جب سے ون ڈے کرکٹ نے جنم لیا ہے آل رائونڈرز کے نام پر کرکٹرز کی ایک ایسی کھیپ پیدا ہوئی جسے عمران خان کی زبان میں “رلوکٹے” کہا جا سکتا ہے۔ یعنی تھوڑی سی بیٹنگ تھوڑی سی بائولنگ۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ نے تو کام مزید آسان کر دیا۔ اگر کوئی کرکٹرز ایک دو چھکے مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور 110 کی رفتار پر سلو سلو “گھیسی گھیسی” بائولنگ کر سکتا ہے تو ٹیم میں نہ صرف اس کی جگہ یقینی ہے بلکہ ٹی ٹونٹی کا وہ ایک بڑا کھلائی ہے۔ کارلوس بریتھویٹ اور کیرن پولارڈ کو ہی دیکھ لیں۔
مگر ٹیسٹ کرکٹ کا معاملہ دوسرا ہے۔ دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں کتنے ہی آل رائونڈرز آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ پاکستان کی مثال لے لیں تو شاہد آفریدی، اظہر محمود، شعیب ملک، محمد حفیظ اور عبدالرزاق جہاں کئی سال تک ون ڈے ٹیم کا حصہ رہے وہیں اپنے ٹیسٹ کیریئر کے آغاز میں شاندار کارکردگی کے باوجود اپنے ٹیسٹ میچز کی ففٹی بھی مکمل نہ کر پائے۔ وجہ یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں تھوڑی سی بیٹنگ اور تھوڑی سی بائولنگ والا کام زیادہ عرصہ چل نہیں سکتا۔ عبدالرزاق کی کہانی البتہ تھوڑی مختلف ہے۔ عمران خان کے بعد پاکستان کو یہ پہلا مکمل آل رائونڈر ملا تھا مگر ٹیم مینیجمنٹ نے ہمیشہ “رلوکٹوں” کو عبدالرزاق پر ترجیح دی۔ چند میچز کو نکال کر کامران اکمل ، شعیب ملک، شاہد آفریدی اور محمد حفیظ سب ہی ون ڈے اور ٹیسٹ دونوں ہی فارمیٹس میں عبدالرزاق سے پہلے بیٹنگ کرتے رہے۔ بائولنگ میں بھی باقی چاروں آل رائونڈرز سے بہتر بائولنگ ریکارڈ کے باوجود رزاق کو اکثر بطور پارٹ ٹائم بائولر استعمال کیا گیا۔
اب کافی عرصے بعد ایک بار پھر سے پاکستانی شائقین کی اکثریت فہیم اشرف اور شاداب خان میں “جینوئن ٹیسٹ آل راونڈرز” تلاش کر رہی ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں ہم نے شروع کی کارکردگی کی بنیاد پر درجنوں “لیجنڈز” تراشے مگر ہر بار مایوسی ہوئی۔ عمران فرحت، سلمان بٹ، عمران نزیر، یاسر حمید، عمر اکمل ، شرجیل خان ، صہیب مقصود، محمد سمیع، سہیل تنویر، حماد اعظم اور نہ جانے کون کون۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا مسئلہ ٹیلنٹ نہیں۔ یہ تمام نام ٹیلنٹ کے لحاظ سے جاوید میانداد، انضمام، یونس، یوسف، سعید، عمران، وسیم، وقار، شعیب ، ثقلین یا رزاق سے کم نہیں تھے مگر یہ اپنے ٹیلنٹ کو کارکردگی میں تبدیل کرنے میں مسلسل ناکام رہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ جیسے ذہنی مضبوطی، وقت کے ساتھ ڈھلنے اور سیکھنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر “رویہ اور سنجیدگی”۔ فہیم اشرف اور شاداب خان کے ٹیلنٹ پر بھی کوئی شک نہیں۔ شاداب خان نے پہلے نیوزی لینڈ اور اب آئیر لینڈ کی بیٹنگ کے لئے مشکل وکٹوں پر نہ صرف تسلسل کے ساتھ سکور کیا بلکہ سپنرز کے لئے کوئی خاص مدد نہ ہونے کے باوجود بہترین بائولنگ بھی کی۔ فہیم اشرف اپنے دن پر میچ ونر ہے۔ اسے چند چانسز ضرور ملے مگر اس کے باوجود اس وکٹ پر چانسز سے فائدہ اٹھا کر 83 رنز کی اننگز کھیلنا کسی بھی طور معمولی بات نہیں ہے۔ یہ اس کی پہلی اچھی اور بڑی انٹرنیشنل اننگز تھی جس کا سب کو ہی انتظار تھا مگر اچھی بات یہ ہے کہ فہیم باولنگ میں تسلسل کے ساتھ پرفارم کر رہا ہے جس وجہ سے اس پر بیٹنگ کا دبائو شدید نہیں۔ شاداب اور فہیم اگر تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھاتے ہوئے پاکستانی ٹیم کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں تو یہ پاکستانی ٹیم کے بیلنس کو بہترین بنا دے گا۔ مگر یہ “سپارک” وقتی ہے یا مستقل، فہیم اور شاداب “رلو کٹے” ثابت ہوتے ہیں یا “جینون آل رائونڈرز” ان سوالو ں کے جواب کے لئے کم از کم دو سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔