ملک علی احمد اعوان کا تعلق ضلع سیالکوٹ کے کوٹری لوہارا پوسٹ آفس کے نزدیک گائوں ماہموجایا سے تھا وہ چھ بھائیوں اور چار بہنوں میں دوسرے نمبر تھا،بچپن سے ہی ماں باپ کا فرمانبردار رہا، کم عمری میں ہی اسکول سے واپسی پر والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں ان کی مدد کرتا تو گھر میں والدہ کی خدمت گزاری میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑتا،والدین نے بچپن سے ہی نماز کا پابند کردیا تھا جبکہ قرآن کی تعلیم بھی دل جمعی سے حاصل کرتا،علی احمد کو گھر میں دس بہن بھائیوں کی پرورش کے لئے والدین کی محنت و مشقت کا بھی احساس تھا وہ اکثر اپنی ماں سے سرداراں بی بی سے اس بات کا اظہار بھی کرتاکہ اسکول چھوڑ کر والد کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا چاہتا ہے تاکہ گھر کی آمدنی میں اضافہ ہو لیکن ماں ہمیشہ کہا کرتیں کہ بیٹا تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب علی احمد بیس برس کا لمبا چوڑا جوان تھا گھر کے حالات بھی کچھ بہتر ہوچکے تھے ان ہی دنوں گائوں میں پاک فوج کی بھرتی ٹیم آئی ہوئی تھی علی احمد نے والدین سےفوج میں بھرتی کی خواہش کا اظہار کیا جس پر والد نے کہا بیٹا تم سے بڑا بھائی موجود ہے اسے فوج میں بھرتی ہونے دو تم کھیتی باڑی میں میری مدد کرنا لیکن علی احمد پر فوج میں جانے اور ملک کے لئے جاںنثار کرنے کا ایسا شوق سمایا ہواتھا کہ والد نے مسکراہٹ کے ساتھ اس کو فوج میں جانے کی اجازت دے دی،بھرتی کے فوراََ بعد علی احمد کو فوجی تربیت کے لئے اکیڈمی بھیج دیا گیا جہاں چند ماہ گزار کروہ واپس آیا تو اس کی شخصیت ہی بدل چکی تھی وہ بہت سنجیدہ ہوگیا تھا والدین سے اس کی قربت میں بھی اضافہ ہوگیاتھا وہ اکثر ماں کو فوجی جوانوں کے بہادری کے واقعات سناتا،اب علی احمد کو فوج میں گئے ہوئے پانچ برس گزر چکے تھے اور وہ پچیس برس کا جوان تھا، اس کی والدہ نے علی احمد کے لئے لڑکیاں دیکھنا شروع کردیں وہ چاہتی تھیں کہ جتنا خوبرو اور پر کشش ان کا بیٹا ہے ان کی بہو بھی اتنی خوبصورت ہونی چاہئے لیکن علی احمد ابھی شادی کیلئے تیار نہ تھا وہ جب بھی چھٹیوں پر آتا ہمیشہ ہی والدہ سے ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کی بات کرتا، یہ اکہتر کا زمانہ تھا مشرقی پاکستان میں جنگ جاری تھی لیکن بھارت نے مغربی پاکستان کی جانب بھی دبائو بڑھا دیا تھا، بھارت اپنی فوجیں سیالکوٹ اور جموں کشمیر کے بارڈر پر پاکستانی سرحدوں کے بالکل قریب لے آیا تھا اورایک روز رات کی تاریکی میں بھارت نے پاکستان کے سرحدی علاقے بجوات کے کچھ علاقے پر قبضہ کرلیا جسے آزادکرانے کے لئے پاک فوج نے بھی فوری آپریشن کا فیصلہ کیا،علی احمد جو اپنے گائوں ماہموجایا چھٹیوں پر آیا ہوا تھا کو فوری طور پر واپس پہنچنے کا حکم ملا،وہ اس روز آخر ی دفعہ اپنے والدین سے ملا اورکہا کہ دعا کریں کہ دشمن کو نیست و نابود کرتے ہوئے شہادت کارتبہ حاصل کرلوں، والدین نے اپنے بیٹے کے لئے غازی بن کرآنے کی دعا کرتے ہوئے اسے رخصت کیا، علی احمد کو سیالکوٹ بائونڈری پر ہی تعینات کیا گیا، جہاں گھمسان کی لڑائی جاری تھی،روز ہی دشمن پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا اور روز ہی پاک فوج کے جوان اپنے سینے پر دشمن کا حملہ روک کر اسے ناکام بناتے،ورکنگ بائونڈری پر بھارت کے فضائی حملے بھی جاری تھے جن پر پاک فوج کے جوان فائر کرتے، کئی دن تک اپنے مورچے پر ڈٹے رہنے کے بعد سپاہی علی احمد اور ان کے ساتھیوں کو پیچھے آنے کے احکامات ملے اور نئی کمک پہنچانے کی اطلاع بھی موصول ہوئی لیکن علی احمد کو اندازہ تھا کہ نفری کی کمی کے باعث مورچہ خالی کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے لہذا انھوں نے اپنے افسران سے درخواست کی کہ وہ مزید اپنی چوکی پر رہنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں دشمن کی فائر پوزیشنوں کا پتہ ہے لہذا وہ بہتر طو رپر دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہیں،پھر ایک صبح دشمن اپنی پیدل فوج کے ساتھ پاکستانی علاقے پر حملہ آور ہوا،سپاہی علی احمد اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی فوجیوں کو شدید فائرنگ کا نشانہ بنایا دشمن پلٹا تو علی احمد بھی دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے اس کی طرف لپکے لیکن کچھ ہی دیر بعد دشمن مزید کمک کے ساتھ ایک بار پھر حملہ آور ہوا اور دشمن بھرپور فائرنگ کررہا تھا ان کے ساتھیوں نے علی احمد کو واپس مورچے میں آنے کو کہا لیکن وہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے دشمن پر فائرنگ میں مصروف تھے کہ اچانک دوسری جانب سے آنے والی بھارتی فوج کی گولیوں نے سپاہی علی احمد کا جسم چھلنی کردیا وہ شدید زخمی حالت میں اپنے مورچے میں آگرے ان کے ساتھی انھیں سنبھالنے کی کوشش کررہے تھے لیکن علی احمد کے منہ سے صرف کلمہ طیبہ کی آواز ہی سنائی دی اور وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے،ان کے ساتھیوں نے اپنے افسران کو علی احمد کی بہادری اور شہادت سے آگاہ کیا، پچھلے مورچوں سے جوانوں کی ٹیم آئی جو علی احمد کو پیچھے مورچے پر لے کر گئی، اور اسی رات پورے اعزاز کے ساتھ سپاہی علی احمد شہید کو ان کے گائوں ماہموجایا پہنچایا گیا،جہاں شہید کے والد ملک عبدالعزیز اعوان اور والدہ سرداراں بی بی نے انتہائی صبر و شکر کے ساتھ اپنے شہید بیٹے کا جنازہ وصول کیا، بارڈر کے نزدیک ہونے اور جنگ کے باوجود اس روز گائوں میں رونق تھی پورے فوجی اعزاز کے ساتھ علی احمد شہید کی تدفین کی گئی، شہید کی والدہ سرداراں بی بی سے جب علی احمد اعوان کی تدفین کے لئے آنے والے اعلیٰ فوجی افسر نے کسی بھی قسم کے کام کے لئے دریافت کیا تو شہید کی بلند حوصلہ والدہ نے کہا کہ وہ اپنے ایک اور بیٹے کو فوج میں بھرتی کرانا چاہتی ہیںتو ساتھ آنے والے فوجی افسر کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور اس نے کہا جس قوم میں آپ جیسی مائیں زندہ ہیں وہ قوم کبھی شکست نہیں کھا سکتی اور اگلے چند دنوں میں علی احمد اعوان کا ایک اور بھائی بھی فوج میں بھرتی ہوگیاتھا،یہ واقعہ سناتے ہوئے علی احمد اعوان کے جاپان میں مقیم بھائی ملک امانت کی آ نکھیں نم ہوگئی تھیں،وہ مزید بولے کہ جب تک میرے والدین زندہ رہے میرے والد ہر صبح فجر کی نماز پڑھ کر بھائی علی احمد شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے جاتے اور ہر روز میری والدہ ان سے دریافت کرتیں آج آپ میرے علی کے پاس گئے تھے آج علی احمد شہید کے والد ملک عبدالعزیز اعوان اور والدہ سرداراں بی بی دونوںفوت ہوچکے ہیں لیکن علی احمد اعوان شہید آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے۔