ان دنوں پاکستان کی عوام ایک نئی قسم کے اظہاریئے میں مبتلا ہے۔ اٹھارہ سے اکیس کروڑ کے لگ بھگ عوام اس اظہاریئے کی اسیر بنی دکھائی دیتی ہے۔یہ بات بھی مگردرست ہے کہ ملک کی اکثریتی عوام نہ صرف یہ کہ اس اظہار کے اصل مقاصد سے نابلد ہے بلکہ اکثر و بیشتر اس طرح کے مناظر کو ناپسندیدگی سے ملاحظہ کرتی ہے۔ میرا اشارہ اس ملک میں کچھ عرصہ سے نیاجنم لینے والے ایک کلچر “اظہار یک جہتی” کی طرف ہے۔
اظہار یکجہتی سے مراد کسی کے ساتھ اتحاد، اتفاق ، دوستی یا یگانگت وغیرہ کا اظہار کرنا ہے۔لوگ اپنے ہم خیال، ہم مسلک،ہم پیشہ یا ہم نوالہ و ہم پیالہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتےدکھائی دیتے ہیں۔اظہار یکجہتی کرتے وقت عام طور سے اس بات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا کہ جس سے اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے آیا اس سے اظہار یکجہتی کرنا ضروری بھی ہے یا نہیں۔بلا دھڑک اور بے جھجک یہ فریضہ انجام دے دیا جاتا ہے۔اور سچ بات تو یہ ہے کہ اب اگر اخبارات میں اظہار یکجہتی کی خبر نہ ہو تو کم از کم مجھے اخبار پڑھنے میں بالکل مزہ نہیں آتا۔اخبار ہاتھ میں آتے ہی سب سے پہلے بےقرار نظر “اظہار یکجہتی” کے الفاظ تلاش کرتی ہے۔اور جب متلاشی نظروں کو مطلوبہ مواد میسر آجاتا ہے تو خوشی دیدنی ہوتی ہے۔اس خوشی اور سرشاری کے پیچھے انواع و اقسام کی اظہار یک جہتیاں ہیں کہ جن کو پڑھ کر طبیعت صاف ہو کر رہ جاتی ہے۔مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے ایک خبر پڑھنے کو ملی تھی جس میں ڈاکو حضرات پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی فرما رہے تھے۔ اس اظہار کی تصاویر اخبارات میں شائع بھی ہوئی تھیں۔البتہ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کیا ڈاکوؤں نے پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے بعد ہتھیار ڈال کر خود کو حوالہءقانون بھی کیا تھا یا محض اظہار یکجہتی کر کے اپنی راہ لی تھی۔ راقم الحروف کافی دن تک اخبارات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا رہا کہ اب بات اظہار یکجہتی سے آگے بڑھی کہ اب بڑھی مگر بات آگے بڑھنی تھی نہ بڑھی۔
زیرِنظر تحریر میں اظہار یکجہتی کی کچھ اقسام پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو راقم الحروف نے گذشتہ کچھ عرصہ میں اخبارات سے اخذ کی ہیں۔ممکن ہے آپ لوگ میری اس تحریر سے اظہار یکجہتی نہ کریں یا میری روشنی ڈالنے کی کوشش لوڈ شیڈنگ کی نظر ہو جائے اور روشنی کی کرن ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں انجام پذیر ہو لیکن محض لوڈ شیڈنگ کے خدشے کے پیش نظر میں اظہار یکجہتی کی مختلف اقسام کو منظر عام پر لانے سے باز نہیں رہ سکتا۔چناچہ ملاحظہ فرمایئے:
سیاسی اظہار یکجہتی: اخبارات کے صفحہ اول پر اور اکثر شہ سرخیوں میں جگہ پانے والی سیاسی اظہار یکجہتی پاکستان کی سب سے مقبول اظہار یکجہتی ہے۔ہم
سب اس یکجہتی سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔اور اکثر وبیشتر ان یکجہتیوں کی بنیاد پر نہ ختم ہونے والی بحثوں میں مبتلا بھی ہو جاتے ہیں۔ سیاسی یکجہتی کی مزید تین ذیلی اقسام ہیں۔
الف۔ پہلی قسم کی اظہار یکجہتی عام طور پر تب دیکھنے میں آتی ہے جب کسی سیاسی شخصیت کا مفاد کسی دوسری سیاسی شخصیت کے ساتھ لگًا کھا جائے۔ اس کو ذاتی مفاد پر مبنی اظہار یکجہتی کہتے ہیں۔اس کی ایک مثال تو ہم نے تب دیکھی جب محترم امیر مقام صاحب اور مسلم لیگ ن کے دیگر ارکان نے محترمہ عائشہ گلالئی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔پسِ پردہ وجوہات چاہے جو بھی ہوں ۔حیرت کی بات تو یہ تھی کہ خواتین کی اکثریت نے محترمہ عائشہ گلالئی کے ساتھ اظہارِیکجہتی کی بجائے اظہارِحیرت کر ڈالا۔
ب۔ دوسری قسم یعنی سیاسی جماعتوں کی آپس میں اظہار یکجہتی کی وجوہات سیاسی مفادات کی بنیاد پر طے پاتی ہیں۔مثلاً پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کی یکجہتی۔یا جمیعت العلماء پاکستان فضل الرحمان کی پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ یکجہتی۔ ان جیسی یک جہتیوں کا اظہار گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔کبھی ایسی صورت حال بھی درپیش آ جاتی ہے کہ اظہارِ یکجہتی کی بجائے اظہارِ رائے یا اظہارِ ناراضگی کو ترجیح دی جاتی ہے جیسے قومی وطن پارٹی کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کا اظہار ناراضگی یا بانی متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کا بلکہ پورے پاکستان کا اظہار ناراضگی اور پاک سرزمین پارٹی کا فاروق ستار صاحب کی پارٹی کے ساتھ شدید اظہار ناراضگی مگر چوں کہ ہمارا موضوع صرف اظہار یکجہتی ہے لہٰذا ہم اظہار ناراضگیوں سےصرف نظر کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔
ج۔ تیسری ذیلی قسم کی سیاسی اظہار یکجہتی وہ ہے جس کو حاسد ، بدخواہ اور متاثرین چھانگا مانگائی اظہار یکجہتی کا نام بھی دیتے ہیں۔ اکثر اوقات سویا ہوا ضمیر جاگ جانے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ “راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے” اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے “ہنرمند” اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی عوامی خدمت کا جذبہ اور تجربہ رکھنے والی سیاسی جماعت کے ساتھ اظہار یکجہتی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جناب ارشد ووہرہ اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ 2011 کے بعد ہم کافی منصف مزاجوں کو تحریک انصاف کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس بات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ پارلیمینٹ کا ممبر بننے کے بعدضمیر کی آواز پر لبیک کہنےوالوں کے خلاف آئین کی شق 63 کا جزو الف بھی موجود ہے۔اس طرح یہ واحد سیاسی یکجہتی ہے جس کو آئینی مخالفت حاصل ہے۔
پیشہ ورانہ اظہار یک جہتی: اخبارات کا مطالعہ کریں تو سب سے زیادہ اظہار یکجہتی جو پڑھنے میں آتی ہے وہ پیشہ ورانہ اظہار یکجہتی ہے۔ آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ینگ ڈاکٹر ہوں یا سیاہ کوٹ میں ملبوس وکلا حضرات، میدانِ قلم کے شاہ سوار صحافی ہوں یا ٖغربت کی چکی میں پستے سرکاری ملازمین، اپنے ہم پیشہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے نظر آتے ہیں۔
اظہار یکجہتی ویسے تو اچھی بات ہے مگر جب کسی مریض کا کوئی تیماردار یا بعض صورتوں میں انتقال کر جانے والے مریض کے لواحقین شدت جذبات میں زبان یا ہاتھ سے کسی ڈاکٹر کے ساتھ کچھ اظہارِ ناراضگی کر جاتے ہیں توباقی ماندہ ڈاکٹر حضرات معاً اپنا اپنا کام چھوڑ کر متاثرہ ڈاکٹر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اظہار یکجہتی میں دستِ مسیحائی دستِ قضا بن جاتےہیں۔اب ان کی بلا سے باقی مریض تڑپتے سسکتے رہیں لیکن اظہار یکجہتی مقدم ہے۔عموماً اس یکجہتی کا اظہار ہڑتال، دھرنا یا ریلی کی صورت میں کیا جاتا ہے۔بعض اوقات یہ اظہار یکجہتی کئی کئی روز پر پھیل جاتا ہے اور تمام یک جہت افراد اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے کام چھوڑ کر کسی کھلے میدان میں چہلیں کرتے پائے جاتے ہیں۔
ینگ ڈاکٹروں کی اظہار یکجہتی نے بہت شہرت حاصل کی۔آئے دن اخبارات کی زینت بنے ینگ ڈاکٹر اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے آپس میں اظہار یکجہتی کرتے پائے جاتے رہے ہیں۔اب کچھ عرصہ سے افاقہ ہے۔دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ بوریت سی بوریت ہے۔مگر اللہ کا شکر ہے کہ کبھی نرسوں تو کبھی دوافروشوں کی اظہار یکجہتیاں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ ایک خبر نے بہت محظوظ کیا جب اظہار یکجہتی کرنے والے افراد کو حکومت نے پانی کی توپوں سے منتشر کیا تھا۔ ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ مظاہرین کو حکومت نے دھو ڈالا۔
اسی سے ملتی جلتی صورت حال کورٹ کچہری میں آئے دن نظر آتی ہے۔کسی وکیل کا اپنے مؤکل سے کسی بھی وجہ سےاختلاف ہو جائے اور اختلافِ رائے کی حدود سے نکل کر بات براسطہ بے نقط الفاظ اورہاتھا پائی تک جا پہنچے تو کچھ ہی دیر میں اظہار یکجہتی حملہ آور ہوتی ہے اور مؤکل بےچارہ سر پر پاؤں رکھنے سے پہلے ہی مضروبِ وکالت کے عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
اس معاملے میں بار ایسوسی ایشنز بردبار واقع ہوئی ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اظہار یکجہتی کو فروغ دیتی ہیں۔غریب وکلا کا چولہا چاہے بجھا ہوا ہو، مسکین مؤکل جو کسی دور دراز علاقے سے اپنے مقدمہ کی پیروی کرنے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر کچہری پہنچا ہو، اگر بردبار اظہار یکجہتی نہ کیا گیا تو بردبار اظہار ناراضگی کے باعث اختلاف رائے رکھنے والے وکلاء “میں تنہا تھا میں تنہا ہوں” کی دہائی دیتے پائے جا سکتے ہیں۔
صحافی برادری بھی اپنے صحافی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے میں کسی سے کم نہیں ہے۔لیکن چوں کہ ان کے اظہار یکجہتی سے عوام الناس کو براہ راست یا بالواسطہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا اور نہ ہی عوام کو اس میں چٹخارہ محسوس ہوتا ہے چناچہ یہ اظہار یکجہتی پھل پھول نہیں پاتی اور اخبارات میں دو دن سے زیادہ جگہ نہیں بنا پاتی۔بعض صورتوں میں تو سرے سے جگہ نہیں بنا پاتی۔
اس برادری کو عموماً نادیدہ ہاتھوں، نامعلوم افراد اور لڑکی کے بھائیوں کا خوف اور خطرہ رہتا ہے۔اور کسی بھی “ایسی ویسی” صورتحال میں کچھ صحافی بھائی امیر مینائی کے مصرعے “خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر”کے مصداق “آئین زباں بندی” کے خلاف اظہار یکجہتی کے میدان میں اتر آتے ہیں۔مگر
جناب مزہ تو اس وقت آتا ہے جب آزادی رائے کا اظہار پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے اور چہار سو ہوتا ہے۔ اکثر یہ سوچ ذہن کا طواف کرتی ہے کہ ہر آنے والے دن میں پہلے سے بڑھ کر اپنی بات کرنے کی آزادی مل رہی ہے تو پھر خوف کس بات کا ہے؟
صحافتی فرقوں میں بٹی یہ برادری مؤثر طور سے اپنی آواز اٹھانے میں ناکام اس لیے بھی نظر آتی ہے کہ مفاداتی ٹکراؤ کی وجہ سے کسی ایک مؤقف پر اتفاق رائے مشکل سے ہوتا ہے۔چناچہ اس اظہار یکجہتی کی عمر دو دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چائے کی پیالی میں وقتی طوفان اٹھا کر گویا انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوا لیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر اس سے زیادہ لکھنا ممکن نہیں لہٰذا اپنے مضمون سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اگلی قسم کو دیکھتے ہیں۔
سماجی و معاشرتی اظہار یکجہتی: یہ عام طور پر معاشرے میں پائے جانے والے مختلف عناصر کی آپس میں وہ یکجہتی ہے جو کسی بھی وجہ سے نمو پا جاتی ہے۔ مثال کے طور پر سڑک پر پولیس والے نے راہگیر کو تھپڑ مار دیا تو ایک جم غفیر جمع ہو کر تھپڑ یافتہ سے اظہار یکجہتی کے طور پر آنکھ کے بدلے آنکھ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور تھپڑ کے بدلے تھپڑ، گھونسے، لاتیں اور “شائستہ کلامی” پر ایمان رکھتے ہوئے بےچارے پولیس والے کا حساب چکتا کرتا ہے۔ایسی یکجہتیاں عام طور سے گرلز کالج کے باہر بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کی وجوہات یکسر مختلف ہوتی ہیں ۔اور وہ ہم سب جانتے ہی ہیں۔
سماجی اظہار یکجہتی کا مظاہرہ عموماً گلی محلوں میں ہوتا ہے جب کسی خاتون کا پڑوسن سے جھگڑا ہو جائے۔متحارب خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیے شبو، نمو، پروین، نسرین، زلیخا، پپو، ببلو، منے کے ابا، ببلی کے چچا، حاتم کی تائی، راجو کی خالہ وغیرہ میدان میں اترآتے ہیں۔ایک شور مچ جاتا ہے۔ شبو اور نمو فریق اول سے اظہار یکجہتی کرتی ہیں تو نسرین اور پروین فریق دؤم سے اظہار یکجہتی کا حق ادا کرتے ہوئے شبو اور نمو کے تمام کردہ اور ناکردہ کرتوت سرعام نشر کرنا شروع کردیتی ہیں۔جواب آں غزل کے طور پر منے کے ابا ببلی کے چچا سے جا بھڑتے ہیں۔زلیخا، پپو، ببلو اور راجو اضافی کمک مہیا کرتے ہیں اور میدان کارزار گرم ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا صورت حال اکثر ہماری قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی درپیش آجاتی ہے مگر نہ تو وہ معاشرتی ہوتی ہے اور نہ ہی سماجی “روابط” کی بنیاد پر مبنی ہوتی ہے اس لیے ان کا احاطہ سماجی اور معاشرتی اظہار یکجہتی میں نہیں کیا جا سکتا۔آپ لوگ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ وہ اظہار یکجہتی کی کون سی قسم ہے۔
صنفی اظہار یکجہتی: جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے۔کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز۔ اپنی اپنی صنف سے اظہار یکجہتی بھی ایک ایسی اظہار یکجہتی ہے جو کبھی کبھار اخبارات کی زینت بنتی ہے۔اس سلسلے میں جب تحقیق کی کوشش کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ اس معاملے میں خواتین بازی لے گئی ہیں۔خواتین کے حقوق کا معاملہ ہو یا پھر خواتین کے دیگر معاملات۔خواتین ایک دوسرے سے اظہار یکجہتی کرتی نظر آتی ہیں۔براہِ مہربانی فلمی خواتین کو اس سے مستثنیٰ سمجھا جائے۔
مردوں (میم زبر کے ساتھ) کی اظہار یکجہتی تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی پلے پڑی۔البتہ خواجہ سراؤں کی اظہار یکجہتی کی خبریں موجود ہیں۔
اظہار یکجہتی کی اور بھی اقسام تلاش کی جا سکتی ہیں مگر مضمون طویل سے طویل تر ہو چلا ہے۔مزید طوالت کی صورت میں ممکن ہے کہ آپ اس سے اظہار یکجہتی نہ کر پائیں۔ چناچہ اظہار یکجہتی کی مزید اقسام پر تحقیق کو مستقبل کے لیے مؤخر کرتے ہوئے مضمون کا فی الفور اختتام کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کسی اظہار یکجہتی کے ستائے ہوئے ہیں تو دعا کریں کہ اس قوم کا شعور بیدار ہو اور مستقبل میں اظہار یکجہتی عوام الناس کے لیے زحمت بننے کی بجائے حقیقی معنوں میں کسی مسئلہ کا حل کرنے والی ہو۔