تحریر: آصف خورشید رانا
یہ منظر چناروں کی سرزمین میں ایک جنازے کا ہے لوگوں کا ایک جم غفیر ہے بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کشمیر کے بچے عورتیں بوڑھے اور جوان سب ہی اس جنازے میں شریک ہیں ۔ٹی وی کی سکرین پر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر بھارتی حکام کے ماتھوں پر پسینہ آ رہا ہے ۔ یہ جنازہ ایک اجنبی نوجوان کا تھا لیکن لوگوں کے انداز سے یہ محسو س ہو رہا ہے جیسے ان کا کوئی بہت ہی قریبی ہو ۔لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اس سمندر میں جنازے کے قریب ہی ایک بوڑھی اماں آنکھوں میں آنسو لیے کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح اس نوجوان کا آخری دیدار کر لے لیکن یہاں تو ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں مصروف تھا ۔اسی اثنا ء میں ایک سینئر صحافی تجمل اسلام کی نظر بوڑھی اماں پرپڑی تو انہوں نے ڈائس سے نیچے اتر کر دھکم پیل کر کے اماں تک رسائی حاصل کی اور حیرانی سے پوچھا ۔اماں ! آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ۔بوڑھی اماں نے آنسو بھری آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔
بیٹا !ابوالقاسم ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ہمارے سروں سے ظلم ہٹانے آیا ہے ہمارے بچوں اور ہمارے مستقبل کے لیے یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس وادی کے جنگلوں غاروں پہاڑوں میں پھرتا رہا ظلم و استبداد کے سامنے استقامت اور عزم وہمت کا پہاڑ بنا رہا اب جب یہ جام شہادت نوش کر کے خالق عظیم کی بارگاہ میں جا چکا ہے تو کوئی یہ نہ سوچے کہ اس کی ماں اس موقع پر موجود نہیں تھی ۔ میں بھارتی فوجیوں کو یہ پیغام دینے کے لیے اس جنازے میں شریک ہوں کہ کشمیر کے ہر شہید کی ما ں اس عظیم محسن کی ماں ہے ۔اسی لمحہ اس بوڑھی اماں نے اپنے کشمیری فیرن کے نیچے سے مٹھائی اور بادام کا لفافہ نکالا اور کہا کہ اس کا بیٹا ابولقاسم جنت کی آرام گاہوں میں پہنچ چکا ہو گا اس خوشی میں اس کی ماں یہ مٹھائی اور بادام لے کر اس کے جنازے میں شرکت کے لیے آئی ہے ۔یہ بوڑھی اماں کوئی عام عورت نہیں تھی کیونکہ اس کا اپنا لخت جگر ریاض احمد میر تحریک آزادی میں اپنی جان قربان کر چکا تھا ۔
یہ دوسرا منظر تاریخ کے صفحات پر نقش ہے ۔اس نوجوان کا نام عبدالقدیر تھااورایبٹ آباد کے علاقہ سے تعلق تھا کشمیر کی خوبصورتی اور روزگار کی تلاش اسے کھینچ کر سری نگر لے آئی ۔یہ وہ وقت تھا جب ڈوگرہ راج کے خلاف کشمیریوں نے تحریک کے آغاز کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے لیے مختلف سیاسی و مذہبی قائدین کی جانب سے ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جلسہ کے اختتام پر جب شرکاء اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونے لگے تویہ نوجوان اٹھ کھڑا ہوا اور ڈوگرہ فوج کے خلاف نعرے لگانا شروع کردیئے۔واپس جاتے ہوئے لوگوں کے قدم رک گئے اور وہ حیرانی سے اس اجنبی نوجوان کو دیکھنے لگے۔نوجوان نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بے شک مہاراجہ کی فوج کے پاس بندوقیں اور توپیں ہیں اور تم نہتے ہو۔ مگر تم پتھر اورلاٹھیوں کا استعمال کرکے مہاراجہ کی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہو۔اظہار یکجہتی کا یہ انداز بہت عجیب تھا سب جانتے تھے
کہ اس کی سزا موت ہے ڈوگرہ فوج اسے بغاوت سے تعبیر کرے گی اور وہی ہوا کہ ڈوگرہ فوج نے اسے گرفتار کر لیا اورجس دن اس کو عدالت میں پیش کیا گیا قریب و دور سے لوگوں کا ایک جم غفیر اس نوجوان کے لیے عدالت کے باہر جمع ہوگیا اور اس کی رہائی کے حق میں نعرے بلند ہونے لگے اسی دوران اذان کا وقت ہوا تو مجمع سے ایک نوجوان نے وہیں کھڑے اذان دینا شروع کر دی کہ پولیس جو پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی اس نے گولی چلا دی اور وہ نوجوان شہید ہو گیا شہید ہونے والے نوجوان کی جگہ ایک دوسرے نوجوان نے لے لی لیکن پولیس کی گولی نے اسے بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملایا اسی طرح نوجوان کھڑے ہوتے گئے اور اذان مکمل ہوتے ہی شہداء کی تعداد بائیس ہو چکی تھی ۔یہ اظہار یکجہتی کے دو مختلف انداز تھے ۔
ایک واقعہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہے جبکہ دوسرا واقعہ حال ہی میں ہوا ہے لیکن دونوں واقعات میں ایک چیز مشترک ہے کہ پاکستان اور کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دونوں طرف کے عوام خون کے ساتھ اپنا خون ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ اظہاریکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ایک طرف بھارت آزاد ی کشمیر کے مجاہد ابوالقاسم کو شہید کرکے سوچ رہا ہے کہ وہ آزادی کی اس بلندوبالا آواز کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گا مگر عین اسی لمحے شہید ابوالقاسم کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں کشمیریوں نے شرکت کرکے بھارت سرکار کو پیغام دے دیا کہ اس کا کوئی ظلم ان کے جذبہ حریت کو ختم نہیں کر سکتا۔ غاصب بھارتی فوج اس شہید مجاہد کے متعلق بتا رہی ہے کہ اس کا تعلق لشکرطیبہ سے تھا مگر کشمیریوں نے جس والہانہ انداز میں شہید کو سفرِ آخرت پر روانہ کیا اس غاصب فوج کو واضح پیغام مل گیا کہ شہید ہونے والا لشکرطیبہ اور پاکستان سے تھا یا مقبوضہ وادی سے، وہ کشمیریوں کو جان سے زیادہ عزیز تھا۔ شہید ابوالقاسم کو مقبوضہ کشمیر کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ تمام جماعتوں کے رہنماؤں اور وفود نے شہید ابوالقاسم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
پاکستانی قوم ہر سال پانچ فروری کو یوم اظہار یکجہتی کشمیر مناتی ہے یہ دن پھر سے آیا چاہتا ہے لیکن اس دفعہ پاکستان میں حالات کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں ۔ بھارت کے ساتھ تجارت دوستی اور مذاکرات کی بیک چینل ڈپلو میسی نے بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں ۔ بہت سے نام نہاد دانشور اس موقع کو اپنے لیے غنیمت جانتے ہوئے ”نمک حلالی” کے طور پر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ پٹھانکوٹ کے واقعہ کو بنیاد بنا کر تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کیا جا رہا ہے اگرچہ یہ کوششیں ہر دور میں ہوئی ہیں لیکن پٹھانکوٹ کے واقعہ کی آڑ میں یہ سب کرنا نہایت افسوسناک ہے ۔میں پٹھانکوٹ کے واقعہ کو ہر گز دہشت گردی نہیں کہوں گا ۔کشمیری مجاہدین کی تنظیموں پر مشتمل متحدہ جہاد کونسل نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا ہے کہ یہ حملہ کشمیری مجاہدین نے کیا جو عام افراد کے خلاف نہیں بلکہ ان فوجیوں کے خلاف کیا گیا جو ان کے بچوں کو شہید کر رہے ہیں
جو کئی عرصہ سے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہے ہیں جو عصمتوں کو پامال کر رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ 68سالوں سے وادی کو یرغمال بنا کر فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا ہے ۔جنہوں نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا ، آٹھ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اپاہج کیا جن کے زندان آج بھی ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کی چیخوں سے گونجتے ہیں ۔ جنہوں نے 30ہزارسے زائد کشمیری خواتین کے سرکے تاج چھین لیے جن کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں ۔ کشمیری نوجوانو ں نے اس ظلم و ستم سے تنگ آ کر یہ بندوق اٹھائی ہے۔ سیاسی جدوجہد بھی کر رہے ہیں لیکن ان کو اقوام متحدہ کی قرراددوں کے باوجود ان کا حق نہیں دیا جا رہا ۔ ایک ریاست غنڈہ گردی پر اتر آئے تو اس کے جواب میں اسے پھول نہیں پیش کیے جاتے۔اگر یہ حملہ کسی سول آبادی کے خلاف ہوتا تو یقیناً اس کی مذمت ہوتی لیکن یہ تو ان درندوں کے خلاف حملہ تھا جو ریاست کی چھتری تلے کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں ۔
ٹی وی شوز میں آ کر کچھ نام نہاد دانشور اس کو بنیاد بنا کر پاکستانی قوم کی یکجہتی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ ہر گز نہیں پاکستان اور کشمیری قوم کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کی یکجہتی صرف باتوں نعروں تک نہیں بلکہ ان کے خون ایک دوسرے کے لیے بہہ چکے ہیں ۔ وہ پاکستان کو اپنا وکیل سمجھتے ہیں ۔ نام نہاد تجزیہ نگار کچھ بھی کہہ لیں جنہوں نے اپنی نسلیں قربان کر دیں وہ بھارت کی غلامی برداشت نہیں کریں گے ۔پاکستان کے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو اس حد تک نہیں لے کر جانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر ہی فراموش کر دیا جائے ۔خون کے ساتھ خون ملا کر یکجہتی کرنے والے کبھی بے وفا ئی نہیں کر سکتے ۔
تحریر: آصف خورشید رانا
asifkhurshid.ndu@gmail.com