تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
آج کے معاشرے میں عریانیت و بے حیائی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا مشاہدہ شرافت و کردار کو مجروح کر دیتا ہے۔ گھروں میں ہو یا سڑکوں پر کالج میں ہو یا اسکول میں بالخصوص لڑکیوں کی بے حیائی و لباس ہی ان کی عصمت کے لئے رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔ کھلے عام فینسی لباس، بکھری زلفیں اور جادو بھرے اندازِ گفتگو سے اخلاقی جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اگر عوت جسم کی نمائش کرتی ہے تو ایسا محسوس کرنا عام سی بات لگتی ہے کہ جیسے وہ اخلاقی جرائم کو ترجیح دیتی ہو۔ راہوں میں بکھری زلفیں اور عریاں جسم سے اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنا اس حقیقت کو منوا گیا ہے جو کہ اس شعر میں پیش ہے۔
زلف اس کی عجب دام پھیلا گئی
اک تجھے کیا زمانے کو اُلجھا گئی
بہرحال اس طرح کے طرز زندگی سے نوجوانوں کے اخلاق کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور وہ دانستہ یا نا دانستہ اخلاقی جرم کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور اس کو روکنا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ بے حیائی کو آج کل کی کرکٹ میچوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں ہر چوکے، چھکے اور آئوٹ ہونے پر نیم برہنہ لڑکیاں ناچتے ہوئے با آسانی مل جاتی ہیں۔ کہاں کرکٹ اور کہاں یہ بے حیائی ، ترقی کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا جائے۔ احباب کو اس طرف بھی توجۂ خاص دینے کی ضرورت ہے جب ان حرکات و سکنات سے معاشرہ پاک ہوگا تب ہمارا نوجوان نسل بھی بھٹکنے سے بچ سکتا ہے۔
پرانی فلموں اور آج کل کی فلموں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلے فلمیں سبق آموز اور کئی طرح سے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل ہوا کرتی تھیں مگر آج کل کی فلموں کا رجحان ہیجان انگیزی ، بے حیائی، کم کپڑوں کی تشہیرضرورت سے زیادہ ، اور سوائے اس کے مار ڈھار ، بھتہ خوری اور دیگر طریقے سے نوجوان نسل کو تیزی سے بے راہ روی دکھا رہی ہے۔ اور نہ ہی آج کل ایسی فلمیں بن رہی ہیں کہ جسے آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ ایسے میں معاشرے کی بگاڑ جزوی نہیں بلکہ لازمی سی ہو گئی ہے۔ پہلے فلمیں صرف پیسوں کے لئے نہیں بنائی جاتی تھیں بلکہ اس میں معاشرے کے سدھار کے لئے حقائق بھی دکھائے جاتے تھے مگر آج کی فلمیں بنانے والے صرف پیسوں کی طرف بھاگتے ہیں اور کہانیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ایسی بے شمار فلموں میں عرفاں ناچ، فحش سین اور ڈائیلاگ، گندگی پر مبنی کہانی اور ہر فلم میں ریپ سین کا ہونا آج کل فلم کی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ فلم میں ایسی کہانی اور ایسے پہلو پیش کئے جاتے ہیں کہ ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ دونوں اپنے والدین سے صاف طور پر بغاوت کرتے نظر آتے ہیں، لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں اور سماجی لحاظ سے نتائج یہ برآمد ہوتے ہیں کہ معاشرے کے سر پر سے ایسا ہی عمل اپنی عملی زندگی میں کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی بے شمار فلمیں ہیں جن کو دیکھ کر آج کا نوجوان طبقہ وہ اثر لے کر سینما ہال یا ٹی وی کے آگے سے جب اُٹھتا ہے تو بالکل دیکھی ہوئی فلم کے مطابق خود عملی صورت میں جلوہ گر ہوکر چور، ڈاکو اور اسمگلر بن جاتے ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج معاشرے کو بگاڑنے میں فلم کا سب سے اہم رول ہے۔ لہٰذا ایسی فلموں کو ریلیز کرنے والے اداروں کو چاہیئے کہ نوجوان نسل پر رحم کریں اور بہت باریک بینی سے دیکھ بھال کے بعد فلموں کو ریلیز کریں تاکہ ہمارا معاشرہ نوجوانوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن سکے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ہر شعبہ میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور تا قیامت کرتا رہے گا۔ اسلامی معاشرہ سے مراد وہ معاشرہ ہے جس کے تمام شعبے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوں اور جس کے افراد کے ہر عمل میں اسلامی تعلیمات کی عکاسی ہوتی ہو۔معاشرہ کے تمام اصول و قواعد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب ہوں اور افراد اپنی زندگیاں اسلامی شعار کے مطابق گزار رہے ہوں۔ اسلام میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے۔ اسلامی معاشرہ ایسا ہے کہ جو ہر معاشرے سے ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور اسلامی معاشرے کی اہمیت دوسرے تمام معاشروں سے زیادہ ہے۔ اسلامی معاشرے میں تمام مسلمان سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔
آپ سب بھی اسی سوسائٹی کا حصہ ہیں اور میں بھی، دن رات لوگوں کو دیکھ کر اپنی قوم کی بے بسی اور ان کی تباہی کا نظارا کرتا ہوں۔ مگر بے بسی کی آنسو کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں، دوسری طرف میرا قلم ہی ہے جو ان موضوعات کو لکھ کر ارباب کو اس طرف توجہ دلا سکتا ہے ، اور وہ یہ قلم خوب کر رہا ہے۔معاشرے کی تباہی دیکھنی ہے تو اپنے ارد گرد دیکھیں، وہاں دیکھیں جہاں جہاں آپ کا گزر ہو، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہر سطح پر لوگ معاشرے پر قد غن لگا رہے ہیں اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے اچھے عادات و اطوار انسانی خوبیاں ہیں۔ اسلام تمام اچھائیوں کی تعلیم دیتا ہے اور برائیوں سے گریز سکھاتا ہے۔ اسلامی اور خاندانی اخلاق کو اپنائے جائیں تو ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ظلم و زیادتی کی جگہ امن و سکون اور خوشحالی کا دور دورہ آ سکتا ہے۔ ایسے معاشرے میں شیطان کے بہکاوے میں آکر یا نفسیاتی شرارت کے باعث کسی فرد سے جرم کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اسے ایسی عبرتناک سزا دی جاتی ہے کہ معاشرے کے دوسرے افراد کسی جرم کیطرف نہیں سوچ سکتے۔ اخلاقی تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے رسول اللہ ۖ سے فرمایا…” مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔” حضرت ابو دائود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ۖ کو فرماتے سنا: ” (قیامت کے دن) ترازو میں جو چیزیں رکھی جائیں گی اس میں حسن و اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی اور اچھے اخلاق والا اپنے حسنِ اخلاق کے باعث روزہ دار اور نمازی کے درجے کو پا لیتا ہے۔ ” (ترمذی شریف) چونکہ اسلام دینِ فطرت ہے اس کی تمام تعلیمات اعتدال پر ہے اور اس لئے جن اچھے اخلاق کی تعلیم اسلام دیتا ہے ان کو اختیار کرنا فطرت سلیمہ کو ذرا بھی گراں نہیں گزرتا، بلکہ اسے یہ اخلاق اپنا کر قلبی سکون ملتا ہے۔ اسلامی اخلاقی خوبیاں اختیار کرنا صرف اس شخص پر بھاری ہے جس نے کجروی اور کج فہمی کی وجہ سے اپنی طبیعت کو برائیوں پر آمادہ کر لیا اور وہ شیطان کے چنگل میں پھنس کر نفس امارہ کا شکار ہوگیا۔ ان تمام باتوں سے اور حرکات سے بچ کر آپ ایک اچھا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر ہم سب کی رہنمائی فرمائیں۔ آمین
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی