ملک بھر میں پھیلی حالیہ دہشت گردی کی لہر سے ہر شخص پریشان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا کوئی مستقل حل نکالا جائے۔ اور ظاہری سی بات ہے کہ حکومت کو اس سے زیادہ پریشانی ہے کہ ملک میں امن و امان قائم کرنا انکی قومی زمہ داری ہے۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے گاہے بگاہے تمام جماعتوں کی مجلس مشاورت بھی بلائی جاتی ہے جس میں تمام جماعتیں چاہے وہ مذہبی جماعتیں ہوں یا سیاسی جماعتیں وہ اس دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کا عندیہ دیتی نظر آتی ہیں۔
اور اسی ضمن میں پھر کبھی فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آتا ہے تاکہ انصاف تک بروقت رسائی حاصل کی جا سکے چونکہ ہمارا مروجہ عدالتی نظام کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بروقت فیصلہ سنا سکے۔ کبھی نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں نیا قانون لایا جاتا ہے۔ کبھی سی ٹی ڈی کی صورت میں نیا سکیورٹی ادارہ تشکیل پاتا ہے اور کبھی آپریشن ضرب عضب اور کبھی آپریشن ردالفساد لانچ کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ ہر کوئی اپنی سی کوشش کرتا ہے اس عفریت کو ختم کرنے کی کہ اس لہر نے معصوم بچوں کو چھوڑا نہ ہی مقدس مذہبی مقامات کو۔ یہاں ان سب باتوں کے پس منظر میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا دہشت گردی ہے کیا؟ اور اسے کون پھیلا رہا ہے۔
اگر ہم عمومی تاثر کی بات کریں تو بین القوامی طور پر مسلمان دہشت گرد ہیں اور اسلامی مراکز دہشت گردی کا منبع ہیں۔ اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں دہشت گردی کو مدرسہ اور مولوی سے جوڑ رکھا ہے ۔ اس میں ان طبقات کا قصور بھی ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے دہشت گردی کو ہوا بھی دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں اس کے علاوہ دہشت گردی نظر نہیں آتی یا ہم نے تعصب کی عینک پہن رکھی ہے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی ایک سنگین واردات جو کہ دہشت گردی اور بربریت کی وحشیانہ مثال ہے، ہم اس سے کیوں صرف نظر کر رہے ہیں؟ عبدالوحید نامی الیکشن کمیشن کے ایک سابقہ آفیسر جو کہ ایک جعلی پیر بنا بیٹھا تھا۔ اس نے کیا ادھم مچایا ہے کہ 20 افراد کو مذہبی جنونیت کے نام پر وھشیانہ انداذ مین قتل کر دیا اور اپنے جرم پر اس طرح سے پردہ ڈال رہا ہے کہ میں انھیں دوبارہ زندہ کروں گا۔ اور ہماری قوم کی کم عقلی، جہالت اور ضعیف الاعتقادی کی انتہا دیکھیں کہ ابھی تک لوگ اسے پیر کی کرامت سمجھ رہے ہیں۔اور اس وقت تک لوگون کی عقل سے پردہ نہیں اٹھا جب تک چار لوگوں نے بھاگ کر جان نہیں بچائی۔
آیا۔۔۔۔ کیا ان درباروں اور دیگر مقامات پر جو کچھ ہوتا ہے۔
کیا وہ ہماری آنکھوں سے ہمارے اداروں سے اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں سے اور ہماری حکومت سے اوجھل ہے؟کیا ہمیں علم نہیں کہ مذہب کے نام پر یہاں کیا خرافات ہوتی ہیں؟کیا ان جگہوں پر سر عام نشہ آوراشیاء استعمال نہیں کی جاتیں؟کیا وہاں ایسے لوگ نہیں پائے جاتے کہ جن کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتاکہ یہ کہاں سے آئے ہیں اور کون ہیں؟کیا ان جگہوں پر موجود پیرمذہب کا لبادہ اوڑھ کرسادہ لوح اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو لوٹ نہیں رہے ہوتے؟ اور ستم بالا ستم یہ ہے کہ ہماری عوام ان لوگوں سے بارہالٹنے کے بعد بھی ان کا ہی گن گاتی ہے۔اور حکومت وقت اور سکیورٹی ایجنسیاں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں؟ کیا ان مقامات پر ایکشن پلان نافذالعمل نہیں ہے؟کیا ان مقامات پر آپریشن ردالفساد کی ضرورت نہیں ہے؟کیا ان مقامات پر بیٹھے پیروں ،گدی نشینوں،مجاوروں،خلیفوں اور مستقل قیام پذیر مریدوں کے کوائف اکٹھے کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟جس طرح آج مسجد بنانے کیلئے این او سی لینا اور رجسٹریشن کرانی ضروری ہے کیا ان مزاروں کیلئے کوئی ایسا قانون نہیں ہے؟ جس کا جہاں دل چاہے وہاں اپنی دکان کھول کر بیٹھ جائے۔
مساجد اور مدارس نے آج اپنی سیکیورٹی کو سخت کر کے کوئی ایسا خلاء نہیں رہنے دیا کہ جس میں سے کوئی ایسے شر پسند عناصر داخل ہو کر ان مقامات کو اپنی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں، لیکن ہمارے ادارے ان مزاروں اور درباروں سے چشم پوشی کر کے شر پسند عناصر کو کھلی پناہ گاہ نہیں مہیا کر رہے؟آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل طے کرے تاکہ آئندہ کوئی عبدالوحید پھر سے ظلم و بربریت کا بازار گرم نہ کر سکے۔