counter easy hit

سماجی دوغلا پن یا اجتماعی نفسیاتی بیماری؟

مسز عادل کو نئے پوش علاقے میں شفٹ ہوئے کچھ ہی دن گزرے تهے۔ یہ علاقہ ان کے خوابوں کی تعبیر تها۔ وہ بہت خوش تهیں۔ وہ کئی سال سے شوہرکو راضی کرنے میں مصروف تهیں، بالآخر ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور اب وہ جلد از جلد اس علاقے کے تہذیب یافتہ لوگوں سے مل کر اپنے شوہر کی بہت سی باتوں کی نفی اور اپنے آپ کو درست ثابت کردینا چاہتی تهیں۔ عادل صاحب بیگم کی ضد کے آگے برسوں پرانا محلہ، عزیز، دوست اقارب چهوڑنے پر راضی تو ہوگئے تهے لیکن یہاں آنے کے بعد وہ بالکل خاموش سے ہوگئے۔

بچے بهی اب کمروں میں دبکے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔ وہ بچوں کو سوسائٹی میں مختلف طریقوں سے ایڈجسٹ ہونے کے مختلف گُر سکهاتیں۔ لیکن بچے اب ماں کی بات سنتے ہی نہ تهے۔ یہی بچے کتنے فرماں بردار تهے۔ وہ ایسی باتیں زیادہ نہ سوچتیں بلکہ خود بهی محلے میں ہونے والی کسی بھی تقریب کو نہیں چهوڑتی تهیں جبکہ پرانے محلے میں وہ گهر سے نکلتی تک نہ تهیں۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور تها کیونکہ، بقول ان کے، وہ اب اپنی صحیح جگہ پہنچ چکی تهیں۔ شوہر کا کیا ہے، وہ تو کسی حال میں خوش نہیں ہوتے۔

***

بیگم بقائی بچوں پر جبری مشقت اور کام کاج میں ان پر بے جا سختیوں کے خلاف تهیں۔ وہ بہترین تقریر کا فن بهی جانتی تهیں۔ ان کی اپنی ایک این جی او تهی۔ ایسی شعلہ بیان مقررہ تهیں کہ ان کے بغیر بچوں پر ظلم و زیادتی سے متعلق ہونے والے سیمینار، ورکشاپس اور مباحثے نامکمل تصور کیے جاتے تهے۔ وہ نادار اور مفلس بچوں کےلیے چندہ بهی جمع کرتیں، کسی معصوم بچے کو ورکشاپ یا ہوٹل میں کام کرتا دیکهتیں تو فوراً پولیس بلا کر اس ورکشاپ کے مالک کے خلاف دفعہ 172 کے تحت مقدمہ درج کروادیتیں۔ انہوں نے کچی بستیوں میں بچوں کی فلاح کےلیے بہت سے اسکولوں کا افتتاح بهی کیا تها جن کی بدولت ان کی شہرت کو مزید چاند لگ گئے تھے۔ ان کے گهر میں ہر کام کی الگ ماسی تهی، ان کام کرنے والیوں کی عمریں 13 سے 15 سال تک تهیں۔ اس کی توجیہ وہ پیش کرتی تهیں کہ غیرشادی شدہ چهوٹی لڑکیاں کام جلدی سیکھ جاتی ہیں۔ گهر اور بچے نہ ہونے کے باعث چوریاں بهی نہیں کرتیں۔ ان لڑکیوں کے والدین خود ہی بیگم بقائی پر بهروسہ کرکے اپنے بچیوں کو ان کے پاس چهوڑ جاتے جو گهر کے کاموں سے مکمل فراغت کے بعد ایسی خوبصورت اور دیدہ زیب کڑھائی کرتیں کہ بیگم بقائی ہر فیسٹیول میں ان ہاتھوں کے بنے خوبصورت کاموں کو بیچ کر پیسے اپنی این جی او میں لگادیتیں جو انہی جیسی کم عمر لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا کرتی تهی۔

***

عادل صاحب کی عمر اس وقت 45 کے قریب تهی۔ اچهی جاب، بہترین گهر، محبت کرنے والے رشتے دار، سب کچھ توتها ان کے پاس۔ وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزارنا چاہتے تهے۔ وہ کثرت سے سگریٹ نوشی کیا کرتے تهے۔ وہ دفتر، گهر یا پهر فیملی کی دعوت جہاں بھی ہوتے، سب کے سامنے بہ آسانی اور بے حساب سگریٹ نوشی کرتے۔ بعض اوقات ان کے ہم عصر حلقوں سے انہیں اپنے متعلق شکایات بهی ملتی رہتیں لیکن اس بے تحاشہ سگریٹ نوشی کی توجیہ وہ یہ پیش کرتے کہ سگریٹ میں نکوٹین کی غیرمعمولی مقدار کے باعث جسم کی کیلوریز ایک خاص حد سے بڑهنے نہیں پاتیں۔ سگریٹ پینا جوان مردوں کا شیوہ ہے۔ سگریٹ پینے کےلیے جب میں کسی پر بوجھ نہیں تو دوسرے مجهے تبلیغ کرکے مجھ پر کیوں بوجھ بننا چاہتے ہیں؟ میں جو سگریٹ پیتا ہوں وہ ہر کوئی افورڈ نہیں کرسکتا۔ لوگ اپنے احساس کمتری مٹانے کےلیے مجهے اس سگریٹ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

***

بیگم احسان عالمہ تهیں۔ بچپن ہی سے انہیں دینی تعلیم سے انسیت تهی۔ شادی کے بعد وہ مختلف دینی کورسز کرکے اب اس درجے پر پہنچ چکی تهیں کہ لوگ انہیں اپنے گهر بلاکر ان کا درس کروانا اپنے لیے اعزاز سمجهتے تهے۔ دین اسلام کی تبلیغ کےلیے وہ اپنی دوستوں اور ساتهیوں کے ہمراہ مختلف ممالک کا دورہ بهی کرچکی تهیں۔ وہ فارغ بالکل نہیں رہنا چاہتی تهیں، فارغ اوقات میں اپنی کسی دوست، ساتهی یا رشتہ دار سے بات کرلیا کرتیں۔ بیگم احسان اپنی ہر سہیلی اس کے دوست، عزیز، رشتہ دار اور تمام خاندان کی خیر خبر لے لیا کرتیں۔ کس کے ہاں شادی ہوئی، کس نے مجهے نہیں بلایا، کس کے ہاں اولاد ہوئی اور مجهے اطلاع نہیں دی گئی، کس کے ہاں شادی کے بعد طلاق ہوگئی، کون کس حال میں ہے، کس کی طلاق کے بعد شادی ہوگئی، کس رشتہ دار نے اپنا مکان کتنا مکمل کرلیا۔ کون کتنا کما رہا ہے، کون کہاں شفٹ ہوا، کس کے بچے بیرون ملک مقیم ہیں، کتنا خرچہ بهیج رہے ہیں وغیرہ۔ ان تمام معلومات کو وہ وقتاً فوقتاً لوگوں کے سامنے پیش کرکے سب کو حیران کردیا کرتی تهیں۔ توجیہ وہ یہ پیش کرتیں کہ انسان کو کم از کم اپنے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ مومن باخبر ہوتاہے۔ لوگ بهی ہمارے بارے میں جانتے ہیں، اگر ہم بهی ان کے معاملات کو جان لیں تو کونسی قباحت ہے؟

***

عبدالجبار صاحب کے چار لڑکے تهے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ہر طرح کی آسائش دے رکهی تهی۔ وہ بچوں پر سختی کے سخت خلاف تهے۔ ان کے نزدیک سختی اور مار دھاڑ سے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی نشوونما رک جاتی ہے۔ ایک مرتبہ شدید بخار اور نزلے نے انہیں آلیا۔ بخار اترنے کا نام ہی نہ لیتا تها۔ بڑی مشکل سے اپنے بچے سے درخواست کی کہ مجهے ڈاکٹر کے پاس لے کر چلو۔ ان کا لڑکا جو صبح سے شام تک ٹیسٹ کهیل کر بری طرح تهک گیا تها، بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جاکر سوگیا۔ مجبوراً خود ہی بمشکل گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر نے چکن گنیا کی تشخیص کرتے ہوئے مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ جبار صاحب کے بے انتہا اصرار پر ڈاکٹر نے ایک دن انہیں اسپتال میں داخل کرلیا۔ جب گهر جانے لگے تو تمام گهر والے ساتھ تهے، انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ لیکن گهر پہنچتے ہی پهر وہی کیفیت؛ سب کی مصروفیات شروع ہوگئیں۔ آخرکار ایک دن اپنی کیفیت سے تنگ آکر انہوں نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ مجهے پانی پلا دو، حلق خشک ہورہا ہے۔ بیوی نے اپنے تمام کاموں کو چهوڑ کر انہیں پانی تو پلادیا، لیکن جاتے جاتے کہنے لگیں کہ سنیں اللہ کا شکر ادا کیا کریں کہ آپ کو مجھ جیسی بیوی ملی۔ پڑوس کی صائمہ کے شوہر تو اپنے کپڑے بهی خود دھوتے اور اپنے جوتے خود ہی پالش کرتے ہیں۔ لیکن میں تو آپ کے سارے کام کرتی ہوں، پهر بهی بری ہوں۔ اب جب آپ بهی ٹهیک ہوجائیں تو خود ہی اپنے جوتے پالش کیا کریں اور اپنے کپڑے بهی خود استری کیا کیجیے۔ ہمارے نبیﷺ بهی اپنے کام خود کیا کرتے تهے۔

تهوڑے ہی دن میں وہ چلنے پهرنے کے قابل ہوگئے۔ اب وہ اپنے کپڑے بهی خود استری کرتے ہیں اور جوتے بهی خود صاف کرتے ہیں۔ توجیہ یہ پیش کرتے ہیں کہ آج کے دور میں کسی کے پاس کسی کےلیے وقت نہیں۔ میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔

***

بیگم الماس کے دونوں بیٹے جب شادی کی عمر کو پہنچے تو دونوں کی ایک ساتھ دلہنیں لانے کا فیصلہ ہوا۔ بڑا والا بیٹا تهوڑا لاڈلا اور بدتمیز تها، اس کےلیے انہوں نے خاندان کی لڑکی کا انتخاب کیا تاکہ خاندان کو باندھ کر رکهے۔ چهوٹا والا چونکہ پہلے سے ہی فرمانبردار تها تو اس کےلیے سلجھے ہوئے گهرانے سے مذہبی لڑکی لائیں۔ بیٹے سے 10 سال چهوٹی اس لیے لائیں تاکہ رعب میں رکها جاسکے۔ ابھی شادی کے بعد ایک سال ہی گزرا تها کہ خاندان والی بہو ہر وقت الگ گهر لینے کی بات کرتی کیونکہ یہاں سارے گهر کا کام کرنا پڑتا تها۔ بیگم الماس بڑی بہو کی الگ گهر کی دهمکیوں میں آگئیں۔ اب وہ سارے کام چهوٹی بہوسے کرواتیں۔ بڑی بہو کمرے سے صرف کهانا کهانے نکلتی، یا جب اسے اپنے میکے جانا ہوتا۔  چهوٹی بہو سارے کام کاج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جٹھانی کا بچہ بهی سنبهالتی۔ نندوں کے آنے پر ان کے لیے فرمائشی پکوان بهی بناتی۔ لیکن اگر بڑی بہو کا ذکر آتا تو بیگم الماس بڑے زور و شور سے خاندان بهر میں یہ اعلان کرتی نظر آتیں کہ بڑی بہو کافی کمزور ہے، وہ جلدی تهک جاتی ہے، بیمار بهی رہتی ہے۔ جبکہ چهوٹی بہوصحت مند اور جلد کام کرنے کی عادی ہے، اس لیے اگر وہ دو وقت کا کهانا بنالیتی ہے، گهر کے کام کرلیتی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا؛ ہم نے بهی جوانی میں بہت سے کام ایک ساتھ کیے ہیں، کام کرنے سے کوئی گهستا نہیں وغیرہ۔

***

اکتسابی عدم مطابقت کا نظریہ لیون فسٹنگر نے 1957 میں پیش کیا۔ اس نظریئے کا تعلق عام زندگی میں فرد کے اعمال سے ہے۔ نظریہ کچھ یوں ہے کہ جب ملنے والی نئی معلومات فرد کی یقین کردہ معلومات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں تو فرد ’’اکتسابی عدم مطابقت‘‘ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال میں اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس تکلیف کو کسی طرح سے دور کرے۔ ایسی صورتحال کا شکار شخص عموماً تین طرح کے افعال سرانجام دیتا ہے۔

1۔ انتخابی روبروئی : اس میں فرد ایسی کوئی خبر یا معلومات پڑهے گا ہی نہیں جو اس کے عمل کے مطابق نہ ہوگی۔

2۔ انتخابی یادداشت: اس عمل میں وہ شخص جو اکتسابی عدم مطابقت کا شکار ہے، صرف وہ افعال و واقعات یاد رکهے گا جو اس کےلیے مثبت و خوشگوار ہوں گے۔

3۔انتخابی ادراک: یعنی کسی بهی بات، واقعات سے وہ مطلب نکالنا جو فرد کے ذاتی خیالات سے ہم آہنگ ہو۔ اس عمل میں مبتلا ہر فرد ایک قسم کی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس نظریئے کو ذہن میں رکهتے ہوئے آئیے واپس اپنے معاشرے میں چلتے ہیں۔ سچائی پر مبنی ان چند  واقعات سے اس اکتسابی عدم مطابقت والے نظریئے کی تائید ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کا مشہور قندیل بلوچ قتل کیس بھی اسی کی ایک مثال ہے جسے پہلے غیرت کے نام پر قتل کا نام دیا گیا اور قندیل کے بهائی نے بهی اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔ قندیل بلوچ کے بهائی کی قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کی دیر تهی کہ ذرائع ابلاغ سوشل و پرنٹ بشمول الیکٹرونک میڈیا میں اسلام اور عزت و ناموس کے خلاف وہ غلیظ زبان استعمال کی گئی کہ ہم اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ قندیل بلوچ تو اب اس دنیا میں نہیں رہی، لیکن اس نے سوشل میڈیا پر عریانی و فحاشی کا جو ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کیا، اس کے جانے کے بعد کتنی ہی ایسی لڑکیاں ہیں جو اس کی طرح راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کی خاطر غلط لوگوں کے ہتهے چڑھ گئیں۔ بعد میں اس قتل کیس کی کڑیاں کسی اور سمت جاملیں۔ اب سب نے چپ سادھ لی، یا طرح طرح کی بے جا تاویلات دینے لگے۔

میاں نواز شریف اور ان کے بچوں پر لگنے والے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن پاناما لیکس کے بعد جن آف شور کمپنیوں کا اعتراف خود ان کے بچوں کی جانب سے ہو چکا، وہ کسی سے ڈهکا چهپا نہیں۔ اس کے باوجود ن لیگیوں کی غلط توجیہ، مریم نواز، مریم اورنگزیب، اور احسن اقبال کے بیانات اسی اکتسابی عدم مطابقت کا نتیجہ ہیں۔ وہ سب لگائے جانے والے الزامات کو اپنے قائد کے خلاف سیاسی چال سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل پر ملک کو معاشی، زرعی، صنعتی اور سماجی اعتبار سے نقصان پہنچانے والوں کے نزدیک نقصان پہنچانے کی توجیہ یہ تهی کہ جب ہماری قائد اس ملک میں محفوظ نہیں تو اور کسی کو بهی یہاں محفوظ رہنے کاحق نہیں جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ محترمہ بے نظیر کا قتل عالمی استعماری ایجنڈے کا حصہ تها جس میں خود ان کے اپنے پاسبان بهی شامل تهے۔

9/11 کے بعد ملک کو امریکا کی نوآبادیاتی ریاست بنانے میں جتنا حصہ اس وقت کے آمر نے ڈالا، ہم سب اس نام سے بخوبی واقف ہیں۔ توجیہ یہ پیش کی گئی کہ وہ ہمیں پتهروں کے دور میں پہنچا دیں گے۔ انہوں نے بلوچستان میں اکبر بگٹی کو قتل سے پہلے دهمکی دی کہ تمہیں وہاں سے نشانہ بنائیں گے کہ تمہیں پتا بهی نہیں چلے گا۔ اس کے تهوڑے دن بعد انہیں بیدردی سے قتل کردیا گیا، توجیہ یہ پیش کی گئی کہ وہ ریاست کے اندر ریاست بنا رہے تهے۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال اسی انتشار کا نتیجہ ہے۔ 12 مئی کو کراچی میں چیف جسٹسس کی آمد پر کراچی کو اپنے سیاسی گماشتوں کے ذریعے آگ و خون میں نہلادیا۔ توجیہ یہ پیش کی گئی کہ وہاں عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوا ہے۔ لال مسجد و جامعہ حفصہ فاسفورس بموں سے ختم کردی گئی، توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ حکومتی رٹ کو چیلنج کررہی تهیں۔ چند ڈالروں کے عوض بین الاقوامی قوانین کی دهجیاں اڑا دی گئیں۔ پڑوسی ملک کے سفیر کو زنجیروں میں جکڑ کر غیروں کے حوالے کردیا گیا، توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ دہشت گرد ہیں؛ حالانکہ اب تک ان کے دہشت گردی کے ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔

غرض یہ کہ ہم سب کے پاس اپنے ہر کام کی زبردست توجیہات موجود ہوتی ہیں۔ کسی دانا کا قول ہے ’’ہم اپنے تمام غلط کاموں کی وضاحت کے خود سب سے اچهے وکیل ہیں۔‘‘

ضرورت اس امر کی ہے کہ بحثیت فرد ہم اپنی ذات کے خول سے باہر آکر اپنے آفاقی ہونے کا ثبوت دیں۔ ہمارے نزدیک صرف درست وہی ہے جو نبی مہربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم نے کیا۔ جبکہ وہ تمام افعال و معاملات غلط ہیں جن سے پناہ مانگی گئی۔ قرآن ہمارا مرکز ہے۔ ہم اس گهوڑے کی طرح حدود میں قید ہیں جو رسی سے آگے نہیں جاسکتا۔ مرکز کو یاد رکهنا، قرآنی تعلیمات پر مکمل ادراک و عمل کی کیفیت ہی ہمیں اس عدم مطابقت کے عمل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈهل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پهسل جاؤ گے