لاہور( نیوز ڈیسک) سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ حیران ہوں کہ ہم خوف زدہ بھیڑوں بکریوں میں یہ سرکش بوبکرا کیسے پیدا ہوگیا، ہم گھر بیٹھے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں اور وہ برسرِ عدالت کہتا ہے کہ جتنا مرضی ریمانڈ دے دیں میں تو وکیل بھی نہیں کرونگا، یہ عجیب شخص ہے، امیر ترین ہے مگر گھر کا فرنیچر 50سال پرانا ہے۔ اپنے تازہ ترین کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ ” حیران ہوں کہ ہم خوف زدہ بھیڑوں بکریوں میں یہ سرکش بوبکرا کیسے پیدا ہوگیا، ہم گھر بیٹھے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں اور وہ برسرِ عدالت کہتا ہے کہ جتنا مرضی ریمانڈ دے دیں میں تو وکیل بھی نہیں کرونگا، یہ عجیب شخص ہے، امیر ترین ہے مگر گھر کا فرنیچر 50سال پرانا ہے۔ہمیں چار دمڑیاں مل جائیں تو ہم گھر کی آرائش بدل دیتے ہیں۔ وہ ائیر لائن کا مالک ہے مگر عام مسافروں کی طرح اکانومی میں سفر کرتا ہے۔ وزیراعظم تھا تو پروٹوکول اس کا حق تھا مگر تب بھی عام لوگوں کی طرح تلاشیاں دے کر ائیر پورٹس سے گزرتا تھا۔ ہم شہرت و پروٹوکول کے شوقین لوگ اور یہ اس سے دور بھاگنے والا شخص۔ یہ ہم میں کیسے پیدا ہوگیا۔ یہ شخص عجیب ہے بس عجیب۔کوئی بہت پرانی بات نہیں جب یہ وزیراعظم تھا تو اس ریاست کے بڑے اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، آج بھی وہی بڑے برقرار ہیں مگر ان کا ممدوح جیل میں بند ہے۔ اس مردِ کوہستانی کی ایمانداری اور پروفیشنلزم کی تب بھی تعریفیں ہوتی تھیں اب بھی ہوتی ہیں، اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک وزیر مملکت جو اب تحریک انصاف کے حمایت شدہ وزیراعلیٰ ہیں، نے بتایا کہ یہ بندہ سیاستدان نہیں پروفیشنل ٹیکنو کریٹ ہے۔ ایک میٹنگ کا احوال سناتے ہوئے اس نے بتایا کہ دنیا بھر کے پروفیشنل ماہرین ایل این جی پر میٹنگ کررہے تھے جب یہ ٹیکنو کریٹ وزیر بولا تو سب پر جادو سا ہوگیا، سب اس کی معلومات اور موضوع پر اس کی گرفت پر حیران پریشان ہو گئے۔ وزیراعلیٰ کی طرف سے اس کی تعریفیں سن کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم نااہلوں میں اگر کوئی اہل آگیا ہے تو ہم اسے جیل پہنچا کر ہی چھوڑیں گے، میرا یہ یقین درست ثابت ہوا اور وہ اب جیل میں ہے اور دکھاؤ اپنی اہلیت۔ دنیا میرے جیسے اوسط ذہن لوگوں کی ہے، ہم اپنے سے بالاتر ذہنوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں، اسی روایت پر عمل جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ایسا سادہ ارب پتی زندگی میں نہیں دیکھا، دو موم بتیاں جلا کر پرانے پلنگ کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر برتھ ڈے مناتا ہے، سادہ کپڑے پہنتا ہے، عام گاڑی میں پھرتا ہے، والدین والے پرانے گھر میں ہی رہتا ہے، نہ پھوں پھاں نہ شوں شاں، یہ کیسا آدمی ہے؟ ایسی دولت اور ایسے عہدوں کا کیا فائدہ اگر آپ کا معیار زندگی نہ بدلے، آپ کو دیکھ کر یہ پتا ہی نہ چلے کہ آپ امیر ہیں، وزیر ہیں یا وزیراعظم ہیں۔ ایسی امیری، ایسی وزیری کا کیا کرنا ہے؟ مگر یہ ایسا ہی ہے، منفرد ہے۔ ہمارے ملک میں یہ ایک ہی پیس (Piece) ہے اس لئے اس کا ٹھکانہ جیل ہی ہونا چاہئے، وگرنہ کل کلاں کو اس کا سایہ ہم جیسے دنیا داروں پر پڑ گیا تو ہم بھی خراب ہوں گے۔ اسے جیل میں رکھنا ہی بہتر ہے۔مجھے تو یہ شخص پاگل لگتا ہے، بالکل ٹیڑھا، بھلا کون ہے جو خود روز اعلان کرتا پھرے ’’آبیل مجھے مار‘‘۔ یہ پاگل کہتا تھا کہ ایل این جی کے بارے میں پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھو، بار بار کہتا رہا میری وزارت عظمیٰ میں جو فیصلے ہوئے وہ شفاف تھے، میں جواب دینے کو تیار ہوں۔ پھر یہ پاگل بار بار نواز شریف کے حق میں بیان دیتا تھا، ہر ہفتے اسے ملنے جیل چلا جاتا تھا، اسے کچھ تو دنیا داری کی سمجھ ہونا چاہئے، وقت بدل چکا ہے ایسے دور میں خواجہ آصف کی طرح اپنا دامن بچا کر چلا جاتا ہے، مگر یہ بالکل ٹیڑھا تھا، اس لئے جیل کی سیر کررہا ہے، خواجہ آصف سے ہی کچھ دنیا داری سیکھ لیتا تو آج اسمبلی میں بیٹھا تالیاں بجا رہا ہوتا۔ پاگلوں اور ٹیڑھوں کا انجام یہی ہوتا ہے جو اس کا ہوا۔ اس شخص کے کوائفِ زندگی میں لکھا ہے کہ اس نے کیلی فورنیا یونیورسٹی لاس اینجلس اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے تو اس پر یقین نہیں ہے، بھلا باہر کے اچھے اداروں کا پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ جیلوں کے دھکے کیوں کھائے، اگر عقل مند ہوتا اور واقعی باہر کا پڑھا لکھا ہوتا تو وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح لندن اور امریکہ جاکر وقت گزارتا اور جب حالات سازگار ہوتے تو واپس لوٹ آتا۔بابو لوگوں کا کیا کام ہے سیاست کے گند میں ہاتھ ڈالنا، جیلوں میں سڑنا یا پھر عدالتوں کے دھکے کھانا۔ باہر سے پڑھے لکھے تو صرف حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں سزاؤں کے لئے نہیں۔ اسی لئے مجھے لگتا ہے یہ باہر کا تعلیم یافتہ نہیں یہیں مری کی کسی گلی کا نام کیلی فورنیا رکھ کر اس نے وہاں کی ڈگری لے لی ہے اسی لئے لندن اور نیویارک میں اسے پناہ نہیں مل سکی۔میں خوش ہوں کہ ہم خوف زدہ بھیڑوں کے درمیان پیدا ہونے والا یہ بوبکرا، ہم ایک جیسے نارمل اور ابن الوقت لوگوں میں یہ عجیب شخص، ہم نام و نمود کے خواہشمندوں میں یہ سٹا ہوا آدمی جیل میں ہے، میں ڈرتا ہوں کہ یہ پروفیشنل ٹیکنو کریٹ کہیں باہر نکل کر ہماری دنیا کو آلودہ نہ کردے۔ عام سی گاڑی رکھنے والا یہ سادہ آدمی، جیل سے باہر نکل آیا تو اس نے ہماری اور حکمران طبقے کی آسائشوں پر سوال اٹھا دینا ہے، یہ شخص پورے معاشرے کا مجرم ہے، یہ ہمارے نظام کا مخالف ہے، یہ ہماری اقدار کا مخالف ہے، یہ اشرافیہ اور عوام سب کا مخالف ہے، اسے ہر صورت جیل میں بند رکھنا چاہئے، اس کی زبان بندی کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہیں یہ بول پڑا تو ہمارا یہ خوبصورت خواب ٹوٹ نہ جائے۔مجھے صرف ایک اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں مقدمات میں یہ بےگناہ نہ نکل آئے اگر ایسا ہوا تو آسمان ٹوٹ پڑے گا، ہم کل کو اپنے بچوں کو کیا جواب دینگے کہ ایک بوبکرا، ایک عجیب پاگل شخص ہم سے جیل میں بند نہ رکھا جا سکا۔