تحریر: محمد ذوالفقار
ہم ہمیشہ حکومتی ایوانوں اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو خوداحتسابی پر یقین رکھتے ہونگے جہاں ہم حکومتی اقتدار کی بات کرتے ہیں بہت ضروری ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی اقدار پر بھی نظر ڈالیں بجائے اس کے دوسروں پر تنقید کریں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ضرورت ہے اگر کرپشن کی بات ہی کی جائے تو یہ کہنا بےجا نہ ہو گا جہاں تک ہمارے سیاستدان اور ادارے اس میں ملوث ہیں کیا ہم بطور معاشرہ برابر کے حصے دار نہیں ہیں۔ اور گر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو کیا یہ سچ نہیں کہ ہم خود وہ سب کر رہے ہیں جو ایک مہذب شہری کو زیب نہیں دیتا۔
اس وقت ملک میں ہر دوسرے شہری کے پاس موٹرسائیکل ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تقریبا 17 لاکھ افراد موٹرسائیکل استعمال کر رہے ہیں۔ اور اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو اکثر کے پاس لائیسنس نہیں اور بہت سے تو ایسے ہیں جو 18سال سے کم عمر بچے بھی چلا رہے ہوتے ہیں۔اور کتنے ایسے ہیں جن کو یہ بھی پتا ہے کہ موٹر سائیکل چلانے کے لئیے ہیلمیٹ پہننا ضروری ہے اور اسی طرح نمبر پلیٹ کا ہونا اور کاغذات مکمل ہونا بھی ضروری ہے۔اگر کسی شخص کے پاس یہ سب کچھ ہو تو میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی پولیس والا جان بوجھ کر تنگ کرے گا اور اگر کسی شخص کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے تو یہ فر د یقینا معاشرتی بیگاڑ کا سبب بنتا ہے اور پھر اگر کوئی عہدیدار روک لے تو بہت سارے حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔
اور اگر دال گلتی نظر نہ آ رہی ہو تو رشوت زندہ باد کا نعرہ لگتا ہے یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہاتھ کا دیا ہی کام آتا ہے۔اس طرح اداروں میں کرپشن کی ابتداء کرنے والے مجھ سمیت معاشرے کے تمام وہ افراد ہیں جو قانون کو توڑنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں حالانکہ احساس ندامت ہونا چاہیئے ۔ بہت سارے ناقدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی کریں تو لوگ بھی یقینا عمل کریں گے مگر میں یہاں قانون کی بات نہیں کر رہا بیشک قانون کی بالادستی ہونی چاہیے مگر کیا بطور معاشرہ ہماری کوئی اخلاقی، سماجی ذمہ داری نہیں۔ مہذب قوموں میں اگر کوئی شہری قانون توڑتا ہے تو دوسرے شہری اس کے خلاف صف آراء ہو جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اسی طرح اگر تعلیمی اداروں کے اوپر نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی حالات کچھ اچھے نہیں۔
استاد اسکول آتے ہی شاید آرام کرنے کے لیئے ہیں مگر بدقسمتی کا المیہ یہ ہے جو بچے ہمارا مستقبل ہیں ہم نے بطور والدین بھی کبھی زحمت نہیں کی کہ اس کی روزانہ کی بنیادوں پر رپورٹ لیں بہت کم والدین ایسے ہونگے جو اسکول جا کر بچوں کی (Progress Report) لیتے ہوں۔اور کبھی بھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ہمارے بچوں کو اسکول میں کیا سکھایا جا رہا ہے ۔اس طرح استاد صاحبان اپنے مزے کر رہے ہوتے ہیں اور والدین اپنی دنیا میں مگن ہیں کیا یہ ہماری اقدار کے منافی نہیں ہے کیونکہ تعلیم ہی انسان کو اپنی پہچان دلاتی ہے مگر بدقسمتی سے ناخواندگی ہونے کی وجہ سے ہمارے والدیں بچوں کو صرف اس لیئے نہیں پڑھاتے کہ پڑھ لکھ کہ کونسی نوکری مل جانی ہے۔
اس لیئے اپنا پیسہ ضائع کیوں کریں ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ انسان صرف پیسہ کمانے کے لیئے پیدا نہیں ہوتا تعلیم پیسے کے ساتھ انسان کو اپنا اور خالق حقیقی کا حقیقی تعارف بھی کرواتی ہے۔ اسی طرح یونین کونسل ایک علاقائی ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں بچوں کے نام کا اندراج ا و ر پیدایشٰ کا سرٹیفیکیٹ سے لے کر اموات کا اندراج اور اس کے علاوہ بلدیاتی ذمہ داریاں بھی اس کے زمرے میں آتی ہیں ۔یونین کونسل میں کم و بیش 18 سے 20 گائوں آتے ہیں ۔اس کا بنییادی مقصد لوگوں کی رجسٹریشن کرنا ہے اس ادارے میں اپنے حجم کے مطابق پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب خو د کو عوام کے خادم کی بجائے حاکم سمجھتے ہیں اور ہم عوام بھی خود کو ذمہ دار شہری کی بجائے صرف چوہدری بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر یونین کونسل میں بچوں کے ناموں کا اندراج غلط ہوتا ہے جس کی وجہ سے بوقت ضرورت نام کی تصیح کے لیے حسبِ ضرورت وہ پیسے بطور نذرانہ طلب کرتے ہیں اور ناکام چوہدری انتہائی عقیدت سے رشوت کوبطور نذرانہ جمع کرواتے ہیں اگر یہی لوگ وقت پر بچے کے کوائف جمع کروائیں اور اسی طرح وفات کے وقت بھی اندراج کروائیں اور اسی وقت سرٹیفیکیٹ حاصل کریں تو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر اتنا وقت ہے کس کے پاس ۔ کیونکہ ہم تو پیدا ہی صرف تنقید کر نے کے لیے ہوئے ہیں اور اگر محکمہ مال کی بات کی جائے تو 15000 کا تنخواہ دار پٹواری دنوں میں مالامال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کو بھی معاشرے کی قابلیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اگر کسی کو اپنی زمین حاصل کر نے کے لیے سرکاری خزانے میں فیس جمع کروانی پڑے تو بڑی تکلیف ہو تی ہے مگر اس پٹواری کو بغیر رسید کے منہ مانگے دام دے کر اٹھتے ہیں اور پھر وہ پٹواری جو کر ے اس کی مرضی ہے۔
وہ چاہے تو بشیر احمد کو محمد بشیر بنادے یا بشیراں ۔یہ سب اس کے رحم و کرم پہ ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہاں سب اندھے ہیں اور پھر جب زمین کے لین دین کی باری آئے تو اس سے پہلے زمین کے مالک کو ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ بیان کرنا مشکل ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ بشیر احمد سے محمد بشیر ہو چکا ہے پھر نام کی درستگی کے لیے وہی مہذب طریقہ جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے رشوت عطیہ سمجھ کر وصول کی جاتی ہے اور بڑے شوق سے دے کر اٹھتے ہیں اور ہمیں شرم بھی نہیں آتی اگر یہی کام ہم قانونی طریقے سے کریں تو ممکن ہے کہ ہمیں کچھ نہ کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑے مگر ہم مطمعن ہونے کے ساتھ مہذب شہری بھی بن سکتے ہیں مگر اتنا وقت ہے کس کے پاس۔
اگر ہم مجموعی طور پر اپنے تمام اداروں پر نظر ڈالیں تو احوال کچھ مختلف نہیں ہیں اسکی وجہ اداروں کی نااہلی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرتی رویئے کی بھی ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے بہتر انداز میں اپنا کردارادا کریں اور ہمارہ ملک و قوم ترقی کرے۔تو ہمیں چاہئے کہ ا پنے اداروں پر تنقید کر نے کی بجائے اپنے کردار پر بھی نظر ڈالیں اور بطو ر معاشر ہ ہمیں اپنے روئیے میں مثبت تبدیلی لانا ہو گی ۔ اور ہر ایک کو اپنے حصے کی شمع جلانا ہو گی کیونکہ اقبال نے کہا تھا
افراد سے بنتی ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تحریر: محمد ذوالفقار
zulfiqarjutt55@gmail.com