لاہور (ویب ڈیسک) میری شدید خواہش ہے کہ عمران حکومت تبدیلی اور خوشحالی لانے میں ہر صورت کامیاب ہو۔ عمران خان ناکام ہوا تو پاکستان کی مڈل کلاس شدید ترین مایوسی کا شکار ہوگی۔ اس کی پھر سے سیاست میں دلچسپی ختم ہو جائے گی، اسی طرح اگر عمران خان ناکام ہوا تو
نامور کالم نگار سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔سمندر پار پاکستانی شدید تکلیف کا شکار ہوں گے ۔ انہیں ملک میں تبدیلی کی جو امید ہے وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی اور ان میں سے بیشتر کئی سالوں تک پاکستان کی سیاست میں دلچسپی سے ہی تائب ہوجائیں گے۔ مڈل کلاس اور اوورسیز پاکستانیوں کی مایوسی بہت بڑا نقصان ہوگا، اسی لئے میری خواہش ہے کہ عمران ان دونوں طبقوں کی ملک میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے ہر صورت کامیاب ہو۔ بالآخر اقتصادی ٹیم بھی خوابوں کی دنیا سے نکل کر راہ راست پر آنے لگی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 7ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا، آئی ایم ایف کے پاس بھی جایا جارہا ہے۔ عمران خان ٹیم کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ان کی سیاست پر نہیں ان کی معاشی پالیسیوں پر ہے۔ کوئی مانے نہ مانے عمران نے اپنے حامیوں اور مخالفوں کے لئے جو سیاسی بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے، ان کا اصل چیلنج معاشی منصوبہ بندی ہے۔ اس وقت وفاقی سطح پر بحث یہ چل رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے 12,10ارب کا پیکیج لیا جائے یا صرف 4,3ارب کا۔ پیکیج تو ہر صورت میں لینا پڑے گا،
چھوٹا پیکیج لیں گے تو شاید شرائط اتنی سخت نہ ہوں۔ زیادہ بڑا قرضہ لینے کی صورت میں شرائط سخت ہونگی، مہنگائی بھی بڑھے گی لیکن جب پیکیج بڑا ہوگا تو اس سے کچھ نہ کچھ ریلیف بھی ملے گا۔ خسرو بختیار بڑا پیکیج لینے کے حامی ہیں جبکہ اسد عمر چھوٹا پیکیج لینا چاہتے ہیں۔ دیکھیں حتمی فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ نکل‘‘ فارمولا غلط ہے یا صحیح اس کا اصل فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ بظاہر اس پر عمل درآمد جاری نظر آتا ہے۔ یاد رہے ماضی میں ایسے تمام فارمولے ناکام ہوئے تھے، ریاست کی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ سارے انڈے تحریک انصاف کی ٹوکری میں ڈالنے کا نتیجہ غلط بھی نکل سکتا ہے۔ ماضی میں تو اپوزیشن کی سرپرستی بھی کی جاتی تھی مگر شاید اب اپوزیشن بھی نئی بنانے کی طرف بڑھا جائیگا۔ ایک طرف تحریک انصاف ہوگی اور دوسری طرف ن اور پی پی پی کے باغی جو نئی اپوزیشن بنائیں گے اور جنہیں سرکار دربار میں رسوخ حاصل ہوگا۔ بظاہر یہ سب بڑا ہی سہانا اور سائونڈ پروف منصوبہ ہے، مزاحمت کے آثار بھی نہیں ہیں لیکن واقعات اور حالات ہمیشہ کنٹرول میں نہیں رہتے، کوئی بڑا اندرونی یا بیرونی واقعہ اس ساری منصوبہ بندی کو ناکام بھی کرسکتا ہے لیکن سردست اتنا ہی کافی ہے کہ ’’عمران کو چلنے دو‘‘