لاہور (ویب ڈیسک) پوری انسانی تاریخ میں دوچار واقعات ہی ایسے ہیں جن کی بازگشت گاہے گاہے سنائی دیتی رہتی ہے۔پہلا واقعہ 15 جون 1215ء کا میگناکارٹا، جس سے دنیا میں قانون کی حکمرانی کی راہ ہموار ہوئی اور دوسرا واقعہ 18جون 1815ء کو واٹرلو کے مقام پر انگلینڈ کے ڈیوک آف ویلنگڈن کے ہاتھوںصف اول کے کالم نگار سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرانس کے بادشاہ نپولین کی شکست اور سلطنت عظمیٰ برطانیہ کی حکمرانی کے دورکا آغاز تھا۔ انسانی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ چند دن پہلے اسی ماہ اکتوبر میں ظہور پذیر ہوا جب فاسق فاجر، کرپٹ، غدار اور قاتل شہباز شریف کو گرفتار کر کے بین الاقوامی طور پر عظیم ترین کارنامہ سرانجام دیا گیا ، اس کارنامے پر انسانیت ہمیشہ فخر کرے گی اور اس واقعہ کو یاد کر کے خوشیاں مناتی رہے گی۔ اس کارنامۂ عظیم کے اس قدر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ لاہور کا موسم تک بدل گیا ہے جب سے شہباز شریف گرفتار ہوا ہے کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑ گئی ہے۔ جب سے اس ایماندار ریاست کے کرپٹ ترین شخص شہباز شریف کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ریاست میں قانون کی عمل داری مکمل ہو گئی ہے۔ شہباز شریف لاکھ کھدر کے کپڑے پہنتا تھا، لاکھ خود کو خادم اعلیٰ اور غریبوں کا ہمدرد کہتا تھا مگر وہ اندر سے بہت بڑا منی لانڈر اور کرپٹ تھا، اس کی خفیہ جائیدادوں میں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، وائٹ ہائوس اور لندن کا بگ بین وغیرہ شامل ہیں۔کون ہے جو امریکہ اور لندن گیا ہو اور اس نے دنیا کی اِن مہنگی ترین بلڈنگز کو نہ دیکھا ہو، کس کو علم نہیں کہ اتنی بڑی جائیداد سفاکانہ لوٹ مار کے بغیر ممکن نہیں، شہباز شریف اس قدر ہوشیار چور ہے کہ جس طرح اس کی 56 کمپنیوں کے کمیشن دوسروں کے نام پر لئے گئے ہیں اور اسے پکڑنا مشکل ہے بالکل اسی طرح اس نے وائٹ ہائوس امریکی حکومت کے نام، بگ بین برطانوی حکومت کے نام اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ایک سفید فام امریکی کے نام لگا رکھی ہیں۔ یہ دراصل بے نامی جائیدادیں ہیں جن کا اصل مالک بہرحال شہباز شریف ہے۔ اس حوالے سے جو خفیہ دستاویزات ملی ہیں ان میں اوپر وائٹ ہائوس لکھا ہے اور اس کے نیچے کچی پنسل سے SSلکھا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہائٹ ہائوس کا اصل مالک شہباز شریف ہے۔ بے نامی جائیداد کا مسئلہ سمجھنے کے لئے آصف زرداری کے بے نامی اکائونٹس کو ذہن میں لائیں کہ کس طرح فالودہ فروشوں اور غریبوں کے ناموں پر لاکھوں ڈالر کی اسمگلنگ کی گئی ہے۔ اوپر دی گئی مثال سے واضح طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ شہباز شریف کتنا بڑا جھوٹا اور کرپٹ ہے اور اس کی گرفتاری عظیم ترین کارنامہ ہے۔وہ فیصلہ ساز بھی قوم کی داد کا مستحق ہے جس نے خوفناک اور خطرناک عادی مجرم شہباز شریف کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لانے کا فیصلہ کیا۔ فرض کریں اگر شہباز شریف کو کسی عام گاڑی میں لایا جاتا تو اس کے فرار ہونے کے امکانات تھے، یہ بھی خدشہ تھا کہ اس کے باقی ڈاکو ساتھی اسے فرار کروا لیتے یوں ریاست کا ایک بڑا ملزم بھاگ سکتا تھا۔ دوسرا بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر ہر ایک کو یہ بتانا اور سبق سکھانا بھی مقصود تھا کہ قانون کی نظر میں امیر غریب سب برابر ہیں، کوئی طاقتور ہو یا کمزور، سب کا احتساب ہو کر رہے گا۔آج کل چونکہ ہر طرف سے خوش خبریاں ہی خوش خبریاں موصول ہو رہی ہیں احتساب عدالت کے فاضل جج صاحب نے خطرناک ترین ملزم شہباز شریف کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ اس برے زمانے میں بھی بہادر اور نڈر لوگ موجود ہیں جو حق اور انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ قانون کو بالاتر قرار دیتے ہیں۔ کوئی کمزور ایمان کا جج ہوتا تو شہباز شریف جیسے خوفناک ملزم کو دیکھ کر اسکے ہاتھ پائوں پھول جاتے اور وہ ریمانڈ دینے کے بجائے اسے رہا کر دیتا۔
مگر داد دیجئے فاضل جج صاحب کی جرأت رندانہ کو کہ انہوں نے بہادرانہ فیصلہ کرتے ہوئے پورے دس روز کا جسمانی ریمانڈ دے دیا تاکہ نیب شہباز شریف سے انکے سارےجرائم کا اقرار کرا سکے۔ توقع کرنی چاہئے کہ نیب جسمانی ریمانڈ کے دوران شہباز شریف کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گی جو دوسرے غریب ملزموں کے ساتھ کرتی ہے۔ ایک مشٹنڈا سپاہی صرف دو گھنٹے کی ’’لتروڑ‘‘ سے شہباز شریف سے وائٹ ہائوس اور بگ بین کے اصل ملکیتی کاغذات برآمد کروا لے گا، ہماری پنجاب پولیس اس طرح کے کئی قابل فخر کارنامے پہلے بھی سرانجام دے چکی ہے، یہ سہرا بھی اسی کے سر بندھنا چاہئے۔ لگے ہاتھوں صاف پانی اور ماڈل ٹائون کی فائرنگ اور معصوم لوگوں کی شہادتوں کا اقراری بیان بھی حاصل کر لیا جائے۔ شہباز شریف کی طرح کے خوفناک اور خطرناک مجرم روز روز قابو میں نہیں آتے، اس لئے اس سے سارے حساب انہی دس دنوں میں چکتا کر لینے چاہئیں۔موقع اچھا ہے اسی ریمانڈ کے دوران شہباز شریف سے سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل ذمہ دار ہونے کا اعتراف بھی کروا لیا جائے کیونکہ باوجود کوشش کے ہمیں اس سانحے کا اصل ذمہ دار نہیں مل سکا، چونکہ شہباز شریف ہر برے کام میں ملوث ہے اس لئے لازماً یہ کام بھی انہوں نے کروایا ہو گا۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے وقت شہباز شریف بچہ تھا لیکن اس کی معصومیت پر نہ جائے گا یہ اس وقت سے ہی اقتدار میں آنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اس لئے لیاقت علی خان کے قتل کا پہلا شک اسی پر کرنا چاہئے ۔امید ہے کہ اگر تفتیش میں تھوڑی سختی کی جائے تو لیاقت علی خان کا اصل قاتل اور منصوبہ ساز شہباز شریف ہی نکلے گا۔ مجھے تو اب یہ بھی شک بھی پڑ گیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں بھی شہباز شریف ہی ملوث تھا یہ شک اس لئے پڑا کہ ضیاء الحق کی المناک موت کا سب سے زیادہ فائدہ شریف خاندان کو ہوا اور ان کے خاندان کے اقتدار میں آنے اور 30سال تک حکومت کے مزے لینے کی راہ ہموار ہوئی۔ دیکھئے اگر زرداری پر اس لئے شک کیا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فائدہ اس کو ہوا تو ضیاء الحق کی موت پر فائدہ اٹھانے والے شریف خاندان پر شک کیوں نہ کیا جائے؟شہباز شریف کی گرفتاری وہ تاریخی کارنامہ ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے سارے مجرموں کا سراغ مل سکتا ہے آج تک پاکستان کیخلاف جتنی بھی سازشیں ہوئیں، اربوں ڈالر لوٹنے کی جو کوششیں ہوئیں ان سب کا ذمہ دار لازمی طور پر شہباز شریف ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ اسکو عبرت کی مثال بنائیں تاکہ آئندہ کوئی شہباز شریف پیدا نہ ہو۔