تحریر : عماد ظفر
عورت ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ تحقیق اور مباحث کا باعث ہے. عورت کا پردہ کیا ہوتا ہے عورت سے ہم بستری کیسے کرنی ہے مباشرت کے آداب کیا ہیں کن چیزوں سے نکاح نہیں ٹوٹتا کیا لونڈی سے جسمانی تعقات رکھے جا سکتے ہیں جیسے موغوع ہمارے ہاں تحقیق کے اور مناظروں کے سب سے اہم موضوع ہیں.کمپیوٹر سائنس میڈیکل سائینس یا کسی جدید تحقیق پر مناظرہ اور غورو فکر اس معاشرے میں نہ صرف غیر اہم ہے بلکہ عدم دلچسپی کا شکار بھی. یوں تو دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن ہماری دنیا صرف عورت کے گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے. اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا اختر شیرانی اور دیگر علما کی ہی مثال دیکھ لیجئے جنہیں خواتین کے حقوق کی فکر کھائے جا رہی ہے اور چند ماہ قبل تحفظ حقوق نسواں بل کو مسترد کرنے کے بعد اب ایک انتہائی مضحکہ خیز بل خواتین دوارے پیش کر کے خوب جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔
اس بل کی سفارشات اس قدر بھونڈی ہیں کہ کسی بھی صورت انہیں اسمبلی سے پاس کروانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا لیکن نہ جانے کیوں ہمارے مولوی حضرات اور علما حضرات “میں نہ مانوں” کی گردان الاپتے ہی رہتے ہیں. اب اکیسویں صدی میں اگر اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات میں یہ کہے کہ شوہر بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کر سکتا ہے اور خواتین کی مخلوط تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہونی چائیے یا تفریحی مقامات پر خواتین نامحرموں سے مل نہیں سکتیں یا پھر آرٹ مجسمہ سازی پر پابندی ہونی چاھیے تو یہ ایک طرح سے اس بات کا ثبوت ہے کہ ملا حضرات زمانہ جدید کی رمز سے ہرگز بھی آشنا نہیں۔
اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے ارباب اختیار تھوڑی سی تحقیق کرتے اور خواتین پر تشدد دوارے اعداد وشمار سے مدد حاصل کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ پاکستان میں خواتین اور بالخصوص بیویوں پر ہاتھ اٹھانا یا ذہنی تشدد کرنا مرد حضرات ایک فطری حق سمجھتے ہیں اور ہمارے ہاں 80 فیصد کے قریب خواتین تشدد کی کسی نہ کسی قسم کا نشانہ بنتی ہیں.شاید ہمارے مولوی حضرات اس شرح کو سو فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں تا کہ پاکستان میں کوئی بھی بچی کسی بھی قسم کے تشدد سے محفوظ نہ رہ سکے. تشدد مار پیٹ اشتعال انگیزی ویسے بھی ہم لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ایسی مضحکہ خیز بات اس چنگاری کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اگر اسلامی نظریاتی کونسل یا دیگر علما طرز معاشرت کے جدید انداز اور نفسیات کے علم سے بھی مستفیذ ہونے کی کوشش کریں .خواتین کے حجاب اور مخلوط تعلیم پر مشروط پابندی لگا کر ملا حضرات حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا.. بے حیائی یا عریانی کے مفہوم ملا حضرات کے نزدیک مرد کیلیے کچھ اور ہیں اور خواتین کیلئے کچھ اور.کیوں نہ گرمیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل والے مرد حضرات کو صرف ٹی شرٹ پہننے سے ہی منع کرنے کا فتوی جاری کر کے زرا آزمائیں کہ حجاب یا برقعہ موسمی تغیرات کے باعث بھی کس قدر دشوار ہے اور ویسے بھی اگر عورت کو حیا کا پیکر بنانا مقصود ہے تو مرد حضرات کو بھی تو اس زمرے میں لانا چائیے۔
آرٹ موسیقی مجسمہ سازی پر پابندی ویسے ایک خالص طالبانی کلچر ہے اور اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران چاہیں تو کابل کے گرد و نواح میں جا کر آرٹ موسیقی اور مجسمہ سازی سے منہ موڑنے کا انجام اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں. جہاں بچے یا بچیاں موسیقی کے میٹھے سروں کے بجائے بم اور میزائلوں کی آوازیں سنتے ہیں اور جہاں آرٹ کے ناپید ہونے سے صرف جنگ و جدل اور قتال ہی باقی بچا ہے. اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ عورت بچوں کو دو سال تک دودھ پلانے کی پابند ہے.اگر تھوڑی سی سائینس مولوی حضرات پڑھنے کی زحمت کریں تو انہیں معلوم ہو گا کہ عورت بچے کو دودھ پلانے کیلیے اچھی خوراک کی محتاج ہوتی ہے اور ہمارے ہاں 80 فیصد آبادی بمشکل زندہ رہنے کیلیے پیٹ ہی بھر پاتی ہے اوپر سے لاتعداد بچوں کی بھرمار یہ عورت کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہے لیکن ان تمام حقائق کے باوجود ہمارے ہاں زیادہ تر عورتیں نامساعد حالات کے باوجود بچوں کو اپنا دودھ ہی پلاتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر علما کو اب عورت کے تصور سے نکل کر دیگر پیجیدہ معاملات پر غور و خوص شروع کر ہی دینا چائیے کہ عورت کے بارے میں اس قدر سوچنا شاعر حضرات یا افسانہ نگاروں کو تو موافق بھی ہے اور بھاتا بھی ہے لیکن علما حضرات کو قطعا نہیں بھاتا. کیا ہی اچھا ہو اگر مولوی حضرات رمضان المبارک میں اشیائے خوردو نوش مہنگے داموں فروخت کر کے ناجائز منافع کمانے والوں اور اس مہینے کو مکمل بزنس کا مہینہ بنانے والوں دوارے چند سفارشات ترتیب دیں سکے.ملک میں افزائش نسل کو کنٹرول کرنے کیلئے احتیاطی تدابیر دوارے چند سفارشات دے سکیں. شدت پسندی کے اسباب پر غور و خوص کر کے اس کے تدارک کی سفارشات پیش کر سکیں.یا مدارس میں جدید علوم کو شامل تدریس کرنے کے حوالے سے ہی کچھ سفارشات مرتب کر لیں۔
خواجہ سراوں کے حقوق اور انہیں بھی انسان سمجھنے کے بارے میں ہی کوئی فتوی جاری کر دیں.آخر ایسا بھی کیا کہ غور صرف اور صرف عورت پر ہی کیا جاتا ہے. یا پھر وہ تمام سرگرمیاں جو زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور آور زندگی کی رمق سے چمکتے دمکتے معاشروں کی پہچان ہوتی ہیں ان کو برا بھلا کہنا یا ان پر پابندی لگانے کے فتوے اور سفارشات پر ہی تان کیوں آ کر ٹوٹتی ہے. زندگی تو خود فطرت کا ایک آرٹ پے ایک مصوری ہے اور انسان خالق کا بنایا ہوا بہترین مجسمہ تو کیا پھر انسانوں پر بھی پابندی لگا دی جائے؟ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو زندگی سے پیار کرنے کا سبق سکھانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ معاشرے سے دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ ہو سکے اور زندگی سے پیار تبھی ممکن ہے جب زندگی کو بھرپور طریقے سے جیا جائے۔
زندگی کی حلاوتوں سے منہ موڑ کر جینے کے سبق کے نتیجے میں ہم معاشرے میں پہلے ہی بگاڑ پیدا کر چکے ہیں. اور ہمارے جیسا شدت پسندی کا شکار معاشرہ مزید بگاڑ کا متحمل ہرگز بھی نہیں ہو سکتا. زندگی حبس و گھٹن کی فضا میں جامد ہو جاتی ہے جبکہ آزادی اور تعمیری فضا میں زندگی خوب پروان چڑھتی ہے.عام آدمی کو گھٹن کی فضا میں قید کر کے بیچارے کو کنفیوز کر کے اور اسے اپنا چورن بیچ کر آخر کیا سکون مل جاتا ہے ان قدغنیں لگانے والوں کو اس سوال کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔
دوسری جانب بچیوں کے حقوق پر مبنی تحفظ نسواں بل کوکفار اور ہیودیوں کی سازش قرار دے کر مسترد کرنے والے عالم فاضل حضرات سے اب سوال یہ ہے کہ اپنی ہی بچیوں پر تشدد کو جائز قرار دینے والے اور ان پر قدغنیں لگانے کا مطالبہ کرنے والے کس کے ایجنٹ ہیں.کون جہنمی ہے کون دوزخی کون گناہ گار ہے کون پارسا اس کا اختیار ایک مولوی یا عالم کےپاس نہیں بلکہ رب کائنات کے پاس ہے اور یہ اختیار اسی کے پاس رہے تو اچھا ہے. اس اختیار کے جعلی ٹھیکیدار بن کر بچیوں اور سادہ لوح افراد کی زندگیوں کو جہنم بنانے کا یہ گھناونا فعل اب بند ہونا چائیے۔
تحریر : عماد ظفر