گیا ہے ایک دم جیسے طوفان مچ جاتا ہے کہ ہمارے لئے ذلت والی بات ہے جیسے بھی وہ جھنڈا جو خاص ہے وہ لایا جائے بحری قزاق خاص طور سے سمندر کی جانب سے آتے ہیں اور وہی جھنڈا چوری کرتے ہیں بچوں کی ایک ٹیم تیار ہوتی ہے اور کس جوش و جزبے کے ساتھ وہ منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے بلآخر پاؤں کے نشانوں کا تعاقب کرتے ہوئے ان کو جا لیتے ہیں۔
بحری قزاق اپنے جہاز کے قریب پہنچ ک جھنڈے کو اپنی کامیابی کے نشان کے طور پر اپنے جہازپر لہرا کر خود سکون سے سو رہے ہوتے ہیں یہاں غالباّ ایک سبق یہ بھی ہے کہ جب تک مکمل سو فیصد کامیابی حاصل نہ کرو کبھی نہ رکو کہ کامیابی ناکامی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے دوسری جانب محل میں بادشاہ غم اور افسوس کے ساتھ مسلسل چہل قدمی کر رہا ہے ملکہ دوسری جانب حالت اضطراب میں ٹہل رہی ہے ملازمین منہ لٹکائے بے دلی سے کام کر رہے ہیں کہ دوسرے ملک کے بادشاہ کی آمد کسی وقت بھی متوقع ہے۔
اچانک محل کے مرکزی دروازے سے بچوں کی ٹیم گھوڑوں پر فاتحانہ نعرے لگاتی ہوئی اندر داخل ہوتی ہے اور بہت سرعت کے ساتھ چھت پرچڑھ کر اپنا پرچم لہرا دیتے ہیں اسی اثناء میں مہمان بادشاہ محل میں داخل ہوتا ہے اپنے لاو لشکر کے ساتھ بادشاہ اک رنگ بے عزتی کے احساس سے کہ اس کے ملک کا جھنڈا ہی دشمن اتار کر لے گئے فق ہو جاتا ہے عین اسی وقت جھنڈے کو لہراتے وقت جو شاہی بٍگل بجایا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی آمد پر بھی بجایا جاتا تھا وہ بگل بجتا ہے تو بادشاہ اور ملکہ حیرت سے چھت کی جانب دیکھتے ہیں تو ان کے چہروں کی رونق اور سرخی لوٹ آتی ہے۔
ان کا پرچم بڑی آن بان شان سے فضا میں لہرا کر ان کے ملک کے وقار میں اضافہ کر رہا ہے مہمان بادشاہ سلیوٹ کرتا ہے اور سب کے چہروں پر اپنے وطن کی عظمت اور پرچم کے احترام کیلئے خاص تاثرات پیدا ہوتے دکھائے گئے جن کو دیکھنے سے ہی ان کی شدت کا اندازہ ہو سکتا ہے خوبصورت بچوں کی من موہنی پیاری دنیا سے سبق ایسے سمجھدار غیرتمند بچے جس ملک میں ہوں وہ ملک کبھی ناکام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی کے سامنے شرمندہ ہم سب کو بھی سیکھنا چاہیے۔
تحریر: شاہ بانو میر