تحریر : اختر سردار چودھری
پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر وطن کے دفاع کیلئے جام شہادت نوش کرنے والوں کو دیا جاتا ہے اور اب تک دفاع وطن کیلئے قربانی کی بے مثال داستانیں رقم کرنے والے صرف دس افراد کے حصے میں آیا ہے ۔سوار محمد حسین شہید پاک فوج کے وہ پہلے سپاہی ہیں جن کو نشان حیدر دیا گیا ۔ان سے پہلے یہ صرف آفیسرز کے حصے میں آیا تھا ۔اب تک جن دس افراد کو نشان حیدر دیا جا چکا ہے، ان کے نام یہ ہیں ۔کیپٹن راجہ محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید،میجر محمد اکرم شہید،میجر شبیر شریف شہید ،لانس نائیک محمد محفوظ شہید،کیپٹن کرنل شیر خان شہید،حوالدار لالک جان اورسوار محمد حسین شہیدوغیرہ ۔سوار محمد حسین کے علاوہ نشان حیدر جن کو دیا گیا وہ سب آفیسرز تھے ۔جوان سوار محمد حسین جنجوعہ شہید18 جون 1949 ء کو ڈھوک پیر بخش تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے، گائوں ڈھوک بخش جو اب ان کے نام کی مناسبت سے ڈھوک محمد حسین جنجوعہ کے نام سے جانا جاتاہے۔
ان کے والد روز علی زمیندار تھے اور ڈھوک ہی میں کھیتی باڑی کرتے تھے ۔لیکن محمد حسین کے خاندان کے اکثر افراد نے فوج میں ملازمت کی اور اعلی عہدوں پر رہے ۔مثلاََ ان کے نانا حوالداراحمد خان نے پہلی جنگ عظیم میں چار میڈل حاصل کئے تھے، اپنی فوج میں دلیرانہ خدمات پر اسی طرح دوسری جنگ عظیم کی بات ہے کہ ان کے ایک عزیز شہامد خان نے وکٹوریہ کراس حاصل کیا تھا ۔سوار محمد حسین شہید جنجوجہ قوم سے تعلق رکھتے تھے۔انہیں گھر میں ہی قرآن کی تعلیمات دی گئی ۔اس کے بعد پرائمری سکول جھنگ پھیرو میں داخل کر وا دئیے گئے ۔اس سکول سے پانچ کلاس پاس کیں ۔پھر انہیں دیوی ہائی سکول میں داخل کر وا دیا گیا ۔جہاں میٹرک میں فیل ہو گئے ۔یہ 1965 ء کا زمانہ تھا ۔گھر والے چاہتے تھے کہ محمد حسین تعلیم کو جاری رکھیں ،لیکن وہ تو کسی اور دنیا کے باسی تھے ۔انہیں اپنا جسم بنانے ،دودھ ،دہی ،لسی ،کتابوں کے مطالعہ،کبڈی ،فلاحی کاموں کا شوق تھا۔
انہوں نے مزید تعلیم سے انکار کر دیا ۔ 1966 ء میں جاملی کے مقام پر فوج میں عام بھرتی کا اعلان کیا گیا۔ سوار محمد حسین اپنے ایک دوست جن کا نام دل پذیر تھا کے ساتھ وہاں جا پہنچے اور فوج میں ریکروٹنگ آفیسر کے سامنے بھرتی کی غرض سے پیش ہوئے ۔دونوں منتخب ہو گئے ۔اس کی وجہ محمد حسین کا کستری جسم تھا ۔فوج میں بھرتی ہونے کے کوئی دو سال بعد 1968 ء میں سوار محمد حسین کی شادی ان کی خالہ زاد ارزاں بی بی سے ہوئی۔ سوار محمد حسین کے دو بچے تھے پہلے بیٹی رخسانہ اور اس سے چھوٹا بیٹا منور محمد۔ 1971 ء کی جنگ شروع ہوئی تو سوار محمد حسین شہید اس وقت شکر گڑھ سیکٹر تعنیات تھے۔
ان کا کام وائرلس پر بیٹھ کر احکامات وصول کرنا اور آگئے بڑ ھانا تھا ۔لیکن جب انہوں نے اپنے ساتھی جوانوں کو دیکھا کہ وہ کتنی تند دہی سے دشمن کے خلاف برسرپیکار ہیں تو ان سے رہا نا گیا ۔وہ اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد کے پاس جا پہنچے اور انہیں درخواست کر کے اپنی ڈیوٹی اسلحہ سپلائی کرنے والوں میں لگوا لی ۔تا کہ جنگ میں عملی طور پر حصہ لے سکیں ۔اس دوران کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد سے جو سوار محمد حسین کی گفتگو ہوئی وہ سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔سوار محمد حسین نے کمانڈ نگ آفیسر کرنل طفیل محمد کو سلوٹ کیا اور کہا” مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کو اپنے جوانوں کو اسلحہ سپلائی کے لئے رضاکارانہ خدمت کی ضرورت ہے ؟”
کرنل صاحب نے اسے غور سے دیکھااور کہا”ہاں ”
”سر۔۔۔۔میں اس خدمت کے لئے خود کو پیش کرتا ہوں”
”تم کس رجمنٹ سے ہواور یہ کام کیوں کرنا چاہتے ہو”
”میں محاذ سے دور اپنی گاڑی میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا سرمیں اپنے جوانوں کو اسلحہ سپلائی کر کے اپنا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں””اچھا او کے ”تھینک یو سر۔ محمد حسین کے چہرے پر خوشی کی سرخی چھلک اٹھی۔ اس نے ایڑیاں بجا کر سیلوٹ کیا اور متعلقہ شعبے کی طرف بڑھ گیا۔اب انہیں ایک ا سٹین گن بھی مل گئی ۔یوں اسلحہ سے اور شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن سے لیس سوار محمد حسین نے جنگ 1971 ء میں عملی جہاد کے میدان میں قدم رکھ دیا۔اس وقت سوار محمد حسین کی عمر 22 برس تھی ۔ ان کے جوش و جذبہ کا عالم یہ تھا کہ ایک دن تن تنہا ایک مورچے میں بیٹھ کر دشمن پر دھواں دھار فائرنگ شروع کر دی اور دشمن کے درجن بھر فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
واپس آ کر انہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو بتایا کہ وہ دشمن کے درجن بھر سے زائد سپاہیوں کو جہنم رسید کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوزیشن کا پورا نقشہ بھی بنا لائے ہیں تو کرنل طفیل محمد نے انہیں شاباش دی۔ اس معرکے میں سوار محمد حسین نے دشمن کے 16 شرمن اور سنچورین ٹینک خود تباہ کیے جو ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔اسی روز پاک فوج نے کجگل کے مورچے پر قبضہ کر لیا۔ سوار محمد حسین شہید 9 دسمبر 1971 ء کو گشت پر تھے جب موضع ہرڑ خورد میں ایک گائوں کھیڑا پہنچے تو ان کو دشمن کا ایک خفیہ ٹھکانہ دکھائی دے گیا۔ انہوں نے اپنی ا سٹین گن نکالی اور دشمن پر فائرنگ شروع کر دی۔ دشمن کے کئی فوجی ہلاک کر دئیے۔
یہ 10 دسمبر 1971 ء کا تاریخی دن اور سہ پہر کا وقت تھا۔ سوار محمد حسین شہیدنے بے مثال جرات و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مورچے سے باہر قدم رکھا اور فائرنگ سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہوئے خاموشی سے دشمن کے اگلے مورچوں تک چلے گئے ۔واپس آکر دشمن کی پوزیشن بتائی پاک فوج نے حملہ کیا دشمن کوجس کی توقع نہ تھی نہ وہ اس کے لئے تیار تھا۔اچانک اور اس قدر شدید حملے نے دشمن کے اوسان خطا کر دئیے اس حملے میں دشمن کے 18 جدید ترین ٹی پچپن ٹینک نیست و نابود ہو ئے۔ مارے جانے والے فوجی اور زخمیوں کا شمار اس وقت ممکن نہ تھا، یہ کارنامہ سوار محمد حسین شہید کی بروقت اور درست راہنمائی کی مرہونِ منت تھا،جس کے لئے انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی پوزیشن معلوم کی تھی۔گھمسان کی لڑائی جاری تھی ۔پاک فوج اور دشمن کی فوج ایک دوسرے پر زبردست گولہ باری کر رہے تھے۔
جب بھی دشمن کا کوئی ٹینک تباہ ہوتا،، سوار محمد حسین شہید اپنی جگہ سے اٹھ کر جوشِ ایمانی سے لبریز نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری اس طرح بلند کرتے ۔ گولیوں کی بوچھاڑ آئی اور سوار محمد حسین شہید کا سینہ چھلنی کرتی ہوئی نکل گئی۔آخری بار سوار محمد حسین شہید نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور مرتبہ شہادت پا گے۔اس وقت سہ پہر کے چار بج رہے تھے۔ سوار محمد حسین شہید کے کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد نے بعد میں بتایا کہ ”اگلے مورچوں پر جب پاک فوج حملوں میں مصروف تھی تو میرے سیکنڈ ان کمانڈر میجر امان اللہ نے وائرلیس پر مجھے سوار محمد حسین شہید کی شہادت کی اطلاع دی۔ ” سوار محمد حسین جب شہید ہوئے تو جنگ کے حالات تھے ان کا جسد خاکی ان کے گاؤں نہیں پہنچایا جا سکتا تھا، اس لئے ان کو وہیں محاذ پر ہی دفنا دیا گیا ۔ ایک ماہ کے بعد ان کے جسدخاکی کو وہاں سے نکال کر ان کے گاؤں میں لایا گیا مگر ان کے دادا نے کسی کو بھی شہید کا دیدار نہ کرنے دیا۔
تقریبا ً تین سال کے بعد پاک فوج نے آپ کا مزار بنانے کیلئے آپ کا تابوت مبارک قبر سے نکالا تو دادا نے علماء کرام کہ مشورے سے تابوت کو صرف چہرے کے حصے سے کھولا تواب بھی خون تازہ تھا اور پورا علاقہ خوشبو سے بھر گیا پورے گاؤں نے شہید کا دیدار کیا ۔ شہادت کے تیسرے سال بھی وہ ایسے ہی تھے جیسے ابھی ابھی انہیں شہید کیا گیا ہو بے شک شہید کو موت نہیں ہے۔شہید سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں جان دے۔ مثلاً اپنے وطن کی حفاظت یا اپنے مذہب کی حفاظت کے لیے جنگ لڑتے ہوئے جان دے دے۔ اسلام میں شہید کا مرتبہ بہت بلند ہے اور قرآن کے مطابق شہید مرتے نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اللہ ان کو رزق بھی دیتا ہے مگر ہم اس کا شعور نہیں رکھتے۔
اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
جب جنگ ختم ہو چکی تو صدر جناب بھٹو صاحب اگلے مورچوں کے معائنے کے لیے گئے تو انہیں انہیں سوار محمد حسین شہید کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات اور آخری بے مثال کارنامے سے آگاہ کیا۔ تو جناب بھٹو اس عظیم شہید کے حالات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے سوار محمد حسین شہید کے لئے نشانِ حیدر کا اعلان کیا۔
تحریر : اختر سردار چودھری