لاہور (ویب ڈیسک) سہیل وڑائچ کی بات ہو اور اس میں سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرہ شامل نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے ، جنگ گروپ کے سینئر صحافی رؤف طاہر نے پاکستان کی موجودہ سیاست ، حالات حاضرہ اور عمران خان کی پالیسیوں کے حوالے سے سہیل وڑائچ سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے مخالفین کو ناک آئوٹ کر دیا اور سیاسی رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ کا جو کام، 2008ء سے 2017ء تک نہیں ہوا تھا، وہ اب ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ کم زور معیشت ہے، جو ان سے سنبھالی نہیں جا رہی۔ لگتا ہے ناتجربہ کار لوگ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز سے حکومت چلانے کی کوشش کر رہا ہے، ان بے چاروں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کرنا کیا ہے۔ اگر چھے ماہ تک حالات نہ سنبھلے ،تو معاملہ بہت خراب ہو جائے گا۔ میرے خیال میں سارے معاملات وزیرِ خزانہ پر نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ 2019ء معیشت کے لیے سنگین ترین ہو سکتا ہے۔ ‘‘میرے نزدیک آئین پر عمل نہ کرنا، ہمارے شروع سے لے کر اب تک کے سیاسی ہیجان کا بنیادی سبب ہے۔ کرپشن بھی اسی خامی کا شاخسانہ ہے۔ اگر آپ یہ پوچھیں کہ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کا ذمّے دار سیاست دان، فوج اور عوام میں سے کون ہے؟ تو مَیں ان سب کو اجتماعی طور پر ذمّے دار سمجھتا ہوں۔ یہ ہمارا ہے۔‘‘’’ مَیں اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے خیال میں ہمارے یہاں بھارت سے بہتر الیکشن ہوتے ہیں، لیکن ہماری خامی یہ ہے کہ ہم اپنی چھوٹی خرابیوں کو بڑا کر کے پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے زخم کریدنے میں مزا آتا ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہناتھا کہ ’’میرا خیال ہے جس طرح سیاست دانوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ آئین سے رُوگردانی کریں (جیسے غلام اسحاق خان اور فاروق خان لغاری نے کی) اسی طرح فوج کو بھی حکومت پر قبضے کا حق نہیں، لیکن فوج اور سیکیوریٹی اداروں کی اپنی اہمیت ہے۔ امریکا میں پینٹاگون سے حکومت مشورے لیتی ہے، برطانیہ میں بھی ایسا ہوتا ہے، لیکن حدِ فاصل رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان میں فوج کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ دشمن کا مقابلہ ہو یا آفاتِ ارضی و سماوی، دہشت گردی ہو یا کوئی اور ہنگامی حالت، فوج نے ہمیشہ مُلک کی عزّت اور لاج رکھی ہے۔‘‘’’میرے خیال میں یحییٰ خان اور ضیاء الحق کا دور ایسا تھا، جب مُلک غلط پالیسیز کے سبب خلفشار اور تنزّلی کا شکار ہوا عمران خان کے دور میں حالات یقیناً بہتر ہوں گے۔ مَیں پُراُمید ہوں۔ مجھے یہاں کی مڈل کلاس سے بہت اُمیدیں وابستہ ہیں اور وہی تبدیلی لائے گی۔‘‘ ’’دنیا بھر میں کرپشن ہوتی ہے۔ چین میں سب سے زیادہ سزائیں ملتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہاں کرپشن ختم ہو گئی؟ تو میری رائے ہے کہ عمران خان کرپشن کے بارے میں اتنا شور نہ مچائیں کہ سرمایہ کار ہی بھاگ جائیں اور ترقّی کے دروازے بند ہو جائیں۔ ‘‘’’ نیب قوانین، دنیا کے انصاف کے قوانین سے یک سر مختلف ہیں۔ مثلاً کہیں ملزم سے یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ اپنی بے گناہی کا ثبوت دے، جب کہ یہاں اسے ریمانڈ پر کئی کئی ماہ جیل میں رکھا جاتا ہے۔ پھر نیب کے مقدمات بے جا طوالت کا شکار ہیں اور ان کے قوانین یک طرفہ و بے رحمانہ ہیں۔