تحریر : یاسر رفیق
محکوم قوموں کے حقِ خود ارادیت کی بین الاقوامی تشریح کے مطابق یہ قوموں کا وہ حق ہے جسے نہ تو محدود کیا جا سکتا ہے نہ مشروط اور نہ ہی اس حق کے گرد کوئی دیوار کھینچی جا سکتی ہے۔اس تشریح کا اصل مطلب یہ ہے کہ ہر محکوم قوم کا حق ہے کہ وہ خود مختار رہے۔یہی وجہ ہے کہ 1945ء میں اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد آزاد ہونے والی اقوام کی اکثریت نے آزاد و خود مختار رہنا پسند کیاحالانکہ ان میں سے چند قوموں کو کسی آزاد قوم سے الحاق کا حق دیا گیا تھا۔مثلاً سوڈان کو مصر سے الحاق کا حق دیا گیا تھا لیکن سوڈان کے عوام کی بھاری اکثریت اس سلسلے میں ہونے والی رائے شماری میںخودمختاری کے حق میں ووٹ دیا اور یوں سوڈان ایک آزاد و خود مختار مملکت بن گیا۔اسی طرح جب ویسٹ انڈیز کو یہ حق دیا گیا کہ وہ انڈونیشیا کا حصہ رہے یا آزاد و خودمختار رہے تو ویسٹ اندیز والوں نے آزادی و خود مختاری کو ہی ترجیح دی۔
اقوامِ متحدہ کا قیام 1945ء یعنی دوسری جنگِ عظیم کے فوری بعد عمل میں آیا تھا۔ اُس وقت اقوامِ متحدہ کے ممبروں کی کل تعد اکیاون تھی جبکہ آج 2016ء میں یہ تعداد لگھ بھگ 200ہے۔یعنی تقریباً ڈیڑھ سو نئے ملک اقوامِ متحدہ میں شامل ہو گئے۔محکوم اقوام کے اسی حقِ آزادی کو سیاسی زبان میں حقِ خود ارادیت کہتے ہیں جسے نہ تو محدود کیا جا سکتا ہے نہ مشروط۔یہ حق خود اردیت کی بین الاقوامی تشریح ہے۔14-15اگست 1947ء کو برصغیر تقسیم ہوا جس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کی دو آزاد قومیں وجود میں آئیں۔1946ء میں برطانوی کابینہ کا ایک وفد برصغیر آیا تھا جسے عام طور پر کیبنٹ مشن کہا جاتا ہے۔اگرچہ یہ مشن ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی آل انڈیانیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ سے بات چیت کے دوران دونوں تنظیموں کو برصغیر کے مستقبل کے بارے میں کسی نقطے پر متفق کروانے میں ناکام رہا لیکن اس نے برصغیر کی تقریباً 665شخصی ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گیایعنی تینوں فریق اس بات پر متفق ہوئے کہ ان شخصی ریاستوں کے حکمران ہی ان ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ کرینگے۔
جبکہ ان حکمرانوں کی اکثریت انتہائی غیر جمہوری اور ظالم تھی۔انہی ریاستوں میں سے ایک ریاست جموں کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف 1931ء سے ہی ریاست بھر میں تحریک چل رہی تھی۔ریاستوں کے عوام کے مستقبل کے بارے میں یہ ظالمانہ فیصلہ کرنے والے تینوں فریق یعنی برطانیہ جمہوریت کی ماں کا دعویدار، انڈین نیشنل کانگریس برصغیر کی کل آبادی کا نمائندہ ہونے کی دعویدار اور مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تھی۔برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد ہی، ریاست جموں کشمیر، ریاست حیدرآباد دکن اور ریاست جونا گڑھ کو چھوڑ کر، برصغیر کی باقی ماندہ چھوٹی بڑی ریاستوں نے آزاد بھارت یا آزاد پاکستان سے الحاق کر لیا۔ریاست حیدرآباد دکن پر بھارت نے اُس وقت ایک پولیس ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا۔
جب پاکستانی قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کا سوگ منا رہی تھی اور جونا گڑھ میںبھارت کی مدد سے ہونے والی ایک غیر قانونی رائے شماری کے ذریعے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا گیا۔3 جون 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی قائدِ اعظم محمد علی جناح نے یہ اعلان کیا تھا کہ برصغیر کی شخصی ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان سے الحاق کریں، بھارت سے الحاق کریں یا خود مختارحثیت اختیا رکریں۔وہ یہ اعلان بار بار کرتے رہے یہاں تک کے انہوں نے ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کے سلسلے میں تین اہم اعلان کیے جنکا ذکر حکومتِ پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب ” قائدِ اعظم محمد علی جناح، اعلانات اور تقاریر 1947-48” میں موجود ہے۔قائدِ اعظم کے یہ اعلانات 17جون 1947 ء ، 11جولائی 1947ء اور 30جوالائی 1947ء کے اخبارات میں واضح طور پر شائع ہوئے۔ 11 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات کے بعد اہم ترین اعلان میں قائدِ اعظم نے فرمایا ، ” دوسرا مسلہ جس نے کشمیر کے مسلمانوں کو کافی پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کیا کشمیر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا حصہ بن رہا ہے۔
میں پہلے ہی کئی مرتبہ یہ واضح کر چکا ہوں کہ ہندوستانی ریاستیں اس بات میں بالکل آزاد ہیں کہ وہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہوں ، پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہوں یا خود مختار رہیں۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مہاراجہ اور حکومتِ کشمیر اس مسئلے پر پوری اور انتہائی توجہ دینگے اور نہ صرف حکمران بلکہ عوام کے مفادات کا بھی خیال رکھیں گے( یہ قائدِ اعظم کی طرف سے خود مختار ریاست جموں کشمیر کے قیام کا واضح اشارہ تھا)۔ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم کسی بھی ریاست کواپنا فیصلہ کرنے میں نہ تو مجبور کریں گے نہ ہی کوئی دھمکی یا دبائو ڈالیں گے۔وہ ریاستیں جو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہیں گی وہ ہمیں اپنے ساتھ باہمی مفادات کے معاہدے کرنے میں بالکل تیار پائیں گی۔ وہ جو اپنی مکمل آزادی کا اعلان کرنا چاہیں گی وہ بھی ہمارے ساتھ باہمی مفادات پر مبنی معاہدے کرنے میں آزاد ہونگی۔
قیامِ ہندو پاک کے بعد یعنی 27اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے پاکستان کی طرف سے آزاد و خودمختار ریاست جموں کشمیر پر پاکستانی قبائلی حملے کو جواز بنا کر بھارت سے مشروط الحاق کیالیکن بعد میں مختلف وجوہات کی بناہ پر بھارت مسئلہ جموں کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے گیا۔ اقوامِ متحدہ، جس میں دنیا بھر کے ملکوں کے نمائندے موجود تھے، نے اعلان کیا کہ ریاست جموں کشمیر میں امن بحال ہونے کے فوراً بعد ہم جموں کشمیر کے عوام کو یہ حق دے دینگے کہ وہ بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیں یا آزاد و خود مختار رہ کر اقوامِ متحدہ کے ممبر بن جائیں۔چنانچہ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے ہند و پاک نے 13اگست 1948ء کو جموں کشمیر کے بارے میں پہلی قرارداد پاس کی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ ( یعنی خود مختاری، بھارت سے الحاق یا پاکستان سے الحاق) اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی رائے شماری کے ذریعے کرینگے۔
ادھر ریاست جموں کشمیر کے متعلق پہلی قرارداد منظور ہونے ( جس کیلئے قائدِ اعظم نے انتھک کوشش کی تھی ) کے صرف ایک مہنے بعد قائدِ اعظم کا انتقال ہو گیا۔قائدِ اعظم ایک دور رس سوچ رکھنے والی شخصیت کے حامل تھے اور وہ مسئلہ کشمیر کے تمام پہلووں سے بخوبی آشنا تھے اور کشمیر کے بارے میں حکومتِ پاکستان کے اکثر فیصلوں سے ناخوش تھے( خاص طور پر خود مختار کشمیر پر پاکستانی قبائلی حملے کی اطلاع حملے کے بعد جب قائدِ اعظم کو ملی تو انہوں نے کہا کہ افسوس کشمیر ہمارے ہاتھ سے چلا گیا( we have lost Kashmir)۔قائدِ اعظم کی وفات کے بعد پاکستان پر انتہائی کوتاہ نظر بیوروکریسی کا قبضہ ہو گیا جسکے نتیجے میں قائدِ اعظم کی وفات کے صرف ساڑھے تین مہینے بعد دسمبر 1948ء کے آواخر میںپاکستان نے اقوامِ متحدہ میں درخواست دی کہ مسئلہ کشمیر کو صرف بھارت یا پاکستان سے الحاق تک محدود کر کے کشمیریوں کو خود مختار ریاست جموں کشمیر کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ اس درخواست کے بعد بھارت ، جس نے اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر لیجاتے وقت دنیا بھر کے نمائندوں کے سامنے اقرار کیا تھا کہ کشمیری بھارت سے الحاق کریں۔
پاکستان سے یا خود مختار ہو کر اقوامِ متحدہ کے ممبر بن جائیں، نے بھی خاصی سوچ بچار کے بعد پاکستان کے مطالبہ ( یعنی صرف بھارت یا پاکستان میں سے ایک کا انتخاب ) کو قبول کیا ۔ بھارت کی رضامندی کے بعد اقوامِ متحدہ کے کشمیر کمیشن کی طرف سے 4جنوری 1949ء کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں دوسری قرارداد منظور کر لی جس میں کشمیریوں کو حقِ خودمختاری سے محروم کر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق تک محدود کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کی یہ قرارداد حقِ خود ارادیت کی بین الاقوامی تشریح اور اقوامِ متحدہ کے بنیادی منشور کے ہی خلاف ہے کیونکہ ایک ہی مسئلے پر آنے والی قراردادیں اگر آپس میں متصادم ہوں تو بعد میں آنے والی قرارداد کو تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ قرارداد ایک بنیادی انسانی حق کو ختم کر رہی ہے۔
5 فروری 2016 ء کو بھی گزشتہ کئی سالوں کی طرح اہلِ پاکستان، اہل آزادکشمیر، اہلِ گلگت بلتستان اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اکثریت 4جنوری 1949ء کی قرارداد کے حوالے سے ہی کشمیریوں سے اظہار ِ یکجہتی اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ4جنوری1949ء کی قرارداد کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی توہین ہے کیونکہ کسی محکوم قوم کے حق خود ارادیت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی یہ قرارداد کشمیریوں کو اصل حقِ خودارادیت سے محروم کر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق پر مجبور کرتی ہے جبکہ دنیا کی تقریباً 200آزاد قوموں کی طرح کشمیری بھی اپنے وطن کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔
تحریر : یاسر رفیق