لاہور (ویب ڈیسک) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ریاست خموشستان میں گونگے کا راج آ گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ گونگا بادشاہ بہت ہی اچھا بوائے تھا۔ تھوڑا نٹ کھٹ ضرور تھا کبھی اِدھر تیر برساتا تھا تو کبھی اُدھر توپ چلاتا تھا۔ سارے محلے کو آگے لگا رکھا تھا۔ نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ نواب شاہ اور لاہور کے لڑکوں کو تو اس نے زچ کر کے رکھ دیا تھا۔ کسی زمانے میں نواب شاہ اور لاہور کے لڑکوں کا طوطی بولتا تھا مگر گونگا بوائے نے الزامات اور مقدمات سے ان کی بولتی بند کر دی۔ گونگے کی رمزیں گونگے کی ماں ہی جانتی ہے۔ پھر بھی گونگا کے کردار سے واضح ہوتا تھا کہ وہ ہر ایک سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا مگر بڑے گھر سے بنا کر رکھتا تھا، نہ اس پر علانیہ اظہارِ خیال کرتا تھا اور نہ ہی اشاروں کنایوں میں بھی ان کا ذکر کرتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ بڑے گھر کی مداخلت پر بھی برا نہیں مناتا تھا اس کو علم تھا کہ گونگا کی اصل طاقت بڑے گھر کی حمایت تھی اور اس کا دور اسی وقت تک چلے گا جب تک اس کی وہاں بنی رہے گی۔ہوا کچھ یوں کہ گونگے کا دور گونگے کی مٹھائی جیسا نکلا۔اس مٹھائی کا ذائقہ تو محسوس ہو رہا تھا مگر ذائقہ بتا نہیں سکتے تھے۔ گونگے کی مٹھائی کا ذائقہ رمزوں میں بتایا جائے تو مزہ نہیں آتا کیونکہ کہانی میں مزہ تب آتا ہے کہ کہانی میں زبان و بیان کی حلاوت ہو اور میٹھے میں بادام، الائچی اور زعفران کی آمیزش ہو۔ آج کا زمانہ بہرحال گونگے کی مٹھائی ہے۔بڑے گھر کے لوگ گونگے کو سادہ سمجھتے تھے۔ اس کے ذریعے سے چاہتے تھے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو اس کو آگے رکھ کر پرانی سیاسی قیادت کو ہٹایا جائے اصل اقتدار و اختیار ٹیکنوکریٹ ماہرین چلائیں مگر چہرہ گونگے کا نظر آئے۔ گونگے کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، بس وہ چاہتا تھا کہ یہ سب کام خاموشی سے ہو، بات پسِ پردہ رہے، یہ کسی کو ظاہر نہ ہو کہ خموشستان میں گونگا بے اختیار تھا۔ ریاست خموشستان میں گونگے کو گونگا، ننگے کو ننگا اور اندھے کو اندھا کہنا انتہائی نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے گونگا یہ چاہتا تھا کہ اندر خانے جو بھی ہو ظاہراً اسے ہی طاقتور، بااختیار اور بااثر قرار دیا جائے۔ مگر بڑے گھر سے کبھی کبھی نادانستہ طور پر حقیقت آشکار ہو جاتی تھی۔ وہاں کے حکمت کار کبھی کبھی بتا دیتے تھے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ گونگا بڑا سیانا بادشاہ تھا، بڑے گھر کی خوشنودی ضرور چاہتا تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ اس کی اپنی انا کو بھی ٹھیس نہ پہنچے، ایک دفعہ میڈیا کے مدارالمہام نے یہ تاثر دیا کہ سارا نظام اور ساری پالیسیاں گونگا نہیں بلکہ بڑے گھر سے بنتی ہیں۔ بس یہ گونگے کے لئے اونٹ پر آخری تنکے کی طرح ثابت ہوا۔ وہ بہت کچھ برداشت کرتا رہا، ٹیم کے اندر تبدیلیوں کا مشورہ بھی مان لیا مگر اب یہ ناقابل برداشت ہو گیا اور وہ پھٹ پڑا۔ بھری محفل میں کہا کہ سیاسی مسائل بھی اگر بڑے گھر نے ہی نمٹانے ہیں اور ان پر تبصرے بھی انہوں نے کرنا ہیں تو پھر سیاسی حکومت کا کیا فائدہ؟ گونگا بادشاہ ضدی بھی تھا وہ ابھی تک اڑا ہوا تھا کہ لاہور کے لڑکوں کو جیل کے اندر دوبارہ سے بند ہونا چاہئے۔ اس کے ایک کرم فرما کرماں والے نے سادگی سے کہہ دیا کہ ’’لاہوری جیل میں زیادہ خطرناک ہو گا اسے باہر ہی رہنے دیں‘‘ اس پر بادشاہ ناراض ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ تھیوریاں رہنے دیں، وہ جیل ہی کے مستحق ہیں، انہیں جیل ہی میں جانا چاہئے، کرماں والے بیچارے خاموش ہو کر رہ گئے۔ خموشستان کی ریاست کو ممی ڈیڈی لڑکوں بالوں نے گونگا لینڈ کا انگریزی نام دے رکھا تھا۔ یہ لڑکے بالے فیس بک اور ٹویٹر پر چھائے رہتے تھے اِدھر کسی نے گونگا بادشاہ کو کچھ کہا اُدھر یہ فائر کھول دیتے ۔ان کی اس لفظی مار دھاڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب ڈرنے لگے ، نقاد خوفزدہ ہو گئے، صحافی قلم کان پر رکھے منشی کا کام کرنے لگے، صرف مثبت باتیں لکھتے لکھتے انہیں آنکھیں بند کرنے کی ایسی پختہ عادت پڑ گئی کہ انہیں ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آنے لگا۔مغل دربار کے چیخے تو کسی اور کام کے لئے مامور تھے، بوڑھے بادشاہوں کی جوانی رخصت ہو جاتی تو پلنگ کے نیچے موجود چیخے، اپنی چیخوں سے انہیں جوان کر دیتے۔ وہ سمجھتے کہ ان کی جوانی ابھی تک اسی طرح برقرار ہے۔گونگا بادشاہ دور کے چیخے کچھ اور کام کرتے تھے یہ بادشاہ کے بڑھاپے کو جوانی کا رنگ نہیں دیتے تھےبلکہ اپنی چیخوں سے حکومت اور گونگے بادشاہ کے ناکردہ کارناموں کو اس شان و شوکت اور فخر سے بیان کرتےتھے کہ خموشستان پر جنت کا گمان ہونے لگتا تھا۔ البتہ اگر کان بند کر لئے جاتے اور چیخوں سے توجہ ہٹا لی جاتی تو پھر مایوسی ہوتی تھی اور یوں لگتاتھا کہ یہاں کچھ بھی نہیں بدلاتھا۔ ترجمان جو مرضی کہتے رہے حقائق یہ بتاتے تھے کہ حالات بدستور خراب تھے اور مزید خرابی کی طرف جا رہے تھے۔ گونگا بادشاہ جیسا بھی تھا بڑے گھر کے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ ایماندار ہے، محنتی ہے اور کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہے۔ ملک میں لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی چہرہ نہیں تھا۔ 600ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اسی لئے گونگے بادشاہ کو فری ہینڈ دیا گیا۔گونگے بادشاہ کے مخالف لڑکے چاہے وہ نواب شاہ کے تھے یا لاہور کے، پہلے ہی زیر ہو چکےتھے۔ بڑے گھر والے نے گونگے بادشاہ کی دیانت اور امانت کو سامنے رکھ کر احتساب سے ڈرایا اور ٹیکسوں کی مد میں خزانہ بھر لیا۔یہ کہانی چلتی رہی خموشستان میں سکوتِ مرگ طاری رہا۔ اگر کوئی چیخ سنائی بھی دیتی تھی تو وہ خوشامدی چیخ ہوتی تھی۔ پھر کیا ہوا کہ اچانک سردی شروع ہو گئی، پت جھڑ کا سماں لگ گیا بڑے گھر نے گونگے بادشاہ کی کھلی امداد بند کر دی، اشاروں کنایوں میں باتیں ہوئیں اور پھر گونگے کے درختوں سے پرندے اُڑ اُڑ کر اِدھر اُدھر جانے لگے۔ ریاست خموشستان میں اچانک عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔ گونگے بادشاہ نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور واپس جا پہاڑوں پر بسا۔ بعد میں کئی دہائیوں تک وہ دھونی رمائے بیٹھا ہوتا اور سائل جھاڑ پھونک کے لئے اس کے پاس آتے۔ وہ چھو منتر سے ہی سب کے مسائل حل کر دیتا، اس کے کئی سیاسی چیلے سیاست کو خیر باد کہہ کر وہیں کے ہو رہے وہ اپنے گونگا گرو کی خدمت کرتے اور اس کے ماضی کے کارناموں کی کہانیاں سناتے۔ گونگا دور کو گزرے صدیاں بیت چکیں لیکن اب بھی اسلام آباد کے پاس کی پہاڑیوں میں آپ کو جہاں دھواں نظر آئے سمجھ لیجئے گا کہ یہ گونگا بادشاہ کی باقیات ہی ہیں۔