تحریر: سجاد گل
وہ بابا جی اس عجیب آدمی کے سامنے رو تے ہوئے کہہ رہے تھے،میرے بچے تین دن سے فاقے کی حالت میں ہیں اور بیوی بیمار ہے،میں بہت مجبور ہو ں اس لئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں میری مدد کریں،اس عجیب آدمی نے اپنی تمام جمع پونجی اسکے ہاتھ پر رکھ دی،بابا جی کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آ گئی جیسے وہ منہ سے تو کچھ نہ بول رہے ہوںمگر ان کی آنکھیں اس عجیب آدمی کا شکریہ ادا کر رہی ہوں،بابا جی چل دیئے اور وہ عجیب آدمی اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کر بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر رونے لگا،اسکی بیوی اسکے اس کے پاس آ کر بیٹھی اور طنز کرتے ہوئے کہا ،اور ہر ایرے غیرے کی مدد کرو،اور ساری جمع پونجی دے کر یوں رونا ہی تھا تو کچھ رقم دے دیتے ناں ساری رقم دینے کی کیا ضرورت تھی؟اس نے کانپتے ہاتھ چہرے سے ہٹائے اور بیوی کی نظروں میں نظریں ڈال کر کہا ، او ۔۔اللہ کی بندی میں رو اس وجہ سے نہیں رہا کہ میں نے اسے اپنی تمام جمع پونجی دے دی، بلکہ رونے کی وجہ یہ ہے کہ ، وہ میرا پڑوسی تھا تین دن سے اسکے بچے بھوکے تھے اور بیوی بیمار،اور میں اس تمام صورتِ حال سے بے خبر تھا ،میری اس بے خبری نے اسے میرے در پر آنے پہ مجبور کیا ہے،ہونا تو یہ چائیے تھا میں اسکے گھر جاتا اسے تسلی دیتا اسکی ہمت بڑھاتا اور باعزت طریقے سے اسکی مدد کرتا۔۔۔کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ عجیب آدمی کون تھا،بتا دوں ؟۔۔۔تو سن لیں ۔۔ وہ تھے شیخ سعدی کیا کردارتھا، کیا سوچ تھی ،اس عجیب آدمی کی، کیا Life Style تھا، مگر یہ تو شیخ سعدی تھے جنہیں کیا خبر تھی کہ اس دنیا میں مال و دولت کی کیا حثیت ہے، انہیں کیا پتہ تھا کہ اس جہاں میں روپے پیسے کی کیا اہمیت ہے،
اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو پتہ ہے اس لاچار، مجبور، بے بس آدمی کے ساتھ کیا کرتا؟میں کہتا ہٹے کٹے ہو کر بھیک مانگتے ہو،شرم نہیں آتی،اگر کچھ دینا ہی ہوتا توایک نقد مشورہ اس پر سوار کر دیتا ”اللہ سے مانگو بندوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائو، یا پھروہ پرانے کپڑے جو پہنتے ہوئے میںشرم محسوس کرتا ہوں اٹھا کر دے دیتا، یہ میرا مسئلہ نہیں اسکی بیوی بیمار ہو یا بچے بھوکے، کیونکہ شیخ سعدی کا ایمان میرے طرح پختہ نہیں تھا وہ تو کمزور ایمان کے عامل تھے،اسی لئے تو ایسا پر دانش مشورہ بابا جی کی نذر نہیں کیا ،میرے پاس اکثر اس طرح کے منگتے آتے رہتے ہیں، کبھی ١٣ سالہ مصطفیٰ خان قہوے کا تھرماس لئے آجاتا ہے ، میں اس سے پوچھتا ہوں کہ اس تھر تھراتی سردی میں گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتے، جواب ملتا ہے ، میرے علاوہ ٤ بھائی اور بھی ہیں میں قہوہ فروخت کر کے اپنی سکول فیس کے ساتھ ساتھ انکی فیسبھی ادا کرتا ہوں،۔۔
۔لیکن میرے ذہین میں کبھی نہیں آیا کہ اس ماہ دوستوں کے ساتھ برگر پوائنٹ پر جا کر ٢٠٠٠ کے برگر نہ سہی ،انکے سکول کی فیس میں ہی ادا کر دوں تا کہ مصطفیٰ خان اس تھرتھراتی سردی میں یوں سڑکوں پر مارا مارا نہ پھرے،اسی طرح میرے پاس لنگڑا بازو لئے ایک بابا جی بھی آتے ہیںمیںنے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ اپنے بازو کا علاج کیوں نہیں کروا لیتے ،نہ پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے بتایا گیا ہے اس معاشرے میں بڑے بڑے ناٹک اور فراڈ ہوتے ہیں صرف مانگنے کی خاطر لوگ اپنے بازو اور ٹانگین کٹوا لیتے ہیں،میں تو عقل مند آدمی ہوں 3 G سے 4G اور LTE سپورٹیڈ موبائل لینا ہے،میں خواہ مخواہ کسی کے بازوئوں کے چکر میں کیونکر پڑوں،کچھ دن پہلے کی بات ہے مسجد میں نماز کے بعد ایک نوجوان کھڑا ہوا اور رو رو کر کہہ رہا تھا کہ میرے پاس مکان کا کرایہ دینے کے لئے پیسے نہیں ،میری بوڑھی ماں اور تین جوان بہنیں ہیں غربت کے باعث میں نے پچھلے تین ماہ کا کرایہ ادا نہیں کیا ،مکا ن مالک ١٠ تاریخ کو مکان سے نکال دے گا، میں باہر نکلا تو وہ مسجد کے گیٹ پر ٹپ ٹپ رو رہا تھا مجھے اسکے آنسوئوں پر ترس آگیامیں نے ١٠ روپے کا کڑک نوٹ اس کے کانپتے ہاتھوں پر رکھ دیا،میں چاہتا تو اسکے مکان کا کرایہ ادا کر کے اسکی پرشانی دور کر سکتا تھا مگر میں نے سنت پر عمل کر چھوڑا تھا کہ کسی مانگنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرنا چاہیے،، اس ملک میں دس روپے جس میں آلو والا سموسہ ١٥ روپے کا ہے
،ایک دن تو ایک نوجوان لڑکی جینز اور کرتی پہنے مانگنے آ گئی،بھائی میری مدد کر دیں میں یونیورسٹی کی ا سٹوڈنٹ ہوں ،اور یہاں ہاسٹل میں رہائش پزیر ہوں،میرے ابو مزدوری کرتے ہیں اس ماہ وہ بیماری کی وجہ سے پیسے نہیں بھیج سکے ،میں نے اسکے پورے جسم کا آنکھوں سے الٹرا سائونڈ کرنے کے بعد اسے پچاس کا نوٹ تھما دیا،اور ساتھ اسکا ہاتھ چھو کر دل بھی ٹھنڈا کیا،اور ساتھ کھڑے دوستوں سے کہا ،یہ چالو مال ہے، ان کے بہت کارنامے ہوتے ہیںجی ،یہ مانگنے کے روپ میں بڑے بڑے کام کرتی ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے ،اگر وہ لڑکی غلط ہی ہوتی تواسے یوں گلی گلی محلہ محلہ چھاننے کی کیا ضرورت ، کیااس ملک میںایسے ہوٹل اور کوٹھے کم ہیں جہاں جسم فروشی کا بازارزور و شور سے عروج پر ہے،ہمارے سامنے ایسی کتنی کہانیاں آتی ہیں جنہیں ہم ١ روپیہ ٢ روپے ٥ روپے ١٠ روپے ٢٠ روپے اور پچاس روپے دے کر رخصت کر دیتے ہیں،ہم نہیں سوچتے کہ ٢٠ کروڑ کے اس ملک میں جہاں ریاست کی طرف سے انکا کوئی پرسان حال نہیںاگر کوئی مانگنے آ جائے تو اسکی مجبوری بھی ہو سکتی ہے،ہر ٹوٹے بازو والا بابا فراڈی نہیں ہوتا
،ہر قہوہ فروخت کرنے والا غیرت مند پٹھان کا بیٹا صرف پیسے کا حریص نہیں ہوتا ،بلکہ اسکے پیشِ نظر کوئی بڑا مقصد بھی ہو سکتا ہے،مسجد میں اٹھ کر رونے والا ہر آدمی کہانی سوچ کر نہیں آتا بلکہ ایسا بھی ہوتا ہیکہ بہت سارے لوگوں کو زندگی ہی کہانی بنا دیتی ہے،جینز اور کرتی پہنے مانگنے والی ہر لڑکی چالو مال نہیں ہوتی،بلکہ وہ مجبور و بے بس، با حیا مزدور کی بیٹی بھی ہو سکتی ہے۔ گداگری کی لعنت ، مانگنے کی مذمت ، مانگنے کے ناٹک و فراڈ ، دانش مندانہ سوچ،اور پختہ ایمان کی باتیں اس معاشرے کو زیب نہیں دیتیں جہاں دو وقت کی روٹی بنتِ آدم و حوا کو جسم فروشی پر مجبور کر دیتی ہے،یہاں تو شیخ سعدی جیسے لائف سٹائل کی ضرورت ہے۔
تحریر: سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009