لاہور (ویب ڈیسک) یکم اگست 2019ء کو ہونے والی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپ سیٹ تو تھاہی مگر کچھ سیاسی حلقوں میں اسی نتیجے کی توقع بھی کی جارہی تھی۔ ہونا کیا تھا پوری قوم نے دیکھ لیا 14 سینیٹرز ضمیر کے قیدی بن گئے اور تحریک عدم اعتماد بڑے نمبر کے نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بعد بھی مسترد کردی گئی۔چودہ منحرف سینیٹرز سمیت اپوزیشن کے 64 سینیٹرز ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد نے بھی اس کامیابی کا سہرا ان ضمیر کے قیدیوں کے سر چڑھایا جن کی پارٹیوں نے ان کے پائوں میں سیاسی زنجیریں ڈال رکھی تھیں۔نمبر گیم کی جمع تفریق کے علاوہ دیگر افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ شاید کسی بزنس ٹائیکون سے ملاقات کے بعد یہ صورتحال ہوئی یا پھر ستر کروڑ سے دو ارب وصولی کی باز گشت بھی زبان زد عام ہورہی ہے۔حاصل بزنجو کے مطابق خفیہ ادارے کے سربراہ پر بھی الزامات لگائے گئے کہ منحرف سینیٹرز ان کے اپنے سینیٹرز تھے۔سینیٹ میں کیاہوا اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے ۔اس رپورٹ میں حقائق کو 100اراکین سینیٹ کی سیاسی ماضی و حال کے ذریعے جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخر کونسے سینیٹرز پارٹی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے اور کن سینیٹرز کو شک کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے۔خیبر پختوا نخوا سے منتخب ہونے والے سینیٹرز۔۔۔بہرمندتنگی:سینیٹر بہرمند نے پہلی بار 2018ء میں پی پی پی کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کی کراچی آمد پر ہونے والے دھماکے میں انکے بھائی شہید ہوئے تھے۔افواہوں کے مطابق سینیٹر بہرمند کا نام بھی ان 14اراکین میں لیا جارہا ہے جنہوں نے ملکی استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیاجبکہ بہر مند کے قریبی حلقے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔۔۔۔سید محمد صابر شاہ:سید محمد صابر شاہ مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدرہیں۔ان کی سیاسی وابستگی ن لیگ کے ساتھ تھی اور آج بھی ہے۔وہ اکتوبر 1993ء خیبر پختونخواہ کے اٹھارویں وزیر اعلیٰ بنے۔ 1997ء میں وزیر اعظم کے مشیر اور 4بارایم پی اے منتخب ہوئے۔ 2002ء میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔2008ء میں وہ ایک بار پھر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔2013میں بھی ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔۔۔۔فداء محمد:سینیٹر فدا ء محمد نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا اور بعدازاں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔انکے بھائی نثار محمد ن لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹرہیں۔2005ء میں وہ ڈسٹرکٹ ناظم مالاکنڈ منتخب ہوئے۔2013کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب نہیں ہوسکے۔۔۔۔فیصل جاوید:فیصل جاوید نے 1996ء میں تحریک انصاف سے اپنی سیاست کا آغاز کیاپہلی بار تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لیا ۔۔۔۔محمد ایوب آفریدی: 2018ء سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کے صاحبزادے جاوید آفریدی نجی الیکٹرنک کمپنی کے مالک ہیں۔۔۔۔محمد طلحہ محمود:محمد طلٰحہ محمود جے یو آئی ف کی جانب سے تیسری بارمنتخب ہونے والے سینیٹر ہیں۔وہ 2006ء میں ایم ایم اے اور2012میں جے یو آئی ف کے سینیٹرمنتخب ہوئے۔2018ء میں وہ تیسری بار جے یو آئی ف کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انہوں نے ملکی استحکام کو بہتر جانتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیا جبکہ جے یو آئی ف کو ان پر شبہ نہیں ہے۔۔۔۔دلاور خان: ن لیگ کے سینیٹر دلاور خان نے پہلی بار ٹیکنو کریٹ نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ انکے بھائی اعظم خان دوبار ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ افوہوں کے مطابق خیال کیا جارہا ہے کہ سینیٹر دلاور خان ان 14 ارکان میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی جماعت کی بجائے جمہوری استحکام کی خاطرچیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیامگر ان کے ساتھی ان افواہوں کو غلط قرار دے رہے ہیں۔۔۔۔۔محمد اعظم خان سواتی: سینیٹراعظم سواتی نے جے یو آئی ف سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور 2011 ء میں جے یو آف کو خیر باد کہتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔وہ 2001ء میں مانسہرہ کے ضلع ناظم منتخب ہوئے۔ 2003ء میں وہ جے یو آئی ف اور2012ء میں پی ٹی آئی کے سینیٹر منتخب ہوئے ۔2018 ء میں ایک بار پھرپی ٹی آئی سینیٹر منتخب ہوئے وفاقی وزیرہیں۔۔۔۔۔روبینہ خالد:سینیٹر پیپلزپارٹی کی روبینہ خالداس سے قبل 2012ء میں بھی پیپلزپارٹی کی سینیٹر رہ چکی ہیں۔وہ سابق وزیر صحت زاہد علی شاہ کی ہمشیرہ ہیں اور انکے والد سید ظفر علی شاہ ضیاء الحق کے دور میں وزیر رہ چکے ہیں۔افواہوں کے مطابق سینیٹر روبینہ خالد نے بھی موجودہ چیئرمین سینیٹ کو زیادہ موزوں سمجھتے ہوئے سینیٹ کے استحکام کے لئے اپنا ووٹ کاسٹ کیامگر ان کے خلاف احتساب کا عمل تیز تر ہے جس سے لگتاہے کہ وہ بے وفائی کی مرتکب نہیں ہوئیں۔۔۔۔۔مہر تاج روغانی :سینیٹر مہر تاج روغانی کا تعلق مردان سے ہے ۔وہ خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے ساتھ بھی منسلک رہیں اور پشاور کے ہسپتالوں میں تعینات رہیں۔وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں۔وہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت 2000سے 2002تک صوبائی وزیر صحت اور2007ء میں نگران وزیرصحت رہیں۔۔۔۔شبلی فراز:مشہور شاعر احمد فراز کے بیٹے شبلی فراز اگست 2018ء سے سینیٹ میں قائد ایوان ہیں۔وہ پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں۔2012ء میں سیاست میں قدم رکھا۔ان کے چچا مسعود کوثر گورنر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔۔۔۔۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف مسترد ہونے والی تحریک عدم اعتماد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔قومی اسمبلی کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے ایوان ایوان بالامیں بھی لوٹوں کی باز گشت سنی جانے لگی ۔متحد اپوزیشن ایک دوسرے کی جانب مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ آخر منحرف ووٹر کون ہے۔اپوزیشن کی جانب سے کمیٹی تشکیل تو دیدی گئی مگر کیا2018ء کے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دائو پیچ کو بھی تلاش کیاجائے گا؟چودہ منحرف سینیٹرز کی تلاش میں میڈیاسمیت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بہت سے نام گردش میں ہیں ۔سینیٹردلاو رخان اور سینیٹر کلثوم پروین نے باقاعدہ صادق سنجرانی اور حکومتی اعشائیوں میں شرکت کر کے اپنی کلیئر لائن دے چکے تھے۔دیگر اراکین جن کے نام گردش میں ہیں ان کا تعلق مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی سے بتایاجارہاہے۔دوسری جانب یہ بھی الزامات ہے کہ ضمیر کے قیدی سینیٹر نہیں بلکہ کچھ سیاسی جماعتوں نے خود کسی بھی طرح کی ڈیل کرلی جو سوچی سمجھی سازش تھی جس کا فائدہ حکومتی اتحاد کوہوا۔سوال یہ ہے کہ یہ منحرف گھوڑے تلاش کئے جانے کے بعد بھی سینیٹ میں رہیں گے ؟ کیاسیاسی جماعتیں موجودہ حالات میں اپنے قد سے بڑا فیصلہ کرپائیں گی؟