پانامہ ایشو کے بعد وزیراعظم کی نااہلی نے نئی صف بندی کر دی ہے۔ لوگ کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ عوام کے طرفدار بھی اور عوام کے دشمنوں کے طرفدار بھی۔ نقاب اتر چکے ہیں، طبل جنگ بج چکا ہے اور فائنل راؤنڈ جاری ہے۔ سماج کے دیگر طبقات کے ساتھ صحافیوں میں بھی تقسیم واضح ہو چکی ہے۔ کچھ صحافی ملک و ملت کا قرض چکا رہے ہیں اور کچھ اپنے آقاؤں کا حقِ نمک ادا کر رہے ہیں۔ اس معرکے کے اختتام تک کچھ اپنا نام تاریخ میں امر کر چکے ہوں گے جبکہ کچھ کو تاریخ بھلا چکی ہوگی۔
کچھ لوگوں نے تو انتہائی سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو عوام کے مخالف صف آراء کیا ہوا ہے اور وہ یقیناً اس کی قیمت بھی وصول کر رہے ہوں گے مگر چند احباب ایسے بھی ہیں جوصرف اور صرف جمہوریت کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں۔ انہیں اندازے کی شدید غلطی نے شاید غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ عوام مخالف کیمپ سے ہمدردی کر رہے ہیں۔
ان احباب کا المیہ یہ ہے کہ وہ پانامہ کیس کو بھی ماضی کی طرح اداروں کی اندرونی چپقلش اور تصادم کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پانامہ ایشو نہ عدلیہ نے اٹھایا ہے اورنہ ہی فوج کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ پرویز مشرف کے بعد جس طرح فوج نے خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا شروع کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ راحیل شریف کے دور میں سیاست سے علیحدگی کا عمل عروج پہ تھا۔ اب جبکہ باجوہ صاحب آرمی چیف بن چکے ہیں، جو بقول شخصے حکومت کے خاص آدمی ہیں اور انہوں نے آتے ساتھ ہی ادارے میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں اور تقرریاں کی تھیں جو بادی النظر میں حکومت کے ایما پر کی گئی تھیں۔ اس صورتِ حال میں ایسی کسی بھی مداخلت کا امکان ناممکنات میں سے ہے۔
پانامہ ایشو سیدھا سادا ملکی وسائل کو لوٹ کر بیرونِ ملک ذاتی جائیدادیں بنانے کا کیس ہے جس میں عدلیہ نے شریف فیملی کو اپنی صفائی دینے کا مکمل موقع فراہم کیا مگر وہ دولت کی بیرون ملک منتقلی کا کوئی بھی ثبوت نہ دے سکی اور جو ثبوت دیے گئے وہ بوگس، من گھڑت اور خود ساختہ تھے جن پر سپریم کورٹ برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔ عدلیہ نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو بار بار مواقع دیے تا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں مگر شریف فیملی خود پر لگے الزامات کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔ ایسے میں عدلیہ پر سازش کا الزام بدنیتی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
حقیقت یہ ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور سانپ کا ڈسا رسی سے بھی خوف کھاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا میں نصرت جاوید اور سوشل میڈیا پہ فرنود عالم ان لکھاریوں میں شامل ہیں جنہوں نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھ کر پانامہ ایشو کے بارے میں رائے قائم کی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جمہور اور جمہوریت کی خدمت یہ نہیں کہ آپ مجرموں کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیں۔ جمہوریت تو یہ سکھاتی ہے کہ افراد کو قانون کی چھلنی میں سے گزار کر پرکھا جائے۔ آپ اپنے سیاسی نظریات کو بھلے سنبھال کر رکھیں۔ آپ بھلے عمران خان کو سیاسی طور پہ سپورٹ نہ کریں مگر کم از کم جمہوریت کے نام پر ایک خاندان کی لوٹ مار کی حمایت تو نہ کریں ۔ آپ میں اتنی اخلاقی جراءت تو ہونی چاہیے کہ آپ جمہوریت کے نام پہ لوٹ مار کرنے والوں سے سوال کر سکیں کہ حضور! عوام نے آپ کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے، لوٹ مار کا نہیں۔ خدارا ملکی وسائل کو لوٹ کر اس مینڈیٹ کی توہین تو نہ کریں۔ کیا آپ کے نزدیک جمہوریت کے نام پر ہر اٹھائی گیرے کی بے جا اور غیر مشروط حمایت ہی جمہوریت کا حسن ہے ؟