تحریر : جویریہ ثنا
لہلاتی سبزہ زار وادیاں دلنشیں نظارے پرفضا بہاریں ہمارا اٹوٹ انگ وادی کشمیر جس کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے مابین قیام پاکستان کے وقت سے چلا آ رھا ہے قیام پاکستان کے وقت کشمیر کی تقریبا اسی فیصد آبادی مسلمان تھی جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی خواش اس بات پر مبنی تھی کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملایا جائے لیکن ریاست کشمیر کے راجا ڈوگری ہری سنگھ نے انتہائی عیاری سے کام لیتے ہو?ئے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا جس کی بنا پر بھارت نے اپنے فوجیوں کو بھیج کر اپنا تسلط قائم کر لیا اس پر کشمیر کے مسلمانوں نے کلمہ جہاد بلند کیا اور وادی کی قریبا ایک تہائی حصہ کو آزاد کرا لیا جب بھارتی فوجیں کشمیری مجاہدین سے علاقہ چھیننے میں ناکام رہیں تو مزید ناکامی سے بچنے کے لیے بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا جائے جب یہ مسلہ وہاں پیش کیا گیا تو بھارت کا بیان یہ تھاکہ کشمیر کا باقاعدہ الحاق ہو چکا ہے اور یہ بھارت کا علاقہ ہے۔
اس کے علاوہ بھارت کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے کشمیر پر حملہ کیا جس کا مطلب بھارت پہ حملہ ہیے پاکستان نے بھارت کا کشمیر کے ساتھ قانونی الحاق کو چیلنج کیا اور سلامتی کونسل کو آگاہ کرت ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کے مسقبل کا فیصلہ اس کے ہندو راجا کو نہیں بلک عوام کو ملنا چاہیے یکم جنوری 1949کو جنگ بندی عمل میں آئی پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کر لیا گیا کہ فیصلہ کشمیری عوام کی رائے پر ہو گا اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرایا جائے سلامتی کونسل کی اس تجویز کو پاکستان اور بھارت نے منظور کر لیا جس کی بنا پر جنگ بندی ہو گی اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے اپنے مبصر مقرر کر دیے۔
ان ابتدائی مسائل کے طے ہو جانے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اقوام متحدہ اپنے زیر نگرانی کشمیر میں استصواب رائے کا بندوبست کرے گی اس کے لیے اقوام متحدہ نے کوشیشیں بھی کی لکین بھارت کا معتصابنہ رویہ تھا جو ازل سے چللا آ رہا تھا بھارت کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے بھارت کو علم تھا کشمیری پہلے سے ہی پاکستان کی حق میں اپنی دوغلی پالیسی کی بنا پر بھارت نے کثیر تعداد میں فوجیں تعینات کر دیںاور استصواب رائے سے صاف انکار کر دیا جس کی بنا پر مسلہ جوں کا توں موجود ہے ماضی کی طرح آج بھی بھارتیوں ظلم و بربریت کی داستان رقم کی ہوئی ہے آج بھی وہاں خون پانی کی طرح بکتا ہے ہزاروں مائیں اپنے لخت جگر بہنیں اپنے آنچل اور بیویایں اپنے سہاگ کی قربانی دے رہیں کتنے لاکھ کشمری اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر ہزاروں ماوں بہنوں کی نظر محمد بن قاسم جسے سپہ سالار قائدآعظم جیسے عظیم لیڈر کو ڈھونتی ہیں جو ان کہ اس الفاظ کو امر کردے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن دھرتی کے پیہم پیاسے کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں یہ کون ہے اس ارض عجم پہ یہ لکھ لٹ جن کے جسموں کی بھرپور جوانی کا کندن یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے اے ارض عجم اے ارض عجم کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دیے ان آنکھوں نے اپنے نیلم ان ہونٹوں نے اپنے مرجان ان ہاتھوں کی بے کل چاندیکس کام آئی کس ہاتھ لکھیاے چوچھنے والے پردیسی یہ طفل و جواں اس نور کے نورس موتی ہیں اس آگ کی کچی کلیاں ہیں جس میٹھیے نور اور کڑوِی آگ سے ظلم کی آندھی رات میں پھوٹاصبح بغاوت کا گلشن اور صبح ہوئں من من تن تن ان صبحوں کا چاندی سونا سونا ان چہروں کے نیلم مرجان جگمگ جگمگ رخشاں رخشاںجو دیکھنا چاہے پردیسی پاس آیے جی بھر کے دیکھے یہ زیست کی رانی کا جھومر یہ امن کی دیوی کا کنگنجو دیکھنا چاہے۔
پردیسی پاس آیے جی بھر کے دیکھے یہ زیست کی رانی کا جھومر یہ امن کی دیوی کا کنگن،بھارتی حکوت نے حریت پسندوں کو کچلنے کے لیے 8,لاکھ سے زائد فوج بھیج رکھی جنہوں نے آے روز وہاں ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے آے روز ہڑتالوں سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ،بھارت نے ہر طرح کا طریقہ اپنا کر اذیت سے دوچار کیا لیکن کشمیری عوام پرعزم ے کیونکہ یاران جہان کہتے ہیں کشمیر جنت ہے جو نہ کسی کافر کو ملے گی نہ ملی تھی ہمیں یکجا ہونا ہوگا ایک بار پھر ہمیں انقلاب لانا ہے ایک بار پھر وہی 23ماارچ لانا ہے ایک بار پھر وہی چودہ اگست لانا ہے جب کشمیر کی سرزمین آزادی اور لا الہ کے نعروں سے گونج اٹھے اور انشا اللہ ایسا ضرور ہوگا۔
میں شاعروں سے رموز فطرت کے ساحروں سے قلم کے سارے شناوروں سے یہ کہوں گی مسرتوں کے باب لکھیں محبتوں کے اخوتوں کے مروتوں کے نصاب لکھیں وطن کے خشبووں کے گلاب لکھیں اندھیر نگری میں روشنی کو رواج لکھیں وہ کل جو لکھنا ہے آج لکہیں میں شاعروں سے رموز فطرت کے ساحروں سے یہی کہوں گی
امن کی داستان لکھیں ملک وملت کی شان لکھیں
جو ہو سکے تو تمام عالم کو ایک ہی خاندان لکھیں
تحریر : جویریہ ثنا