تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
آج ہماری قوم ملک بھر میں اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہے ۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں حکومتی و عوامی سطح پر پروگرام ہوں گے جن میں لاکھوں عوام شرکت کریں گے اور اہل کشمیر کو یقین دلایا جائے گا کہ ہم قدمے دامے درمے ان کے ساتھ ہیں ۔ اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بات صرف اظہار یکجہتی تک محدود نہیں بلکہ 67سال سے ہماری قوم کشمیر زندہ باد اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگا رہی ہے ۔کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارا یہ سلسلہ ثمر آور اور نتیجہ خیزکیوں نہیں ہورہا ؟ اہل کشمیر کے مصائب کم کیوں نہیں ہورہے ؟اور ان کی آزادی کی منز ل قریب کیوں نہیں آرہی۔۔۔۔۔؟ وجہ یہ ہے کہ ہمار ے دل جذبہ ایمان سے عاری ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ اگر ہم نے یکجہتی و ہمدردی کے اسلامی تقاضوں کو سمجھا اور پورا کیا ہوتا تو آج کشمیری مسلمان بھارتی ظلم وستم کا شکار نہ ہوتے اورمسئلہ کشمیر بھی کب کا حل ہو چکا ہوتا۔
اظہار یکجہتی ۔۔۔۔۔۔۔ مظلوم و ستم رسیدہ بھائیوں کے لئے ہمدردی،اخلاص،ایثار ،محبت،تعاون اور قربانی کا دوسرا نام ہے ۔ اسلام کی تعلیمات کی رو سے کسی کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کرنا معمولی عمل نہیں بلکہ یہ عبادت ہے، اللہ کی رضا کا ذریعہ اورشیوہ پیمبری ہے اس اعتبا ر سے اس کا اجر وثواب بھی اتنا ہی عظیم ہے۔اسلام میں ہمدردی و ایثار کی بڑی فضلیت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ رسولۖ کی ذات گرامی مظلوموں اور بے کسوںکے لئے سراپا ہمدردی ومحبت تھی۔ اسلام کی تمام تعلیما ت اور عبادات میں ہمدردی ، ایثار،قربانی اور تعاون کا سبق پنہاں ہے ۔ ایثار و قربانی اور ہمدردی۔۔۔۔۔۔جہاں قرب الہیٰ اور خدمت انسانی کا ذریعہ ہے وہاں عزت ،نجات اور کامیابی کا زینہ بھی ہے۔
قربانی ، یکجہتی اور جذبہ ایثار ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا ،رشتوں کو جوڑتااور فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہے ۔ نبی ۖ کا فرما ن عالی شان ہے مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو تقویت دیتا اور مضبوط کرتاہے۔فرمایا مسلمانوں کی باہم محبت و شفقت اور تعاون کی مثال ایک جسم کی سی ہے جب جسم کا کوئی حصہ تکلیف محسوس کرے تو سارا جسم بے خوابی و تکلیف میں ہوتا ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو باہم محبت رکھتے تھے مجھے اپنے جلال کی قسم آج میں انہیں اپنے سایہ میں جگہ دوں گا اور آج میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ جب ایک مسلمان اپنے بھائی کے لئے دل میں محبت رکھے گا تو لازماََ وہ ہمدرد و خیر خواہ بھی ہوگا، مشکل ،تکلیف اور مصیبت میں اپنے بھائی کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔یہی عمل انسانوں کو آپس میں جوڑتا اور دلوں کی دنیا کو فتح کرتا ہے۔
مختلف مواقع پر اظہارِ ہمدردی و یکجہتی کے مختلف درجے اور طریقے ہیں ۔ اظہار ہمدردی کبھی قول و قرار سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا اظہار۔۔۔۔ عمل و کردار سے کرنا پڑتا ہے۔ فوت شدہ کے لئے دعائے مغفرت کر نے ،تعزیت کے بول بولنے یا جنازہ میں شرکت کرنے سے ہمدردی اور یکجہتی کا حق ادا ہوجاتاہے۔لیکن اگر پڑوس میں آگ لگی ہو ،ہمسائے کا مال و اسباب اور متاع حیات جل رہا ہو، گھر کے افراد آگ کا ایندھن بن رہے ہوں تو پھر زبانی کلامی ہمدردی اور محض دعائیں کافی نہیں ہوتیں بلکہ عملی مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ محض دعائوں سے آگ کے شعلے نہیں بجھتے اور دشمن کی گنوں توپوں کے دہانے خاموش نہیں ہوتے ۔انسان کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ آگ بجھانے کے لئے اٹھے ،گھر سے نکلے ،خطرات میں کودے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ اگر وہ پڑوس میں آگ کے بھڑکتے شعلوں کو نہیں بجھائے گا تو اس کا اپنا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا بلکہ شعلوں میں جل کر خاکستر ہو جائے گا۔
مقبوضہ جموں کشمیر ہمارے پڑوس میں اس طرح واقع ہے جیسے گھر سے گھر کی دیوار ملی ہوتی ہے۔ اس لئے ہم وہاں کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ مقبوضہ وادی میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمارے بہت سے رشتے ،ناطے ہیں۔ سب سے اہم رشتہ دین اور ایمان کا ہے جو دنیا کے تمام رشتوں سے مضبوط تر اور افضل ہے۔ اس اسلامی رشتے کا تقاضہ ہے کہ مشکل وقت میں ہم اپنے بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ جب پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو اس وقت کشمیری مسلمانوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے صرف دعائوں پر اکتفا نہیں کیا ،صرف نعرے نہیں لگائے اور جھنڈے ہی نہیں لہرائے تھے بلکہ پاکستان کے قیام کے لئے خون کے دریا بہا ئے اور جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آئے گا تو وہ ان لئے جائے پناہ ہوگا، ان کاموکل ہوگا ،وکالت کا حق ادا کرے گا اوران کی آزادی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے گا۔ آج یہ بات دکھ سے کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اہل کشمیر کی وکالت کا حق ادا نہیں کیا،ان کے مسائل ومصائب کو نہیں سمجھا اور ان کی وفا وقربانی کا احساس نہیں کیا۔
یہ بات معلوم ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر مسلم اکثریتی خطہ ہے وہاں مسلمان 80فیصد ہیں جبکہ ہندوئوں کی آبادی صرف جموں کے بعض خطوں میں معمولی سی زیادہ ہے ۔ آبادی کا یہ تناسب بھی نومبر1947ء کے موقع پر بزور قوت اس وقت بدلا گیاجب مہاراجہ ہر ی سنگھ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کانگریس و انگریز کی سرپر ستی ،جواہر لال نہرو اور گاندھی کی رہنمائی میںمتعصب و مسلم دشمن ہندو جنونی تنظیموں اور سکھ ریاستوںکے فوجیوں کے تعاون سے پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا اور پانچ لاکھ کو گھروں سے نکالا گیا تھا۔ اگر چہ بھارت کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کا کبھی زمینی ،جغرافیائی اور مذہبی تعلق نہیں رہا اس کے باوجود مسلم دشمنی کا یہ سلسلہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہاہے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ بھارت یہ سب کچھ کیوں کر رہاہے ۔ وجہ یہ تھی کہ جواہر لال نہرو اور گاندھی ۔۔۔۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے دشمن تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اگر ریاست جموں کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہو گیا تو پاکستان اپنی تشکیل اور تکمیل میں مکمل ہو جائے گا۔دوسری بات یہ تھی کہ جواہر لال نہرو اور گاندھی اول و آخر ہندو تھے۔گاندھی کا تو ظاہر وباطن عیاں تھا جبکہ نہرو نے سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا لیکن اندر سے وہ بھی متعصب ہندو تھے۔
دنیا یہ بات تو جانتی ہے کہ نہرو برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے تھے لیکن یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ نہرو امور مملکت چلانے کے لئے کوٹلیہ چانکیہ کی بدنام زمانہ کتاب ارتھ شاستر سے ر ہنمائی لیا کرتے تھے ۔وہ ہررات سونے سے پہلے لازماََ یہ کتاب پڑھتے اور یہ سلسلہ زندگی کے آخری لمحوں تک جاری رہا ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ نہرو بھی درحقیقت اندر سے متشدد ہندو تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام دشمنی اور ہندو مذہب سے محبت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔اس بنا پر جواہر لال نہرو اور گاندھی مقبوضہ جموں کشمیر میں بسنے والے ہندوئوں کو زندگی کے آخری لمحوں تک نہ بھولے۔ نہرو کشمیری النسل پنڈت بھی تھے اس لئے وہ کریلا اور نیم چڑھا تھے انہوں نے اپنے آبائی وطن کے ساتھ تعلق اور جموں میں رہنے والے چند ہزار ہندئووں کے ساتھ وفا اور محبت کا رشتہ اس طرح نبھایا کہ 27اکتوبر 1947ء کو تقریباََ چار لاکھ فوج کے ساتھ ریاست پر دھاوا بول کرریاست کے 41342مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا۔ نہرو اس قبضہ کو جائز ثابت کرنے کے لئے بے دریغ جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے اور مکر وفریب سے کام لیتے رہے۔اس کے بعد بر سر اقتدار آنے والے تما م بھارتی حکمران بھی اسی پالیسی پر سختی سے گامزن رہے ۔جھوٹ بولنے اور وعدہ خلافیاں کرنے کی وجہ سے کئی بار نہرو اور دیگر بھارتی حکمرانوں کو سلامتی کونسل میں رسوا و شرمسار بھی ہونا پڑا لیکن مسئلہ کشمیر پر وہ اپنے جھوٹے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے ۔
نہرو کا ایک خود ساختہ فارمولہ یہ تھا کہ بھارت سیکولر ملک ہے اگر ریاست جموں کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر آزادی دی گئی تو بھارت کا سیکولر ازم خطرے میں پڑجائے گا اور ایسی صورت میںبھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا مستقبل بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ لہذا اگر پاکستان بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی سلامتی چاہتا ہے تو کشمیر کا نام نہ لے۔ریاست کے41342مربع میل خطے پر قبضہ اور80لاکھ کشمیریوں کو غلام بنانے کے لئے ایسا شرمناک اور بے بنیادجوا ز چانکیائی سوچ کے مالک نہرو ہی گھڑ سکتے تھے۔حالانکہ نہ بھارت سیکولر ملک تھا اور نہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان چانکیائی حربوں کا مقصد ریاست میں بسنے والے چند ہزار ہندئووں کا تحفظ ،کشمیری مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام اور پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرنا تھا۔ جہاں تک بھارت کے دیگر متعصب ہندو رہنما ئوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ بھی نہروسے مختلف نہ تھا۔
ہندو انقلاب کی دعویدار” بھارتیہ جن سنگھ” اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مکرو فریب اور جھوٹ پر مبنی نہرو کی کشمیر پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے 15جنوری1948ء کو اپنے ایک پالیسی بیان میں واضح کردیا تھا کہ تاریخی اعتبا ر سے کشمیر ہندوستان کا حصہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔1952ء میںجن سنگھ پارٹی کے سربراہ شیام پرشاد مکر جی اسی سوچ کو آگے بڑھانے اورعملی جامہ پہنانے کے لئے جموں کے ایک طویل دورے پر آئے۔اس دوران انہوں نے جموں میں بسنے والے ہندوئو ں سے ملاقاتیں کیں ،ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ان کو یقین دلایا کہ جن سنگھ ،بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس جیسی دیگر ہندو تنظیمیں ان کے ساتھ ہیں اور ان کو مسلمانوں کے رحم وکرم پر ہر گز نہیں چھوڑا جائے گا۔اسی دوران ریاست کی کٹھ پتلی حکومت نے دنیا کو دکھانے اور کشمیری مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے شیام پرشاد کو حراست میں لے لیا ۔شیام پرشاد دکھلاوئے کی اس حراست کا صدمہ بھی برداشت نہ کرسکے اور جموں میں آنجہانی ہو گئے۔
الغرض کانگریس اور دیگر ہندو جنونی تنظیموں نے روز اول ریاست جموں کشمیر کے بارے جو پالیسی بنائی آج بھی وہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہیں ۔ بھارتی حکمرانوں کے ان فسطائی حربوں کا نتیجہ ہے کہ 1947ء سے اب تک چھ لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔وادی کشمیر اپنی تمام تر خوبصورتی و رعنائی اور زیبائی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے۔حالیہ تحریک میں 2 لاکھ 14 ہزار بچے شہید ، 70 ہزار خواتین بیوہ اور 20ہزار خواتین کے شوہر لاپتا ہیں ۔نوجوانوں کے خلاف زہریلے ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں جس سے ہزاروں نوجوان معذور ،اپاہج اور اندھے ہوچکے ہیں۔کشمیریوں کو ملیا میٹ کرنے کا نریندر مودی کا جنون پاگل پن کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔اپنے دور حکومت میں مودی مقبوضہ وادی کے سب سے زیادہ دورے کرنے والے پہلے وزیراعظم ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی جموں میں پاکستانی سرحد سے متصل ایک قصبہ سے کیا تھا۔ وزار ت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد بھی مودی نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ مقبوضہ جموں کا دورہ تھا۔
اس دوران انہوںنے جموں کے ہندوئوں سے ملاقاتیں کیں ،ان سے اظہار یکجہتی و اظہار ہمدردی کیا وہ شیام پرشاد مکرجی کی یاد گار پر بھی پہنچے ۔اس موقع پر یقینا مودی نے شیام پرشاد کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے کا عہد بھی کیا ہو گا۔اس سے نریندر مودی کی کشمیر کے بارے میں ترجیحات اور انتہا درجے کی سنجیدگی و دلچسپی کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور اس بات کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے نہرو سے لے کرمودی تک تمام بھارتی حکمران مسلمان دشمنی اور جموں کے ہندوئوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مودی جو مسلم دشمنی کی وجہ سے موذی اور قصاب کی شہرت رکھتے ہیں اپنے پے در پے دوروں سے یقینا اہل کشمیر کو سخت پیغام دینا چاہتے تھے۔ ان کا خیال ہو گاکہ میں جیسے ہی مقبوضہ وادی میں قدم رکھوں گا کشمیریوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا،وہ ڈر جائیں گے، خوف زدہ ہو جائیں گے، آزادی اور پاکستان کا نام لینا چھوڑ دیں گے۔لیکن مودی شائد نہیں جانتے کہ ان کا واسطہ مسلمانوں سے ہے ۔اسلام اور بزدلی اسلام اورغیراللہ کا ڈر یکجا نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے کہ مودی کے مقبوضہ وادی کے دورے کتنے زیادہ بڑھتے جارہے ہیں پاکستانی پرچم لہرانے کے واقعات میں بھی اتنا ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیری قوم آئے روزپاکستانی پرچم لہرا رہی ،پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہی اور سینوں پر گولیاں کھا رہی ہے۔
متذکرہ بالاساری گفتگو کا ماحاصل یہ ہے کہ بھارتی حکمران مقبوضہ وادی میں 67سال سے درندگی اور موت کا یہ کھیل۔۔۔۔۔۔ جموں میں بسنے والے چند ہزار ہندوئوں کو تحفظ دینے ، آبادی کا تناسب بدلنے اور پاکستان دشمنی کے جذبات کو پروان چڑھانے کے لئے کھیل رہے ہیں۔کبھی ہمارے حکمرانوں اور ہماری قوم نے سوچا کہ مقبوضہ وادی میں مسلمان کتنی تعداد میں اور کس حال میں رہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ روزانہ کتنے جنازے اٹھتے،کتنے بچے یتیم ہوتے اور کتنے گھر جلتے ہیں ۔۔۔۔؟ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ہر بھارتی حکمران اپنے دور حکومت میں مقبوضہ وادی میں جاکر اپنے ہم مذہبوں سے ہمدردی و اظہار یکجہتی کرتا ہے۔اگر چہ یہ ہندو وہاں نہایت ہی امن وسکون سے رہ رہے ہیں ،ان کی جان و مال اور عزت و آبرو اور عبادت خانے سب محفوظ ہیں۔ اس کے برعکس مقبوضہ وادی میں بسنے والے مسلمان 80 لاکھ ہیں ان کی جان ومال محفوظ ہے نہ عزت و آبرو اور نہ دین و ایمان ۔آج جبکہ پورے پاکستان میں اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جارہا ہے ہماری قوم اپنے حکمرانوں سے پو چھتی ہے کہ وہ۔۔۔۔۔کب مقبوضہ وادی جاکر اپنے کشمیری مسلما ن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے ۔۔۔۔۔۔؟
تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
امیر جماعة الدعوة پاکستان