counter easy hit

پاناما سے آگے ……

ڈاکٹر مجاہد منصوری

پاکستان میں پاناما لیکس کی حقیقت یہ ہے کہ جو بھی کچھ بے نقاب ہوا اور اس کا جتنا بھی اور جیسا بھی ردعمل آیا، اس میں بالآخر یہ طے پا گیا کہ جتنے بھی سوال اٹھے ان کی روشنی میں لیکس کے منطقی انجام تک پہنچنا لازم ہوگیا ہے۔ یہ اب مر جانے اور بھول جانے والا موضوع نہیں رہا، اسے بغیر انجام کے دبانے کی کوشش کی گئی تو یہ اور بھڑکے گا اور مزید عدم استحکام پیدا کرتا ہوا ہر حال میں نتیجہ خیز ہوگا۔ پاکستانی گورننس میں (ہر سطح کی حکومت میں) احتساب کا لازمے کے طور پر شامل ہو کر مستقل نوعیت کا احتسابی عمل شروع ہو جانا ہی اس امر کی تصدیق ہوگی کہ پاناما لیکس کا منطقی انجام نکل آیا۔ بلاشبہ، اب پاکستان میں شفاف گورننس اور مطلوب جمہوری عمل میں ملکی عدلیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا امتحان شروع ہے اور قوم اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہے کہ یہ ریاست کی سلامتی اور اس کا داخلی استحکام اور عوامی خوشحالی سے پیوستہ ہوگیا ہے۔
پاناما لیکس کے ملکی اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت آنے کے اس منظر کو لیے کتنے ہی اور سوال عوامی اذہان میں ابھر رہے ہیں، جن کے درست جواب اور ان کے مطابق عوامی رویوں کی تشکیل، اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں اور حکومتی اقدامات، پاناما لیکس کے منطقی انجام جتنے ہی مطلوب ہیں۔ اب تک دنیا بھر میں روایتی سیاست دانوں کی منفی اغراض پوری ہونے کے جاری و ساری دھندے کی سب سے سازگار صورت ’’کمزور عوامی یادداشت‘‘ ہوتی تھی، اب بھی اسٹیٹس کو کے مارے سیاست دان اسی مغالطے میں مبتلا ہیں، تبھی تو ہماری قومی سیاست کی بلیم گیم کے سرگرم کھلاڑی خواجہ آصف نے اسمبلی فلور پر اس گمان کا اظہار کیا تھا کہ پاناما جلد عوامی اذہان سے محو ہو جائے گا۔ بات تو انہوں نے اپنے تجربے کے مطابق کوئی غلط نہیں کی تھی، لیکن تمام تر طاقت کے باوجود روایتی سیاست دانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہوتی ہے کہ وہ اپوزیشن یا تازگی کے مقابل ’’سیاسی معرکوں‘‘ میں روایتی کامیابی کے بعد اپنے سو د و سودا اور مکروفن کے خلاف نکلی قدرتی راہوں کو سمجھ پاتے ہیں نہ زمانے میں ظہور پذیر حقیقتوں کو جو نئے چیلنج بن کر انہیں (روایتی سیاست دانوں و حکمرانوں) کو گھیر لیتی ہیں۔ یہ کہانیاں تو انجام سے دوچار ہوئے حسنی مبارک جیسے زندہ جابر و فاسق سابق ڈکٹیٹرز کے ان ڈیپتھ انٹرویوز میں آشکار ہوسکتی ہیں لیکن ان کی عبرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انجام کے بعد دنیا کا کوئی صحافی ان کی طرف رخ نہیں کرتا۔ جن کو کور کیا جاتا ہے، وہ متنازع تو ہوتے ہیں عبرت کا ذریعہ نہیں۔
پاکستان میں بدلتے زمانے کی ابھرتی حقیقت، پوری شدت سے ’’اسٹیٹس کو کا چیلنج ہونا اور اس پر عوامی حملے ہیں جس کا ادراک یا تو ہمارے روایتی سیاست دان نہیں کر پا رہے یا پھر یہ اس کے توڑ کے قابل نہیں رہے۔ یوں ان کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ بلاشبہ عملی سیاست کی اک نئی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے طاقتور میڈیا سیل روایتی عوامی کمزور یادداشت کا علاج بن گئے ہیں پھر میڈیا ہائوسز کے آرکائیو سیکشن جو کچھ ریکارڈڈ سامنے لاتے ہیں اس پر بھی سیاست دان محتاط نہیں ہوتے تو نااہل نہیں؟ اگر اپوزیشن جماعتوں کو اپنے تنظیمی ڈھانچے میں میڈیا سیل جیسی سہولت حاصل ہو تو وہ حکمرانوں کے کئے گئے وعدےوعید کو یاد دلانے اور ان کو جھوٹے ثابت کرنے میں تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں۔ ان ہی ’’طاقت ور‘‘ میڈیا سیل کا حکومتی اناڑی استعمال اسٹیٹس کو کی حکومتوں کی جڑوں میں بیٹھ کر سرپرستوں کے ہی خلاف وہ کچھ کرتا ہے کہ کیا اپوزیشن اور مخالف اتحاد کریں گے۔ پاکستان میں من گھڑت نیوز اسٹوری (حکومت اور آئی ایس پی آر کی پرزور تردیدوں کی روشنی میں) جو ایک معتبر اخبار کی حساس نیوزا سٹوری بن کر، دشمن کا سفارتی اور پروپیگنڈہ ہتھیاربنی، کیا اس کا کھرا ایک ایسے ہی طاقتور سیاسی میڈیا سیل کی طرف نہیں جاتا؟ وہ ’’میڈیا سیل‘‘ جو ملکی سیاست و صحافت میں بڑی شہرت پا رہا تھا۔ منفی عزائم اور عوامی دولت سے اور خلاف قاعدہ و ضابطہ تیار کی گئی قوت اپنے ہی گلے پڑ جائے تو اسے قدرت کا کھیل نہیں سمجھنا چاہئے؟
اس سے قبل کہ اسٹیٹس کو تشکیل دینے والوں کا بہت کچھ اور بہت نوٹس ایبل بے نقاب ہونے لگے، بہتر نہیں کہ یہ اپنے روایتی رویوں میں تبدیلی لا کر سماجی رویوں میں تبدیلی کی حقیقت کو سمجھیں جو ان کے مخالف بے قابو قوت بن کر ابھر رہےہیں۔ یہ اتنے بھی نااہل نہیں کہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ ’’ہم پر کون سا الزام غلط اور کون سا صحیح ہے ۔
کیا پاناما لیکس پر لگے الزامات کی طرح یہ بھی ’’غلط‘‘ ہے کہ ملک میں آئین ادھورا نافذ ہے، بس آپ کی مرضی کا؟ یہ کتنا غلط ہے کہ آپ جمہوری نظام کی روح رواں ’’مقامی حکومتوں کی تشکیل اور ان کےسرگرم ہونے‘‘کے خلاف شدت سے مزاحمت کرتے رہے اور کر رہے ہیں؟ حتیٰ کہ اس ضمن میں عدالتی فیصلوں کی بھی۔ آئندہ شفاف انتخابات سے اپوزیشن کی بے ہوشی آپ کے بڑے اطمینان کا باعث ہے۔ آپ نے تھانہ کچہری کلچر کی بیخ کنی کے لئے کچھ بھی تو نہیں کیا اور یہ آئندہ الیکشن میں بھی حسب روایت نتیجہ خیز حد تک آپ کاممد و معاون ہوگا۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد حصول تعلیم کا حق، بنیادی انسانی حق کی فہرست میں شامل نہیں ہوا؟ جس کی منجانب حکومت ایٹ لارج خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اس طرح کہ نئے اسکولوں کی پلاننگ، ادھورے اسکولوں کی تکمیل اور اسکول ایج کے بچوں کے اسکول سے باہر رہنے کی شرح کا جمود مستقبل قریب کے لئے قومی سطح کا تشویشناک مسئلہ نہیں بن گیا؟ اور اس سے بڑھ کر اس صورت پر تمام سطح کی حکومتوں کا بدستور مجموعی رویہ۔ ماحول میں بڑھتی ہوئی تشویشناک آلودگی حکومت ہی نہیں پوری قوم کے لئے بڑا چیلنج بن کر سر پر کھڑا ہے۔ عوام کو تو ہوش آ رہا ہے کیا حکمران بھی اس انتہائی تشویشناک حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ’’بڑے اور چھوٹوں‘‘ پر قانون کی پکڑ کا تضاد مکمل واضح اور بے پناہ ہے۔ یوں ہم اپنے مذہبی عقائد، آئین، سماجی حقوق اور احترام آدمیت کا کتنی سنگینی سے مذاق اڑا رہے ہیں۔ تھر میں مصنوعی قحط پیداکرنے کا مجرم تو کیا سزا پاتا قانوناً کوئی ملزم بھی نہ تھا۔ پاکستان کی چھوٹے مجرموں سے بھری جیلیں اور بڑے ملزموں اور مجرموں کے لئے نام نہاد ڈھیلی ڈھالی ای ایکس ایل کتنی بڑی حکومتی قانون شکنی ہے؟ آئین سے انحراف اور حلف سے بے وفائی بھی۔ پاناما تواب عدالت میں گیا۔ عدالت کا امتحان شروع۔ حکومت اسلام آباد کی بندش کو ختم کرانے اور پی ٹی آئی بندش کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے عذاب سے بچ گئی۔ اسی کے شکرانے کے طور پر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی متذکرہ قومی ضرورتوں، عوامی ایجنڈے اور اپنے وعدے و عید اور فرائض پر توجہ فرمائیں اور وہ جو مقبوضہ کشمیر میں بہت کچھ ہو رہا ہے اب اس پر ہمیں کیا کرنا ہے؟ وما علینا الاالبلاغ۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website