تحریر: اقبال زرقاش
دور حاضر آویزیش اور کشمکش کا زمانہ ہے گھر گھر میں اختلافات کے بازار گرم ہیں سوشل میڈیا نے نئی نسل کو بے راہ کر رکھا ہے نگاہوں سے حیاء رخصت ہو چکی ہے آئے روز ایسے ایسے دل خراش واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ انسان وحشی کا روپ دھار چکا ہے قصور کا واقعہ ہو یا ملک میں رونما ہونے والے دیگر واقعات ،نسل نو تباہی و بربادی کی بھینٹ چڑ ھ رہی ہے۔ بھائی بھائی کا دُشمن ہے دل احترام سے تہی ہو گئے ہیں سرمایہ دار اور مزدور آپس میں اُلجھ رہے ہیں حاکم اور محکوم کے تعلقات نفرت اور تکدر کا شکار ہیں پورا ملک مختلف فرقوں میں بٹا ہوا ہے ہر فرقہ دوسرے کو زِیر کرنے کی فکر میں ہے کوئی دولت کے زریعے دوسرے کو شکست دے رہا ہے کوئی طاقت کو استعمال کر رہا ہے۔
کسی نے نا انصافی اور ظلم کو اپنا شعار بنا رکھا ہے دھوکہ اور فریب سیاست بن چُکے ہیں کسی کے گھوڑے سیب اور مربع کھاتے ہیں اور کسی کو نان جویں بھی میسر نہیں کسی کی محبوبائیں ریشم میں تلتی ہیں اور کسی کی بیٹیوں کی عریانیت نہیں جاتی۔عصر حاضر تمام تر ترقی کے باوجود اپنی بد اخلاقیوں خونریزیوں اور تبا ہ کاریوںکی وجہ سے حیوانوں اور درندوں سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ آج کے راہنما راہزن بن چکے ہیں اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ بقول شاعر
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے
انسان انسان کا دُشمن بن چکا ہے کراچی جیسے روشنیوں کے شہر میں تیرگی کے وہ بادل چھا گئے ہیں کہ قتل و غارت اور خون ریزی کے انفرادی اور اجتماعی بازار گرم ہیں مال و زر کی ہوس اور اقتدار کی خواہش نے تمام اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ِلسانی بنیادوںپر قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔خود کو “قائد تحریک” کہلوانے والے آج سرعام انڈیا کی بدنام زمانہ ایجنسی “را “سے مدد طلب کر رہے ہیںاور کبھی نیٹو افواج کو دعوت مداخلت د ی جا رہی ہے اور کبھی پا ک افواج کے بارے میں اپنی ناپاک زبان استعمال کی جا رہی ہے مگر پھر بھی ان کو ایک سیاسی جماعت کا محب وطن لیڈر سمجھ کر دیار غیر میں فون کر کے منایا جا رہا ہے۔
اور کبھی استعفوں کی سیاست سے پاک افواج اور رینجر دَباو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ کسی نہ کسی طرح کراچی کے آپریشن پر اثر انداز ہو جائے اور سابقہ دور کو واپس لایا جائے جب کراچی میں روزانہ دس بیس لاشے اُٹھائے جا رہے تھے تاجروں سے بھتے وصول کر کے انگلینڈ میں محل تعمیر کیے جا رہے تھے کل تک سینما کی ٹکیٹیں بیچنے والے حتی کہ ٹیکسی ڈرائیور آج کروڑوں اربوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کا لائف سٹائل کسی بڑے سرمایہ دار سے کم نہیں۔ یہ غلاظت میں لپٹی ہو ئی جعلی جمہوریت کے سبب ہی ممکن ہو ا ہے کہ دہشتگرد بھتہ خور ملک سے غداری کے مرتکب افراد جن کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہو نا چاہیے تھا آج سیاسی پارٹیوں کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں اور ملک کے ٢٠ کروڑ عوام کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہیں۔
پاکستان آج اگر قائم و دائم ہے تو صرف اور صرف پاک افواج کی وجہ سے ہے یہ وہی پاک افواج ہیں کہ قائد اعظم جب موت و حیات کی کشمکش میں تھے تو آپ کو کراچی لایا گیاآپ اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ آنکھ بند کر کے دوبارہ کھولنے کی سکت باقی نہ رہی آپ کو جب سٹریچر پر جہاز سے باہر لایا گیا تو پاک افواج نے آپکو سلامی دی۔ آپ نے جواب میں اچانک اپنا دائیاں ہا تھ اُوپر اُٹھا دیا ۔ ڈاکٹرمتعجب ہو گئے کہ قائد اعظم میں زندگی کی یہ رمق کہاں سے آگئی۔ یہ پاک افواج تھی جس پر آپ کو فخر و ناز تھا۔
آج بھی قوم پر جب مشکل وقت آتا ہے پاک افواج عوام کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے جعلی جمہوریت کے دعوے دار نہ پہلے اس قوم سے مخلص تھے اور نہ آج مخلص ہیں ہمارے ملک کواس حال میں پہنچانے میں شیخ مجیب الرحمٰن جیسے کئی سیاسی کردارکل بھی ہماری صفوں میںموجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سیاسی مصلحت کی چادر اوڑھ کر ہر چیز پر پردہ ڈالنے کی روش پر قائم ہیں آخر کب تک پاک افواج تن تنہا تمام معاملات کے لیے قربانیاں دیتی رہیں گی۔ اللہ میرے وطن کو سلامت رکھے۔
سر بیچ کر متاعِ دل و جان خریدنا
سودا ہے وہ کہ جس میں خسارہ کوئی نہیں
تحریر: اقبال زرقاش