نظام آباد (اسلم فاروقی) سوشیل میڈیا کی دو مقبول عام ویب سائٹس فیس بک اور واٹس اپ کا استعمال جنون کی حد تک بڑھ گیا ہے۔ سماجی رابطہ انسان کی اہم ضرورت ہے لیکن اخلاقی حدوں میں رہتے ہوئے اس کا استفادہ لازمی ہے۔
نوجوان انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے ذریعے سماجی رابطے سے دنیا بھر کے لوگوں سے رابطے میں رہنے لگے ہیں لیکن حقیقی رشتہ داریاں ٹوٹ رہی ہیں اور سوشیل میڈیا کے غلط استعمالات سے نوجوانوں کے اخلاق اور کردار پر مضر اثرات پڑ رہے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی رابطے کی ان ویب سائٹس کا محتاط انداز میں استعمال کیا جائے اور تعلیم اور تجارت کے فروغ میں اسے استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے کار آمد بنایا جائے۔
ان خیالات کا اظہار جناب محمد نصیر الدین صاحب سابق صدر شعبہ تاریخ گری راج کالج نظام آباد اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد نے روشنی ٹی وی پر منعقدہ براہ راست مذاکرے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ مذاکرے کا عنوان” سوشیل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات” تھا۔ ابتدا میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے کہا کہ فیس بک اور واٹس اپ کی سہولتیں موجودہ دور کے تقاضوں کے اعتبار سے دستیاب ہیں۔ اور ان ذرائع سے ہم اپنے پیغامات’تصاویر’ویڈیوز کو دوسروں تک پہونچا سکتے ہیں اور براہ راست بات کر سکتے ہیں۔ لیکن نوجوانوں اور دیگر افراد کو یہ طے کر لینا چاہئے کہ ان کی زندگی میں وقت کی کیا اہمیت ہے اور ہم کس قدر معلومات اور رابطے کی ضرورت رکھتے ہیں۔ آج نوجوان سوشیل میڈیا سے ساری دنیا سے رابطے میں ہیں لیکن حقیقی رشتہ داروں سے ملاقات ‘والدین کی خدمت اور اپنی تعلیم پر توجہ دینے کی ان کے پاس اہمیت نہیں ہے۔
اوسطاً بچے اور بڑے اب روزانہ دو تا چار گھنٹے فیس بک اور واٹس اپ پر گذار رہے ہیں۔ بچے اور نوجوان سوشیل میڈیا کا غلط استعمال کرتے ہوئے مخرب اخلاق حرکتوں میں ملوث ہورہے ہیں جس کے لئے والدین’اساتذہ اور سماجی مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کی اصلاح کریں اور بچوں کی مناسب نگرانی اور رہبری کریں۔ اور ان کی صلاحیتوں کو حصول تعلیم اور دیگر فنون کے سیکھنے کی جانب موڑیں۔ جناب محمد نصیر الدین صاحب نے کہا کہ سوشیل میڈیا کے مثبت اثرات یہ ہیں کہ آج خط کے مقابلے میں فوری دو طرفہ رابطہ قائم ہوگیا ہے اور دنیا بھر میں پھیلے عزیز و اقارب سے ہم رابطے میں آگئے ہیں۔
سوشیل میڈیا کو غلط طریقے سے منفی پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ بغیر تحقیق مواد شیر کرنے سے مذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔ اور امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب نے ہمیشہ ٹیکنالوجی کا درست استعمال کیا ہے اور ہم اسے تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی رابطے کی اہمیت جانتے ہوئے اسے تجارتی اور تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے کہا کہ سوشیل میڈیا اردو کے فروغ میں اہم رول ادا کر رہا ہے اور فیس بک اور واٹس اپ پر اب ایسے بے شمار گروپ آگئے ہیں جس میں اردومیں لکھا جارہا ہے اور اردو کے ادبی تعلیمی اور رتہذیبی گروپوں سے اردو زبان کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔جناب محمد افضل نے مذاکرے کی کاروائی چلائی اور ناظرین کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دئے گئے۔