counter easy hit

بالمکی سماج کا درد اور ورن ویوستھا

BJP

BJP

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
گزشتہ دنوں تبدیلی مذہب اور گھر واپسی پر چل رہے تنازعہ کے درمیان میرٹھ، اتر پردیش میں ایک نیا معاملہ روشنی میں آیا ہے۔خبر کے مطابق تھانہ دورالا کے جمال پور موگا گائوں کے دس بالمکی سماج کے لوگ ضلع انتظامیہ کی یقین دہانی کے باوجود26جنوری تک مطالبات پورے نہ ہونے پر اسلام قبول کرنے کے فیصلے پر اڑے ہیں۔وجہ یہ کہ باغپت کے بالینی میں واقع بالمکی آشرم میں انہیں پوجا کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔بتایا یہ جا رہا ہے کہ گائوں کے تقریباً دس خاندانوں کے ساٹھ افراد پوجا سے روکنے پر دلبرداشتہ ہوکر مسلمان بننے کی واننگ دے رہے ہیں۔ان کا الزام ہے کہ بالینی مندر کے مہنت اور ان کے دبنگ ساتھی مندر میں پوجا کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔لہذا متاثرین نے وزیر اعلیٰ سمیت کئی جگہ شکایتی خط بھیجے بھی تھے۔دوسری جانب متاثرین کے اسلام قبول کرنے کے فیصلے سے بی جے پی میں بے چینی ہے اور اس کے لیڈر وں نے گائوں میں پہنچ کر لوگوں سے ملاقات کی۔

ساتھ ہی مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے کو ٹالنے کی اپیل بھی کی۔میرٹھ کے ڈی ایم پنکج یادو اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے شکایتی خط ملنے کے بعد ایس ایس پی اور اے ڈی ایم کو کارروائی کے لیے کہا تھا۔ وہیں باغپت کے اے ایس پی ودیا ساگر مشرا نے بتایا کہ تین مہینے قبل بالمکی جینتی پر میرٹھ کے لوگوں نے رتھ یاترا کی اجازت مانگی تھی جو نہیں دی گئی ،لیکن پوجا سے روکنے کا الزام بے بنیاد ہے۔برخلاف اس کے بالمکی سماج کا کہنا ہے کہ ہمیں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی جانب سے ہمیشہ بڑے مندروں میں پوجا کرنے سے روکا جاتا رہا ہے جسے ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔خبر میں ہمارے نزدیک اہم یہ نہیں ہے کہ اگر بالمکی سماج کو بالینی میں واقع آشرم میں پوجا کی اجازت نہ دی گئی تو وہ اسلام قبول کر لیں گے بلکہ اہم بات وہ ہے جو خبر کی آخری ستروں میں درج ہے ۔یعنی بالمکی سماج کا کہنا ہے کہ ہمیں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی جانب سے ہمیشہ بڑے مندروں میں پوجا کرنے سے روکا جاتا رہا ہے جسے ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اس کی وجہ کیا ہے؟اور یہ” توہین “کیونکر کی جاتی ہے؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جنہیں ہندو تہذیب و مذہب یا اس کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔

ہندو تعلیمات کے مطابق ورن ویوستھا کی تخلیق وید کے ذریعہ ہوئی ہے اور وید ایشور کی کتاب ہے۔اس لیے ورن ویوستھا کو پرجاپتی وِشوکرما نے وجود بخشا۔پرجاپتی ہی ہر ایک شخص کی قسمت اور عمل کو جانتا ہے۔اسی نے ورن ویوستھا کی تقسیم کو صفات و اعمال کے مطابق نافذ کیا ہے۔ پرجا پتی نے اپنے منہ سے براہمنوں، بانہہ سے کشتریوں، جانگھ سے ویشیوں اور پیر سے شودروں کی تخلیق کی ہے۔اور اسی تدریج سے ان کے فرائض بھی متعین کیے ہیں۔اس طرح قدرتی اور خدائی طور پر وجود میں آنے والی ورن ویوستھا میں ہر آدمی کو اپنے متعین فرائض و اعمال کو ہی کرنا ہے، یہی ایشور کا حکم ہے۔ہر شخص کو اپنی خوبی اور صلاحیت و اعمال کے مطابق خاص ورن میں جنم ملا ہے۔لہذا یہی وجہ ہے کہ اسے اسی مقام و خاندان کے فرائض اداکرنے ہیں جس میں وہ پیدا ہوا ہے۔ویدک سماجی و اجتماعی انصاف کا تصور اسی ورن کی تقسیم اور فرائض و اعمال متعین کرنے میں پوشیدہ ہے۔اگر الگ الگ ورن کے لوگ اپنے متعینہ فرائض اداکرتے چلیں توسماج کا چلانا اور نظم درست رکھنا آسان ہو سکتا ہے۔اور اسی پر مبنی سماجی انصاف کا منبع و مصدر اصلاً ایشور یا پرجاپتی ہے جس نے پچھلی زندگی کے صفات و اعمال کے مطابق سبھی جانداروں کو سماج میں متعین و منظم کیا ہے۔ اسے ہی ہندو اور براہمنی فکر و خیال میں خدائی ،فطری اور سماجی انصاف تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ دھرم پر مبنی ہے ، انسان کا نبایا ہوا نہیں ہے۔ایشور نے ہی اس کی رچنا کی، جیسا کہ گیتا میں لکھا ہے:”براہمن، کشتریہ، ویشیہ اور شودر–ان چاروں ورنوں کی ویوستھا، صفات اور عمل کے فرق سے میں نے بنائی ہے۔اس کا کرنے والا ہوتے ہوئے بھی مجھ لازوال کو نہ کرنے والا جانے”(ادھیائے4، شلوک13)۔اس ورن ویوستھا کے اصول کا اختراع وید سے کیا گیا ہے،ساتھ ہی اسے روشن اور خدائی سماجی نظام بھی کہا گیا ہے۔یہی سبب ہے کہ اسے کسی نہ کسی شکل میں ہندو دھرم گرنتھوں میں محفوظ کیا گیا ۔ورن کے ساتھ چار آشرموں کوبھی جوڑا گیا ہے۔یعنی فرد کی زندگی کو چار حصوں میں–برہم چریہ، گرہستھ،وان پرستھ اور سنیاس۔ورن اور آشرم دونوں کو ملاکر ورنا شرم دھرم کہا گیا ہے جو انفرادی اور سماجی زندگی میں اختیار کرنے کے لائق ہے۔یہ فرد اور سماج دونوں کا متحدہ نظریہ ہے جس سے سماجی ہم آہنگی اور انصاف کا تقاضہ پورا ہوتا ہے۔ورن آشرم کے نظام میں عورتوں کی حالت ان کے مردوں کے ساتھ منسلک کردی گئی ہے۔

ان کا ورن وہی ہوگا جو ان کے مردوں کا ہے۔لیکن وہ ان کاموں اور فرائض کو ادا نہیں کریں گی جنہیں ان کے شوہر کو کرنا ہے۔ چارورنوں کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات کے سلسلے میں براہمن ورن کے لوگ دیگر تینوں ورنوں کی عورتوں سے شادی کر سکتے تھے۔کشتریہ ورن کے لوگ وَیشیہ اور شودر ورنوں کی عورتوں اور ویشیہ شودرورن کی عورتوں سے شادی کرنے کے حق دار تھے۔جب کہ شودر لوگ اپنے ہی ورن کی عورتوں سے شادی کرسکتے تھے۔اس طرح ورناشرم دھرم میں اَنو’ لوم سیریز میں ازدواجی تعلق کو مناسب اور برحق تسلیم کیا گیا ۔برخلاف اس کے پرتی لوم سیریز(یعنی اونچے ورن کی عورت کے لیے نیچے ورن کے مردوں سے شادی) کو پوری طرح ممنوع ٹھہرایا گیا ۔شادی بیاہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزائوں کا قانون بنایا گیاتاکہ نچلے ورن کے مردوں اور عورتوں کا اونچے ورن ، خاص کر براہمن ورن کے ساتھ ملاوٹ نہ ہوسکے۔اسی سلسلے میں کانچی کاماکوٹی پیٹھ کے آچاریہ سن1980ء ناسک کے اخباری نمائندوں کی ایک محفل میں کہتے ہیں کہ ورن آشرم ہندو دھرم کا بنیادی پتھر ہے اور اگر ذات پات کا نظام ختم کردیا گیا تو وہ تباہ ہو جائے گا(مانو اور سنسکرتی، شیام چرن دوبے)۔مہاتما گاندھی جنہیں عزت دیتے ہوئے لوگ “باپو “پکارتے ہیں،وہ چھواچھوت کے تو مخالف ہیں لیکن ورن آشرم ویوستھا کے مخالف نہیں ہیں۔شری متی لکشمی نرسو’ نے مہاتما گاندھی کا جملہ نقل کیا ہے۔’ورن آشرم انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ہندو دھرم نے اسے ہی علمی اور سائنسی انداز میں قائم کیا ہے۔پیدائشی طور پرورن کی تخلیق ہوتی ہے،ارادہ اور خواہش کے ذریعہ اسے بدلا نہیں جاسکتا'(ڈاکٹر امبیڈ کر بودھ کیوں بنے؟، ایس ایل ساگر)۔ورن ویوستھا کے تحت شودر سماج میں سب سے نیچے تھا اور برہما نے اسے براہمنوں، کشتریوں او ر ویشیوں کا غلام و خدمت گار بنایا ۔لہذا انہی تینوں ورنوں کی خدمت کرنانہ صرف اس کی زندگی کا مقصد ٹھہرابلکہ فریضہ کے طور پر یہ عمل اختیار کیا اور کروایا گیا۔نیز سمجھایا گیا کہ اسے کرنے سے ہی اسے(اپنے فرائض ادا کرنے اور اپنے دھرم کا اتباع کرنے کے سبب)بہت زیادہ راحت مل سکتی ہے۔دولت جمع کرنااس کے لیے ممنوع تھا۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دولت مند ہونے پر وہ اپنے کونیچ اور حقیر نہ سمجھے گا اور خدمت جو اس کی ذمہ داری ہے وہ نہ ادا کرے گا۔لہذا جہاں ایک طرف شودر کو ایسی تعلیم و تربیت دی گئی ، وہیں دوسری جانب دوِجوں سے بھی کہا گیا ہے کہ شودروں کا مناسب گزر بسر کا سامان مہیا کرنا اپنا فریضہ سمجھیں۔

انہیں چاہیے کہ وہ اپنے استعمال شدہ پرانی چیزیں،جیسے چھاتا، پگڑی، جوتا،پنکھا اور پٹھے پرانے کپڑے وغیرہ خدمت گزار شودروں کو دے ڈالیں۔ہندوئوں میں مقبول عام بھگوت گیتا نے بھی ورن ویوستھاکی تصدیق اور تائید کی ہے۔گیتا کے چوتھے باب کا تیرہواں شلوک بھی یہی کہتا ہے:چاروں ورنوں کی ویوستھا صفات اور عمل کے فرق سے میں نے بنائی ہے۔اس کا کرنے والا ہوتے ہوئے بھی مجھ لازوال کو نہ کرنے والا جان(گیتا٤:١٣)۔گیتا نے اسی ویوستھا کو اپنا دھرم کہا اور یہ طے کیا کہ اس میں جس شخص کی عقیدت نہیں ہوگی، وہ ایشور کی بھکتی کا حق دار نہیں ہوسکتا۔گیتا کے ماہرین علم نے اس گرنتھ کا سہارا لے کر ہندو بنیاد پرست نظامِ معاشرت کو ،جس میں اونچ نیچ کا خیال جم گیا مبنی بر انصاف ٹھہرایا ہے(رام شرن شرما:شودروں کا پراچین اتہاس، ص١٧٦،١٧٧)۔اس پورے پس منظر میں اپنی عزت کی دہائی لگاتے جمال پور موگا گائوں کے بالمکی سماج کے متاثرین اورمسلمان بننے کی وارننگ کے پیچھے ورن ویوستھا میں سدھارکی سعی و جہدہی دراصل وہ درد ہے جو متذکرہ خبر کی روشنی میں آیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ حربہ کیا رنگ لائے گا ؟کیا متاثرین کو مندر میں پوجا کی اجازت دے کرانہیں رام کیا جائے گا یا پھرنظر انداز کرکے،ان کی تذلیل جاری رہے گی؟26جنوری کا دن واضح کردے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھا لیکن گزشتہ دنوں وزیر خارجہ سشما سواراج کا یہ بیان کہ گیتاکو قومی کتاب کا درجہ دیا جائے اور ان کی فکرسے وابستہ دیگر افراد کی جانب سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے جیسے بیانات،خوب اچھی طرح واضح کرتے ہیں کہ بااقتدار طبقہ کمزور طبقے کو ایک بار پھر سے آزاد ہندوستان میں ذلت آمیزدرجہ دینے کا ارادہ رکھتا ہے ۔وہیں دوسری طرف وہ جس نظام کے قیام کی سعی و جہدمیں مصروف ہیں وہ کسی بھی سطح پر انسانی مساوات کی بات نہیں کرتا۔پھر کیونکر ایسا نظام ایک فلاحی ریاست میں قابل قبول ہو سکتا ہے۔

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com