لاہور (ویب ڈیسک) نام طالب علم: عام خان جماعت: نہم ۔۔ مضمون: عدل و انصاف امتحان: سالانہ ۔۔ سوال:وفاقی وزیر قانون کے ایک سالہ کارناموں پر روشنی ڈالیں۔ (خامیوں کا ذکر کرنے سے نمبر کاٹ لئے جائیں گے صرف خوبیاں بیان کریں) جواب: وفاقی وزیر قانون اس وقت ملک کے سب سے بڑے وکیل، قانون دان، مفکر اور مدبر ہیں۔
نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اے کے بروہی، شریف الدین پیرزادہ اور عزیز منشی کے بعد سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا اس کو انہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں، اپنے خوبصورت چہرے اور دلکش مسکراہٹ سے پورا کر دیا ہے۔ اپنے پیش روئوں کی طرح وہ بھی آئین کی انہی تشریحات پر یقین رکھتے ہیں جس سے وفاق مضبوط ہو اور اس ملک کے چور عوام کے حقوق کم سے کم ہوں۔ موصوف اتنے اصول پسند ہیں کہ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے اصول پسند ججوں کو بھی اس معیار پر ناپا ہے جو دنیا میں کمیاب ہے۔ وہ چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کو بھی انہی پیمانوں پر ناپنا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں یکساں انصاف کا نظام رائج ہو۔ وہ دن دور نہیں جب جسٹس رضا اور جسٹس جاوید اقبال بھی جسٹس عیسیٰ کی طرح پیشیاں بھگت رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے ایسا شاندار انصاف اور احتساب کا نظام اس سے پہلے کوئی پیش نہیں کر سکا۔ وزیر موصوف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ وہ شہرت سے دور بھاگتے ہیں، گمنام رہنا چاہتے ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس انہوں نے تیار کروایا مگر وہ یہ مانتے نہیں کراچی کو آرٹیکل 149کے تحت وفاقی علاقہ بنانے کی بات انہوں نے کی، مگر اب وہ اس کی تردید کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس ان کے ایما پر تیار ہونا تھا مگر وہ کبھی مانیں گے نہیں۔
نیب کے خلاف قانون سازی کا سارا کریڈٹ بھی انہیں جاتا ہے مگر وہ اتنے عظیم ہیں کہ اتنے بڑے کارنامے کا کریڈٹ بھی لینے سے انکاری ہیں۔ سوال: عدلیہ کے 70سالہ شاندار ماضی اور بالخصوص ’’افتخاریہ عدل‘‘ اور ’’نثاریہ عدل‘‘ کے اہم نکات بیان کریں۔ تجزیہ کا مثبت ہونا شرط ہے۔ جواب: پاکستانی عدلیہ کی تاریخ اس کے شاندار ماضی کی گواہ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اگر جسٹس منیر جیسا لائق فائق جج، مولوی تمیز الدین کیس میں حکومت کے حق میں فیصلہ نہ دیتا تو ریاست کے تاروپود بکھر جاتے۔ آج نظریہ ضرورت کا نام لے کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے لیکن اگر جسٹس منیر یہ تاریخ ساز فیصلہ نہ کرتے تو شاید عدلیہ کا ادارہ ہی ختم کر دیا جاتا، انصاف اور قانون کا محکمہ ہی ختم کر دیا جاتا۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کو قانونی جواز نہ دیا جاتا اور بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو اس ملک کے قابل ترین ججوں کو نکال دیا جاتا اور پھر اس مظلوم قوم کا جو حال ہوتا وہ دنیا دیکھتی۔ بالکل یہی مرحلہ آمر جنرل پرویز مشرف کو قانونی جواز دینے کے مقدمات میں درپیش آیا۔ فاضل جج صاحبان کے پاس دو راستے تھے ایک آسان، یہ کہ ججی چھوڑ کر الگ ہو جاتے اور اپنی اس خود غرضی کی بنا پر نام و نمود اور شہرت حاصل کرتے۔چند ججوں نے یہ آسان راستہ اپنایا لیکن زیادہ تر فاضل جج صاحبان نے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور وہ یہ کہ عدل و انصاف کے قلعے پر قبضہ برقرار رکھا جائے ایک مقدمے میں جنرل مشرف کو رعایت دیکر 99فیصد دیگر مقدمات میں لوگوں کی دادرسی کی جائے۔ماضی کی انہی شاندار روایات پر عمل کرتے ہوئے افتخاریہ عدل نے تو رہتی دنیا تک انصاف کے جھنڈے گاڑ دیئے انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ ان کا نام ادارے سے بھی اونچا ہو گیا۔
ان کے فیصلے دنیا بھر کے فیصلوں سے بھی بڑے ٹھہرے، اسٹیل مل کا مقدمہ ہو، بلوچستان میں سونے کی کانوں کا معاملہ ہو یا پھر کراکے رینٹل پاور کا قضیہ ہو، ہر معاملے میں انہوں نے شدید حب الوطنی دکھاتے ہوئے جھوٹے بین الاقوامی اصولوں کو تباہ کر کے دکھایا۔ ان فیصلوں کی وجہ سے ملک کو آج تک جرمانے اور تاوان ادا کرنا پڑ رہے ہیں لیکن حب الوطنی کے لئے یہ سب کچھ تو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نثاریہ عدل نے تو سابقہ ریکارڈ بھی توڑ دیئے۔ اسی زمانے میں ہر بڑے اور چھوٹے کے لئے انصاف کی برابری کا تاثر عام ہوا، ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم کو ایک عام شہری کی طرح عدل و انصاف کے سنگلاخ راستوں سے گزرنا پڑا اور پھر اسے کوئی رو رعایت دیئے بغیر سزا سنا کر یہ اصول بنا دیا گیا کہ یہاں طاقتور کا بھی احتساب ہو گا۔ نثاریہ عدل نے ایسی شاندار روایات بنائی ہیں کہ آنے والی نسلیں بھی ان سے مستفیض ہوتی رہیں گی۔ سوو موٹو کی طاقت سے کام لیتے ہوئے انہوں نے ملک کے 99فیصد مسائل حل کر دیئے تھے، انہیں توسیع مل جاتی تو ملک سے مسائل بالکل ختم ہو جاتے۔ سوال: فاضل چیف جسٹس کھوسہ کے حالیہ حکیمانہ خطبات کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالیں نیز میڈیا کی آزادی محدود ہونے کے حوالے سے میڈیا کے اندر ہی سے ذمہ داروں کا تعین بھی کریں۔ جواب: فاضل چیف جسٹس کھوسہ صاحب زیادہ تر تو اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں لیکن حال ہی کے اپنے دو خطبات میں انہوں نے معاشرے اور نظام کی خرابیوں کی بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے احتساب کے یکطرفہ ہونے پر بھی انگلی اٹھائی ہے۔ فاضل چیف جسٹس ماہ دسمبر تک یعنی اگلے 3ماہ تک خاص و عام کو انصاف فراہم کرتے ہوئے عوامی دادرسی کا کام جاری رکھیں گے۔ فاضل چیف جسٹس، افتخاریہ اور نثارثہ ادوار کی طرح غیر ضروری عدالتی فعالیت کے قائل نہیں اسی لئے انہوں نے سوو موٹو کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ دوسری طرف افتخاریہ اور نثاریہ ادوار میں ایک ایک منتخب وزیراعظم کو سزا سنا کر فارغ کیا گیا جس سے لوگوں کی عدلیہ سے توقعات بہت بڑھ گئی تھیں۔ فاضل چیف جسٹس کھوسہ کے حکیمانہ خیالات کو سن کر یہ نہیں لگتا کہ وہ افتخاریہ اور نثاریہ ادوار کی طرح پھر سے کسی وزیراعظم کو فارغ کریں گے۔ یہ بھی نہیں لگتا کہ کسی نئے ڈیم کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کی تحریک شروع کی جائے گی اور نہ ہی یہ لگتا ہے کہ وہ نثاریہ روایت کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ڈیم کی حفاظت فرمائیں گے، لگتا ہے وہ خاموشی سے ریٹائر ہو کر ایک نئی اور شاندار روایت ڈالیں گے۔ میڈیا کی آزادی محدود کرنے کا ذمہ دار بھی میڈیا ہے۔ آئین میں میڈیا کو مکمل آزادی دی گئی ہے اسے چاہئے کہ عدالت عظمیٰ کے پاس شکایت لے کر جاتا اگر اسے واقعی کوئی شکایت تھی مگر مسئلہ یہ ہوا کہ افتخاریہ اور نثاریہ ادوار میں میڈیا کا حوصلہ اس قدر ٹوٹا کہ انہیں خدشہ پیدا ہو گیا کہ اگر ہم نے پابندیوں کی شکایت کی تو کہیں باقی کی رہی سہی آزادی بھی عوامی اور قومی مفاد کے نام پر چھن نہ جائے۔بہرحال جو بھی وجوہات ہیں کہ اس آزادی کے محدود ہونے کی سراسر ذمہ داری میڈیا پر ہے، عدلیہ اس کی قطعاً ذمہ دار نہیں۔ میڈیا کا فرض تھا اور ہے کہ وہ خود اپنی آزادی کی حفاظت کرے۔