انور مجید کون ہیں؟یہ آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں‘ بزنس مین ہیں‘ یہ زرداری صاحب کے کاروبار‘ شوگر ملز اور زمینوں کا دھیان رکھتے ہیں‘ یہ ان چار ستونوں میں شامل ہیں جن پر آصف علی زرداری کی کاروباری عمارت کھڑی ہے‘ ملک کی فیصلہ ساز قوتوں کا خیال ہے یہ ستون جس دن گر گئے‘یہ عمارت اس دن دھڑام سے اپنی بنیاد پر آجائے گی چنانچہ یہ قوتیں جب بھی زرداری صاحب کو تنگ کرنا چاہتی ہیں یہ ان کے کسی نہ کسی ستون پر وار شروع کر دیتی ہیں اور یہ وار زرداری صاحب کو’’ تم ہمیں جانتے نہیں ہو‘ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے‘ مستقل صرف ہم نے رہنا ہے‘‘ جیسی للکار پر مجبور کر دیتے ہیں۔
جون 2015ء میں بھی اسٹیبلشمنٹ انور مجید کے گرد گھیرا تنگ کر رہی تھی‘ یہ تنگ ہوتا گھیرا زرداری صاحب کو تنگ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ 16 جون 2015ء کو فوج کو للکارنے پر مجبور ہو گئے‘ آصف علی زرداری کی تقریربہت خوفناک تھی‘ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی ملاقات طے تھی‘ وزیراعظم نے تقریر کے بعد یہ طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر دی اور زرداری صاحب کی تقریر کو نامناسب بھی قرار دے دیا‘حکومت نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیا ’’آپ فوری طور پر ملک سے باہر چلے جائیں‘ آپ کے خلاف گواہ تیار ہیں‘ گواہوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے کی دیر ہے اور آپ ملک میں محصور ہو کر رہ جائیں گے‘‘حکومت نے آصف علی زرداری کو یہ مشورہ کیوں دیا؟ اس کی دو وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ 2014ء کا دھرنا تھا‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے دھرنے کے دوران حکومت کا کھل کر ساتھ دیا تھا‘ آصف علی زرداری اگر اس وقت میاں نواز شریف کا ساتھ نہ دیتے تو حکومت فارغ ہو جاتی‘ حکومت اس احسان کا بدلہ اتارنا چاہتی تھی‘ دوسرا‘ عمران خان ابھی تک میدان میں موجود تھے‘ حکومت جانتی تھی یہ 2016ء میں دوسرا حملہ کریں گے اور اس سے قبل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ’’اتحاد‘‘ تڑوا دیا جائے گا تاکہ اپوزیشن متحد ہو جائے‘ پیپلزپارٹی عمران خان کے کنٹینر پر کھڑی ہو جائے اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے حکومت ختم ہو جائے‘حکومت جانتی تھی حالات نازک ہیں‘ چوہدری نثار کے ایک ماتحت ادارے کی طرف سے ریڈ کی دیر ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجود دھاگہ ٹوٹ جائے گا۔
حکومت یہ دھاگہ بچانا چاہتی تھی‘ یہ ’’چھاپے‘‘ سے قبل زرداری صاحب کو ملک سے باہر بھجوانا چاہتی تھی چنانچہ حکومت نے بیک ڈور استعمال کیا اور آصف علی زرداری 24 جون 2015ء کو دبئی چلے گئے اور 23 دسمبر 2016ء تک ڈیڑھ سال ملک سے باہر رہے‘ یہ اس دوران لندن‘ نیویارک اور دبئی میں رہے‘ یہ واپس آئے تو رینجرز نے 23 دسمبر کو انور مجید کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے بھاری اسلحہ برآمد کر لیا‘ یہ چھاپہ اور اسلحے کی برآمدگی زرداری صاحب کے نام یہ پیغام تھا’’ہمارا حافظہ بہت تگڑا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اس حافظے پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ یہ معاملہ انور مجید سے شروع ہوا اور یہ انور مجید پر ہی ختم ہو گا‘‘۔
آصف علی زرداری‘ انور مجید اور اسٹیبلشمنٹ کا آپس میں کیا تعلق ہے‘ یہ ہم مستقبل میں تفصیل سے بیان کریں گے‘ ہم سرِدست آصف علی زرداری کی صحت کی طرف آتے ہیں‘ آصف علی زرداری11 سال جیل میں رہے‘جیل نے ان کے ذہن پرخوفناک اثرات مرتب کیے‘ یہ2004ء میں رہائی کے بعد ملک سے باہر گئے اور 2008ء تک امریکا کے دو مشہور نفسیات دانوں فلپ سیلٹیل اور سٹیفن ریچ سے علاج شروع کرا دیا‘ یہ زندگی بھر کا علاج تھا‘ مریض نے باقی زندگی ادویات کھانی تھیں‘ یہ ادویات کے شیڈول کو2008ء تک فالو کرتے رہے لیکن پھر یہ صدر بن گئے‘ مصروفیت بڑھ گئی‘ یہ مصروفیت کی وجہ سے اکثر اوقات ادویات چھوڑ دیتے تھے اور کوئی انھیں سمجھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا‘ ادویات کا طویل اور خوفناک تعطل 2011ء کے نومبر دسمبر میں آیا‘ حکومت یلغار کی زد میں تھی‘ میمو سکینڈل شکنجہ بنتا جا رہا تھا۔
دہشت گردی عروج پر تھی اور حکومت کرپشن کے خوفناک الزامات کا شکار تھی‘یہ تمام چیزیں مل کر صدر کو دبانے لگیں‘ دسمبر کے شروع میں انور مجید ایوان صدر آئے اور چار دن مسلسل صدر کے ساتھ رہے‘ یہ صدر کے لیے فل ٹائم ٹینشن تھے‘ حسین حقانی بھی ان دنوں ایوان صدر میں تھے‘ ان پر غداری کا مقدمہ بن چکا تھا ‘ انھیں یقین تھا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری انھیں پھانسی پر لٹکا دیں گے‘ یہ بھی صدر کو مسلسل ٹینشن دے رہے تھے‘ صدر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی من مانیوں سے بھی پریشان تھے‘ ملکی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے‘ فیملی کے ایشوز بھی تھے‘ ادویات بھی بند تھیں اور یہ مسلسل تین دن سے جاگ بھی رہے تھے چنانچہ پانچ اور چھ دسمبر کی درمیانی شب ان کی طبیعت خراب ہوگئی‘ ان پر اینگزائٹی کا خوفناک حملہ ہوا اور یہ ڈپریشن میں چلے گئے‘ بیڈروم میں اس وقت ان کے ساتھ انور مجید اور ملک ریاض تھے۔
رحمن ملک نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ٹھیک ٹھاک تاج پوشی کروا کر بھاگ گئے‘ صدر کا اسٹاف صورتحال سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اچانک صدر اوباما کا فون آگیا‘ اسٹاف نے کال تھرو کر دی‘صدر اوباما کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا وہ کسی المیے سے کم نہیں ‘ مجھے یقین ہے صدر اوباما جب کتاب لکھیں گے تو وہ اس ٹیلی فون کال کا ضرور ذکر کریں گے‘ پاکستان کے صدر نے ان کو حکومت سازی اور دنیا کو قابو میں رکھنے کے طریقے بتانا شروع کر دیے اور یہ انھیں مسلسل 35 منٹ بتاتے رہے‘ صدر اوباما درمیان درمیان میں مسٹر پریذیڈنٹ‘ مسٹر پریذیڈنٹ کرتے رہے لیکن ان کی باری نہیں آئی یہاں تک کہ صدر اوباما نے تھک کر ملٹری سیکریٹری کو مشورہ دیا ’’آپ اپنے صدر کا خیال رکھیں‘ مجھے ان کی صحت ٹھیک نہیں لگ رہی‘‘ اور فون بند کر دیا‘ صدر نے اس کے بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون کیا اور ان کی ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے لگے‘ کال لمبی ہو گئی۔
اسٹاف نے دوسری لائن کے ذریعے جنرل کیانی کو بتایا’’ صدر کی طبیعت ٹھیک نہیں‘ انھیں فوری طبی مدد چاہیے‘ آپ فون بند کریں تا کہ ان کا علاج شروع کیا جا سکے‘‘ جنرل کیانی نے جواب دیا ’’یہ صدر ہیں‘ میں ان کی کال ڈراپ نہیں کر سکتا ‘‘ یوں کال لمبی ہو گئی یہاں تک کہ اسٹاف نے ایوان صدر کا ایکسچینج بند کردیا‘ صدر کو علاج کے لیے اے ایف آئی سی لے جانے کا فیصلہ ہوا لیکن یہ وہاں جانے کے لیے تیار نہیں ہوئے‘یہ ملک سے باہر جانا چاہتے تھے چنانچہ صدر کا طیارہ تیار کرا دیا گیا‘ صدر نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایوان صدر سے ائیرپورٹ پہنچنا تھا اور وہاں سے دبئی روانہ ہو جانا تھا لیکن انھوں نے عین وقت پر حسین حقانی اور ان کی بیگم فرح ناز اصفہانی کو بھی ہیلی کاپٹر میں بٹھا لیا‘ حسین حقانی ای سی ایل پر تھے‘ یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ پائلٹ نے حسین حقانی کے ساتھ ہیلی کاپٹر اڑانے سے انکار کر دیا‘صدر نے حکم دے دیا ’’یہ میرے ساتھ دبئی جائیں گے‘‘صورتحال نازک ہو گئی‘اسٹاف حسین حقانی کو باہر نہیں لے جا سکتا تھا اور صدر حسین حقانی کو ہیلی کاپٹر سے اترنے نہیں دے رہے تھے۔
اسٹاف نے صدر کو راضی کرنے کے لیے بلاول بھٹو کو بلایا لیکن ان کے ساتھ بھی رحمن ملک جیسا سلوک ہوا‘ اسٹاف نے یوسف رضا گیلانی کو بلالیا‘ یہ آئے اور بڑی مشکل سے حسین حقانی کو ہیلی کاپٹر سے اتارا‘ صدر ائیر پورٹ پہنچے اور دبئی روانہ ہو گئے‘ دبئی میں ملک ریاض نے امریکن اسپتال میں بکنگ کرا رکھی تھی‘ ڈاکٹر عاصم حسین نے اس دوران نیویارک سے صدر کا ذاتی ڈاکٹر بلوا لیا‘صدراپنے ڈاکٹر اور نفسیاتی علاج کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے چنانچہ ڈاکٹر عاصم کو اس غلطی کے خوفناک نتائج بھگتنا پڑے‘ بہرحال امریکی ڈاکٹر نے ادویات دوبارہ شروع کرا دیں اور یوں صدر کی طبیعت سنبھل گئی‘ یہ آٹھ دن اسپتال رہے اور اس کے بعد اپنی ذاتی رہائش گاہ میں شفٹ ہو گئے۔ آرمی چیف جنرل کیانی نے اس دوران ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھا کر صدر کی حالت کے بارے میں رپورٹ حاصل کر لی‘بورڈ نے صدر کو ’’ناٹ فٹ فار آفس‘‘ڈکلیئر کر دیا‘ یہ رپورٹ خطرناک تھی۔
یہ اگر سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جاتی توچیف جسٹس صدر کو ہٹا کر نئے صدارتی الیکشن کا حکم جاری کر دیتے لیکن جنرل کیانی نے ’’ساتھیوں‘‘ کے اصرار کے باوجود یہ رپورٹ سپریم کورٹ نہیں بھجوائی تاہم حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور زرداری فیملی کو صورتحال سے مطلع کر دیا گیا‘ صدر آصف علی زرداری 19 دسمبر کو واپس آ گئے‘ صدر کے ذاتی معالجین نے اس دوران بلاول بھٹو کو دو مشورے دیے‘ پہلا مشورہ ادویات سے متعلق تھا‘ بلاول صاحب کو بتایا گیا صدر کی ادویات کسی قیمت پر بند نہیں ہونی چاہئیں‘ یہ ذمے داری آپ اور آپ کی بہنوں کو اٹھانا ہو گی اور دوسرا مشورہ انور مجید سے پرہیز تھا‘ ڈاکٹروں کا کہنا تھا’’ آپ انھیں انور مجید جیسے لوگوں سے بچائیں‘ یہ لوگ انھیں ناقابل علاج بنا دیں گے‘‘ بلاول بھٹو ان دونوں مشوروں پر عمل کرتے رہے لیکن انور مجید کے وار بھی مسلسل چلتے رہے‘ یہ وار 16 جون 2015ء کی تقریر کے وقت بھی چلا اور یہ اس وقت بھی چل رہا ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کو دعا کرنی چاہیے آصف علی زرداری کا انور مجید سے رابطہ ختم ہو جائے۔
یہ رابطہ نہ ٹوٹا تو پارٹی ٹوٹ جائے گی اور یہ انور مجید جیسے لوگوں کی بہت بڑی خواہش ہے‘ یہ اس وجہ سے حساب سے بچ جائیں گے چنانچہ آصف علی زرداری کے پاس اب صرف ایک آپشن باقی ہے‘ سیاست یا انور مجید‘ آصف علی زرداری کو یہ فیصلہ جلد از جلد کر لینا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں یہ بھی میاں نواز شریف کی طرح پانامہ جیسے کسی سکینڈل میں پھنس جائیں گے‘ میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں‘ یہ اب تک بچ رہے ہیں لیکن زرداری صاحب زیادہ لکی ثابت نہیں ہوں گے‘ یہ پھنسیں گے تو ذوالفقار مرزا سے لے کر انور مجید تک ان کے خلاف سلطانی گواہوں کی لائن لگ جائے گی اور یہ گھر کے چراغوں کے دھوئیں میں ڈوب جائیں گے۔