تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
ہر سال 20 فروری کو ساری دنیا میں سماجی انصاف کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔یہ دن منانے کا فیصلہ 2007 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کیا ۔اس موقع پر کانفرسوں ،سیمینارز ،ریلیوں اور میڈیا میں سماجی انصاف کا شعور اجاگر کیا جاتا ہے ۔جو مقاصد اس دن کو منائے جانے کے بتائے جاتے ہیں ۔ان میں اہم درج ذیل ہیں ۔ دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ یعنی دولت کی منصفانہ تقسیم ،عدل و انصاف کا حصول سب کے لیے، جس میںملازمت ،تعلیم،بنیادی ضرویات زندگی کا حصو ل شامل ہے ۔
سماج کا مطلب ہے معاشرہ ۔معاشرہ کہتے ہیں افراد کے ایسے گروہ کو جو کافی مدت تک ایک جگہ رہ رہا ہو ۔اس کی رسم و رواج ایک ہوں ۔زبان و تہذیب ایک ہو ۔ثقافت بھی معاشرہ بناتا ہے ۔ ایک مخصوص علاقے کامذہب ایک ہو اور مشترکہ مقاصد ہوں ۔انصاف یا عدل کا مطلب ہے ۔ کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا ۔ حق دار کو اس کا حق دے دیا جائے ۔ پورے کے پورے اسلام کو اگر ہم دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو وہ ہوں گے ،محبت ،عدل ،تزکیہ وغیرہ ۔سماجی انصاف کا مطلب ہے معاشرہ میں بسنے والے تمام افراد کو یکساں حقوق حاصل ہوں ،بغیر امتیاز ،ادنی و اعلی ،رنگ و نسل،مذہبب ومسلک ،قوم وغیرہ کے سب کو برابر سمجھا جائے ۔حق دار کو اس کا حق دیا جائے ۔اس کے الٹ ظلم کا ہے ۔
لیکن یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ دنیا کے تقریبا تمام ہی ممالک میں،ہر معاشرے میں ، عوام کی اکثریت انصاف سے محروم ہے ۔میںنے تو جتنا تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ۔مجھے تو کسی دور میں عدل و انصاف نظر نہیں آیا، ہاں نا انصافی کے خلاف جدو جہد کبھی عروج پر نظر ضرور آئی ہے ،تاریخ اسلام میں ریاست مدینہ سے عہد فاروق تک دور عدل و انصاف کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے ۔ مغربی ممالک میں کہنے کی حد تک ،میڈیا کی حد تک وہ بھی ایک حد تک انصاف کا بول بالا ہے۔وہاں ایک طرف جانوروں تک کو انصاف مہیا ہے تو دوسری طرف اپنے جیسے انسانوں کو جانور بھی نہیں سمجھا جاتا ۔یہ حال آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں ذات پات کا نظام قائم ہے ۔اور دنیا کے سب سے طاقت ور ملک امریکہ بھی وہاں ابو غریب جیسی جیلیں ہیں ۔اور اسلام کے قلعہ پاکستان میں بھی جہاں جاگیردارنہ ،صنعتی ،سوشلزم،مارکسی ،جنگلی،اورنظام اسلام سب کا اس وقت مکسچر ہے ،اورانصاف کمزوروں کے لیے کل بھی خواب تھا اور آج بھی خواب ہے ۔کل بھی طاقت ور کا انصاف تھا۔قانون تھا ۔ آج بھی ،باقی یہ دن منانے کا مقصدمفلس اور کمزور کے دل بہلانے کے لیے ایک دن منایا جاتا ہے ۔
سماجی انصاف کی عدم فراہمی نے پاکستان کے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔صرف نام کی حد تک عدالتیں جہاں انصاف بکتا ہے اور سچ کہنے والے پر توہین عدالت کا پھندا لٹکا ہوا ہے ۔ ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں غرباََ کو انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں ،اور برسوں چکر لگانے کے بعد بھی ان کو انصاف نہیں ملتا ،کیونکہ وہ انصاف کو خریدنے کے لیے زر نہیں رکھتے ۔روزگار ،تعلیم ،صحت ،بنیادی ضروریات زندگی کے ارزاں حصول تک ہر معاملے میں ناانصافی کا راج ہے ۔سماجی انصاف اجتماعی تو کیا نظر آنا ہے ہمارے ملک میں تو انفرادی زندگی میں بھی نظر نہیں آتا ۔اگر پاکستانی عوام ،جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، وہ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کر لے تو یہ ملک جنت نظیر بن سکتا ہے ۔
ہمارے ملک میںنظام عدل و انصاف کے کمزور ہونے سے ہی فرقہ بندی ہے ،دہشت گردی ہے ،کرپشن ہے ،لوٹ مار ہے ،ملاوٹ ہے ،دھوکہ دہی ہے ،ظلم و زیادتی ہے ۔اسی وجہ سے غربت و بے روزگاری ہے اور ملک میں توانائی کا بحران ہے ۔اگر احتساب کا نظام ،انصاف کا نظام درست کام کر رہا ہو تو پاکستان میں یقین کریں کوئی بحران پیدا نہ ہو ۔
ہمارے ملک میں ایک ہی جرم اگر امیر اور غریب کریں تو الگ الگ سزائیں ہیں ۔بلکہ امیر کو تو سزا ہے ہی نہیں ۔تاریخ میں بھی ایسے بے شمار واقعات ہیں ۔ایک واقع تو بڑا سبق آموز ہے ۔مختصر یہ کہ خانہ بندوشوں کا ایک قافلہ وسط ایشیا میں سے گزر رہا تھا ۔یہ علاقہ مسلمانوں کا تھا ۔مسلم سپاہیوں نے اس قافلے والوں سے زیادتی کی ۔اس قافلہ کے سردار نے اس علاقے کے حکمرانوں سے انصاف طلب کیا ۔جس نے ان خانہ بدوشوں کو کمزور سمجھ کرنظر انداز کر دیا ۔وہ سردار ٹیلے پر چڑھا ۔اور بلند آواز سے کہنے لگا ۔کہ اے مسلمانوں کے خدا، ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے ، اگر تو ہے ، تو ہماری مدد کر ۔ کئی دن یہ عمل کرنے کے بعدوہ چلے گئے ۔پھر خانہ بدوشوں نے اتحاد کیا ۔چنگیز خان سردار منتخب ہوا ۔ اس کے بعد اس قوم کی کامیابیوں کی ایک ہولناک داستان ہے ،اس تباہی کا آغاز ایک بے انصافی اور ظلم سے ہوتاہے ۔
دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے جتنے بھی عدالتی نظام ہیں، ان میں کوئی نا کوئی خامی ضرور ہے ،مجرم کے بچ نکلنے کے راستے موجود ہیں لیکن جس نے اس مخلوق کو بنایا ہے، اس کے خا لق کے بنائے ہوئے نظام عدل میں تو کوئی خامی نہیں ہے ۔آپ ۖ کے اس فرمان پاک کو دیکھیں ۔تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے چھوٹے طبقے کے لوگ جرم کرتے تو ان کو سزادی جاتی ۔اور جب ان کے بڑے طبقے کے لوگ جرم کرتے تو ان کو چھوڑ دیا جاتا تھا ۔قرآن پاک میں ہے کہ” تم لوگوں کے درمیان حق کا فیصلہ کرو ،خواہش کے پیچھے نہ چلو،سچی گواہی دو،سچ کو اپنے تک نہ روکے رکھو ۔”آج بھی جس مقصد کے لیے قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دی گئی ہیں یعنی ایک اسلامی ملک ،اسلام کا قلعہ ،جہاں اسلام کا نظام عدل و انصاف نافذ ہو آج بھی اگر اسلامی قانون و اصول پر عمل ہو جائے تو ملک جنت نظیر بن سکتا ہے ۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال