counter easy hit

تو یہ تھا آپ کا اوم پوری

میری پیدائش اٹھارہ اکتوبر 1950کو انبالے میں ہوئی۔ خاندانی پس منظر بھی وہی ہے جو کروڑوں غریب بھارتیوں کا ہے۔میرے والد پہلے انڈین آرمی میں اور پھر ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ایک دن ان پر ریلوے گودام سے سیمنٹ چوری کا الزام لگا اور جیل چلے گئے۔ہم دو بھائی تھے۔اس وقت میری عمر چھ برس تھی۔والد کے جیل جانے کے بعد نہ صرف ان کی نوکری تیل ہوئی بلکہ ریلوے کوارٹر بھی چھوڑنا پڑا۔ ماں نے ایک کھولی کرائے پر لے لی۔بڑے بھائی کو ریلوے اسٹیشن پر قلی گیری کرنا پڑی اور مجھے ایک چائے والے کے کھوکھے پر رکھوا دیا۔مگر میرا جنون کچھ اور تھا۔مجھے یہ سب کچھ نہیں کرنا تھا۔لیکن پیٹ تو جیسے کیسے پالنا تھا۔زندہ تو رہنا تھا۔

یں تھیٹر کرنا چاہتا تھا ، فلمی ہیرو بننا چاہتا تھا۔مگر یہ خواب تو ہر نوجوان دیکھتا ہے۔شائد میری لگن سچی تھی۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میرے اندر کی آگ بجھنے کے بجائے اور بھڑک اٹھی۔وہ جو کہتے ہیں کہ جنون ہو تو راستہ بھی نکل آتا ہے۔میں نے لوکل تھیٹر میں چھوٹے موٹے رول کرنے شروع کردیے۔ اسی دوران پنجابی تھیٹر کی ایک مہان ایکٹر اور ڈائریکٹر نیلم مان سنگھ کی نظر مجھ پر پڑی۔انھوں نے کہا لڑکے تو یہاں کا نہیں کہیں اور کا ہے۔یہاں پڑا رہا تو گل سڑ جائے گا۔میں سوچنے لگا نہ شکل نہ صورت ، چیچک کے داغ ، خواہش تو بہت ہے کہ ممبئی  جا  کے نام اور کام کماؤں مگر مجھ بد شکلے کو کون منہ لگائے گا۔ نیلم مجھے دلی میں نیشنل اسکول آف ڈرامہ ( این ایس ڈی )لے گئی اور بھارتی تھیٹر کے مہان گرو ابراہیم القاضی کے سامنے پیش کردیا ’’اس بچے میں دم ہے۔ داخلہ مل جائے تو مایوس نہیں کرے گا ‘‘

یوں میرا 1973 میں این ایس ڈی میں داخلہ ہوگیا۔ کلاس میں نصیر الدین شاہ نام کا لڑکا بھی تھا۔کھاتے پیتے گھرانے کا ، انگریزی بھی اچھی تھی۔بہت چالو چیز تھی۔ ایک پل نچلا نہیں بیٹھتا تھا۔معلوم نہیں دوستی کیسے ہوئی مگر ایسی ہوئی کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اس سے میں نے انگریزی اور لڑکیوں کو پٹانا سیکھا ( مگر ایک بھی نہ پٹا پایا)۔ نصیر کا کہنا ہے کہ اس نے مجھ سے ایکسپریشن سیکھا مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے ماموں بنا رہا ہے۔وہ تو خود ایسا تھا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں دکھائی دے رہے تھے۔میں اسے کیا بتاتا۔مگر یہ نصیر کا بڑا پن ہے کہ وہ ایسی باتیں کر کے میرا دل رکھ لیتا ہے۔تعلیم کے دوران ہی مجھے ایکٹرز اسٹوڈیو میں پارٹ ٹائم کام مل گیا۔میرے شاگردوں میں سے دو بہت مشہور ہوئے۔ایک تو انیل کپور اور دوسرا گلشن گروور۔

این ایس ڈی سے گریجویشن کے بعد ہر لڑکے اور لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یا تو بڑے اسٹیج پر جائے یا پھر بالی وڈ۔1976 میں مجھے پہلی بار مشہور مراٹھی ڈرامہ نگار وجے تندولکر کے ڈرامے گھاسی رام کوتوال کی فلمی تشکیل کے بعد اسی نام سے بننے والی فلم میں ایک کردار ملا۔اس دوران میں تھیٹر کرتا رہا۔

1980 میں نصیر الدین شاہ نے مجھے مہان ڈائریکٹر شیام بینگل سے ملوایا۔انھوں نے مجھے آکروش میں ایک قبائلی کی بے بس زندگی کے گرد گھومنے والے مرکزی کردار کی پیش کش کی۔ظاہر ہے میں نے جھٹ سے قبول کرلی۔معاوضہ تو دس ہزار روپے ملا مگر شہرت کروڑوں کی مل گئی۔

خوش قسمتی سے ستر کی دہائی سے بالی وڈ میں رئیل لائف پر مبنی فلمیں بنانے کا چلن عام ہونے لگا۔جسے لوگ باگوں نے جانے کیوں آرٹ فلموں کا نام دے دیا۔یہ روایتی کمرشل موویز تو نہیں تھیں مگر ایکٹنگ کی پیاس بجھانے کے لیے ان سے بہتر کوئی اور پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اسی دوران مجھے سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نصیر اور کلبھوشن کھربیندرا جیسے دگجوں کا ساتھ مل گیا اور ہم لوگ ایک طرح سے آرٹ فلموں والی منڈلی کے طور پر جانے جانے لگے۔ساتھ ساتھ پیسے کمانے کے لیے ہم لوگ کمرشل فلموں میں بھی کام ڈھونڈھ لیتے تھے۔

1982 میں اردھ ستیا ریلیز ہوئی اور اس نے سینما جگت میں دھوم مچا دی۔وہاں سے اس مسٹر اوم پوری کا ظہور ہوا جسے آج اچھے خاصے لوگ جانتے ہیں۔اس فلم نے مجھے بیسٹ ایکٹر کا انڈین نیشنل ایوارڈ دلوایا۔اس کے بعد منتھن ، پار ، 1986 میں مرچ مصالحہ ، 1987 میں ٹیلی فلم تمس ، 1992 میں دھاراوی اور 1996 میں پنجاب میں سکھ بغاوت کے پس منظر میں بنائی گئی گلزار صاحب کی فلم ماچس ریلیز ہوئی۔

اب  پلٹ کر دیکھتا ہوں تو گھاسی رام کوتوال سے لے کر دبنگ اور بجرنگی بھائی جان تک کیا کیا کیا اور کیا کیا چھوڑ دیا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔اسی بیچ کہیں میری اپنی مادری زبان کی پنجابی فلمیں بھی آئیں جن میں سے دو ’’ چن پردیسی ‘‘ اور لونگ دا لشکارا زیادہ مشہور ہوئیں۔مزاحیہ کرداروں کو بھی ہاتھ مارا۔اس کیفیت میں پہلی فلم 1997 میں جانے بھی دو یارو تھی۔تین برس بعد ہیرا پھیری اور اس کے دو برس بعد چور مچائے شور کی کامیابی نے مجھ پر آشکار کیا کہ آپ کا بھائی تو اچھا خاصا کامیڈین بن سکتا ہے۔

میں نے شروع میں آپ کو بتایا کہ جب میں این ایس ڈی میں داخل ہوا تو انگریزی کا ایک شبدھ بھی پلے نہیں پڑتا تھا۔تھینک یو ، ایکسکیوز می اور اوکے کو میں ہندی یا پنجابی کے الفاظ سمجھتا تھا۔مگر پھر نصیر کی صحبت اور اس کے نتیجے میں آنے والا اعتماد۔مگر میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ انگریزی فلموں اور وہ بھی ہالی وڈ کی فلموں اور برٹش فلموں اور ڈرامہ سیریلیز میں بھی کام مل جائے گا۔سر رچرڈ ایٹن برو کی لیجنڈری فلم گاندھی ، جیک نکلسن کے ساتھ وولف میں کردار نگاری ، سٹی آف جوائے میں رکشہ والے کے کردار کے لیے رکشہ چلانا سیکھنا، چارلی ولسنز وار میں جولیا رابرٹس، ٹام ہینکس اور یہ خادم بطور ضیا الحق ،  پھر ریکلٹنٹ فنڈامینڈلسٹ ناول پر مبنی مائی سن دی فنیٹک اور ایسٹ از ایسٹ جیسی برٹش فلمیں۔

حالانکہ نہ تو میں پاکستان میں پیدا ہوا اور نہ ہی وہاں بہت زیادہ گیا۔مگر جتنی بار بھی گیا یہ سوال ساتھ واپس لایا کہ جب ہم بولنے ، دکھنے ، سوچنے ، کھانے پینے ، شادی بیاہ اور غمی میں ایک سے ہیں تو پھر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے اتنے بے تاب کیوں رہتے ہیں۔میں نے تو آج تک کوئی عام بھارتی یا عام پاکستانی نہیں دیکھا جو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو۔میں تو جب بھی لاہور یا کراچی گیا واپسی پر ہمیشہ پاکستانی روٹھ جاتے تھے کہ میں اتنی جلدی کیسے جا رہا ہوں۔جب اڑی کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں نے فن کاروں پر پابندی لگائی اور جب میں نے کھل کے اس پابندی کی مخالفت کی تب جا کے شدت سے احساس ہوا کہ نفرت کی سیاست سے کتنے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

پہلی بار میرا دل بہت زیادہ ٹوٹ گیا۔پہلی بار ایک بے بسی اور ناامیدی نے مجھے گھیر لیا۔میں مسلسل سوچتا رہا کہ کیا ہماری قسمت کا فیصلہ پاگل ہی کرتے رہیں گے۔ہم تعداد میں ان پاگلوں سے بے پناہ زیادہ ہونے کے باوجود کب تک گائے بھینس اور بکری بنیں رہیں گے۔میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔مگر ایسے سوالات دماغ میں آنے کے لیے سیاستداں ہونا تو ضروری نہیں۔یہ سوال تو ہر انسان کے ذہن میں آتے ہوں گے۔کچھ کہہ دیتے ہیں۔بے شمار بس سہتے ہیں۔میں نے پچھلے سال ایک پاکستانی فلم ’’ ایکٹر ان لا ’’ میں کام کر کے ایک عجیب سا آنند لیا۔

انبالے کا ایک معمولی شکل و صورت والا لڑکا دو فلم فئیر ایوارڈ، دو نیشنل ایوارڈ، ایک پدم بھوشن ، ایک او بی ای اور کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بسنے والی محبت لینے کے بعد اور کس شے کی تمنا کرے۔

لہٰذا میں آپ کا اوم پوری چھ جنوری 2017کو اطمینان سے اپنے بستر میں لیٹا لیٹا مر گیا۔دل کا دورہ تو بہانہ تھا۔میرے پاس دل تھا ہی کہاں۔وہ تو آپ میں بٹ چکا کبھی کا…کوشش کروں گا کہ اوپر بھی اوم کسی نہ کسی فلم میں اوم پوری کو بریک تھرو دے دے۔مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website