counter easy hit

قائداعظمؒ کی زندگی کے چند اہم واقعات

Some key events of the life of Quaid

Some key events of the life of Quaid

دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد جناحؒ کا شمار ایسی ہی گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے وہ چند واقعات آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
وقت کی پابندی کتنی ضروریوفات سے کچھ عرصہ قبل بابائے قوم نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظمؒ اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے۔ وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے۔ انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں Driver. [downloaded with 1stBrowser]ابھی تک خالی ہیں۔ انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی دوسرے وزراء سرکاری افسر کے ساتھ اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذرا سی غلطی قائداعظمؒ نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولی گئی۔اعلیٰ ظرفیانیس سو ترتالیس میں الہٰ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلبہ کے درمیان اس بات پر تنازع ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرایا جائے۔ مسلمان طلبہ کا ماننا تھا کہ کا نگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہٰ آباد یونیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی، اس لیے یہ پرچم اصولا وہاں نہیں لہرایا جا سکتا۔ ابھی یہ تنازع جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کی یونین سالانہ انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی۔ یونین کے طلبہ کا ایک وفد قائداعظمؒ کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی رسم ادا کریں۔ قائداعظمؒ نے طلبہ کو مبارک باد دی اور کہا اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نازیبا حرکت ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے کہ کیا یہ مناسب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں۔ جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔رشوت ایک ناسورایک jinah. [downloaded with 1stBrowser]بار قائداعظمؒ سفر کر رہے تھے کہ انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں۔ جب وہ سٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔ ٹکٹ ایگزامنر نے کہا آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں۔ قائداعظمؒ یہ سن کر طیش میں آ گئے۔ انہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے۔ بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکھٹے ہو گئے۔ ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظمؒ اسے پکڑ کر سٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے بالاخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آ گیا۔کفایت شعاری اختیار کرومحمد حنیف آزاد کو قائداعظمؒ کی موٹر ڈرائیوری کا فخر حاصل رہا ہے۔ ایک بار قائداعظمؒ نے اپنے مہمانوں کی تسلی بخش خدمت کرنے کی صلے میں انہیں دو سو روپے انعام دیے۔ چند روز بعد حنیف آزاد کو ماں کی جانب سے خط ملا جس میں انھوں نے اپنے بیٹے سے کچھ روپے کا تقاضا کیا تھا۔ حنیف آزاد نے ساحل سمندر پر سیر quaid. [downloaded with 1stBrowser]کرتے ہوئے قائد سے ماں کے خط کا حوالہ دے کر والدہ کو کچھ پیسے بھیجنے کی خاطر رقم مانگی۔ قائداعظمؒ نے فوراً پوچھا ابھی تمھیں دو سو روپے دیے گئے تھے وہ کیا ہوئے؟۔ حنیف آزاد بولے کہ صاحب خرچ ہو گئے۔ قائد اعظم یہ سن کر بولے ویل مسٹر آزاد، تھوڑا ہندو بنو۔وکالت کے اصولوکالت میں بھی قائداعظمؒ کے کچھ اصول تھے جن سے وہ تجاوز نہیں کرتے تھے۔ وہ جائز معاوضہ لیتے تھے۔ مثلاً ایک تاجر ایک مقدمہ لے کر آیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمہ میں میری وکالت کریں۔ آپ کی فیس کیا ہوگی؟۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ میں مقدمے کے حساب سے نہیں بلکہ دن کے حساب سے فیس لیتا ہوں۔ موکل نے پوچھا کہ کتنی؟ تو قائداعظم نے کہا کہ پانچ سو روپے فی پیشی۔ موکل نے کہا کہ میرے پاس اس وقت پانچ ہزار روپے ہیں۔ آپ پانچ ہزار میں ہی میرا مقدمہ لڑیں۔ قائداعظم نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور یہ رقم ناکافی ہو۔ بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کر لیں کیوںکہ میرا اصول ہے کہ میں فی پیشی فیس لیتا ہوں۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنی شرط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں ہی میں جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کئے۔